پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں جیت کیلئے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم انتہائی ارزل سطح پر پہنچ گئی ہے۔ نظریاتی مخالفت کے بجائے ذاتیات پرا وچھے حملے سے بھی گریزنہیں رہاہے۔ اقتدار کی چاہ نے سیاست دانوں کو اخلاقی طور پر اتنا کھوکھلا کردیا ہے کہ اب وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔خواتین کی توہین اور مخالفین کے اہل خانہ کی کردار کشی بھی معمول کا حصہ بن گئی ہے۔ ہر وہ ہتھکنڈہ اپنا یا جارہاہے جو اخلاقیات کے علی الرغم ہے۔ انتخابی میدان مارنے کیلئے اپنی کارگزاری اور کارکردگی بتانے کے بجائے نصف صدی پرانے احوال و اقوال سنائے جارہے ہیں۔سیاست دانوں کی اس اخلاقی پستی سے آزردہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے آج ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے انتخابی مہم کی ان پستیوں کا ذکر کرتے ہوئے حکومت سے کئی سوالات کیے ہیں۔
منموہن سنگھ کو عام طور پرا ن کے مخالفین مون سنگھ کہہ کر ان کی کم گوئی کا مذاق اڑاتے رہے ہیں لیکن آج اپنی کم گوئی کے باوجود انہوںنے جو باتیں کہیں ہیں، ان کاتقاضا ہے کہ انتخاب سے قبل ان پر نہ صرف غور کیاجائے بلکہ اس کی روشنی میں عوام کچھ فیصلے بھی لیں۔ منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا کام بولنا چاہیے نہ کہ وزیراعظم خود اپنے بارے میں بولتے رہیں۔سابق وزیراعظم نے خارجہ پالیسی سے لے کر معیشت کی زبوں حالی، بے روزگاری، مہنگائی اور ملک میں سماجی و معاشرتی سطح پر بڑھتی منافرت اور فرقہ پرستی پر بھی حکمراں جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انہوں نے بی جے پی پر پنجاب اور پنجابیوں کو بدنام کرنے کے الزام بھی عائد کیے ہیں۔
منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ مرکز نے وزیراعظم کی حفاظت کے نام پر پنجاب کے وزیراعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی اور ریاست کے لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح کسان تحریک کے دوران بھی پنجاب اور پنجابیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج جو کچھ ہورہاہے اس سے وہ بڑے دکھی ہیں۔موجودہ حکمران ساڑھے سات سال کی حکمرانی کے بعد بھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی اصلاح کرنے کے بجائے عوام کے مسائل کیلئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو مورد الزام ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپنی غلطیوں کو چھپانے کیلئے ملک اور اس کی تاریخ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ 10 سال تک وزیراعظم کے طور پر کام کرنے کے بعد میں نے اپنے آپ کو بولنے کے بجائے اپنے کام کو بولنے دینا پسند کیا۔ ہم نے سیاسی فائدہ کیلئے ملک کو تقسیم نہیں کیا۔ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی اور وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو مجروح کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود ہم نے بین الاقوامی سطح پر ملک اور اہل وطن کا نام روشن کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے خلاف بی جے پی اور اس کی بی اور سی ٹیموں کے پروپیگنڈے کا پردہ فاش ہو گیا ہے اور آج ملک ان اچھے کاموں کو یاد کرتا ہے جو ہم نے 2004 سے 2014 تک کیے تھے۔بے روزگاری، مہنگائی اور کسان، طلبا اور تاجروں کے مسائل کا سبب بتاتے ہوئے منموہن سنگھ نے اس کیلئے موجودہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ حکومت ان حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں عوام کو پھنسارہی ہے۔ جعلی اور کھوکھلی قوم پرستی کو ملک کیلئے انہوں نے زہر بھی قرار دیا۔
پیرانہ سالی کے مختلف امراض کے شکار منموہن سنگھ کی یہ آزردگی دیکھاجائے تو ملک کے ہرسنجیدہ اورباشعور شخص کی آزردگی ہے۔ سیاست دانوں کے اخلاقی زوال کی وجہ سے ہی آج ملک فرقہ پرستی اور منافرت کی آگ میں جل رہاہے۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ کہتا ہے ’’ راہل گاندھی سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت مانگتے ہیں‘ کیا ہم نے پوچھا کہ آپ راجیو گاندھی کے بیٹے ہیں یا نہیں؟‘‘ یہ غیر مہذب اورحقارت آمیز انداز بیان دیگ کے ایک دانے کی طرح ہے، اسے دیکھ کر ہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انتخابی مہم کس سطح تک گرگئی ہے۔اب تو یہ مقابلہ چل رہاہے کہ کون کتنی بری اور گھٹیاباتیں کرسکتا ہے، کون زیادہ سے زیادہ گالی گلوج کرسکتا ہے، الزام تراشی میں سب سے آگے کون آسکتا ہے۔
اقتدار کیلئے اخلاق اور کردار کی یہ تنزلی جہاں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں کھودرہی ہے، وہیں ملک میں فرقہ پرستی اور منافرت کو بڑھاوادے رہی ہے۔ قوم پرستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ سرحدوں کی حفاظت، امن و امان، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، خیر سگالی، ترقی، روزگار اور پرامن بقائے باہمی کی باتیں کی جائیں جیساکہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے آج اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے۔
[email protected]
انتخابی مہم اور سیاست دانوں کی اخلاقی پستی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS