ڈاکٹر سیّد احمد خاں
انسانی آبادی کے اعتبار سے ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور 1,236,344,631 نفوس والا ملک ہے۔اِسی وجہ سے اِس کے صحتی مسائل بھی بڑے مختلف، متنوع اور پیچیدہ ہیں۔ اِس میں بسنے والے لوگ مختلف مزاج اور ماحول کے ہیں، یہاں کی آب و ہوامیں بھی بڑا تنوع ہے، اِسی لیے ہر موسم میں اِس کے کسی نہ کسی حصے میںبیماریوں کا ایک سلسلہ رہتا ہے اورجس کے انسداد کے لیے محکمۂ صحت بھی سر گرمِ عمل رہتا ہے۔ ہندوستان میں علاج کے جو متعدد طریقے اور نظام رائج ہیں، اُن میںایلو پیتھی کے علا وہ وزارتِ آیوش کے تحت آنے والے علاج کے مختلف طریقے اور نظام شامل ہیں،اُنہیں میں سے ایک یونانی پیتھی بھی ہے۔
یونانی طب ہندوستان کی مقبولِ عام نظامِ علاج میں سے ایک ہے۔ اِس کی اپنی تھیوریز اور فلاسفیز ہیں، جن کے تناظر میں صحت کی بقا اور بیماریوںکے اِنسداد کی تدابیر تلاشی جاتی ہیں ۔اِس ملک میں وزارتِ آیوش کے تحت علاج کے جو نظام اور طریقے رائج ہیں، اُن کے اپنے وجود کی بقا، اپنے تشخص اور اپنے حقوق کی یافت یا باز یافت کے اپنے مسائل ہیں۔ ارباب ِ حل و عقد کی جانب سے بھی ان پر موقع بموقع ’شب خوں‘ مارنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ جن کے انسداد اور تدارک کے لیے اس فن کے حاملین اور پیروکاروں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر آواز بلند کرنی پڑتی ہے۔ آزادی سے پہلے دیسی طبوں پر انگریزوں کی مخصوص سوچ کی وجہ سے ایک اُفتاد پڑی تھی اور ان کواپنے ہی وطن میں اپنے وجود اور اپنے تشخص کی جنگ لڑنی پڑی تھی۔ چنانچہ انگریزوں اور انگریز نما ہندوستانیوں تک اپنی آواز، احتجاجی آواز پہنچانے کیلئے 1906 میں عظیم مجاہد ِ آزادی مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی قیادت میں ’ آل انڈیا آیورویدک اینڈ یونانی طبّی کانفرنس ‘ کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اِس پلیٹ فارم سے دیسی طبوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے بڑے انقلابی قدم اُٹھائے گئے تھے اوراُن کی موثر آواز میںبابائے قوم مہاتما گاندھی اور اُن کے رفقاء کی آوازوں نے مزید حیاتیاتی عناصر بھر دیئے تھے۔ بالآخر اُن کی باتیں سُنی گئیں اور اُن کے مطالبات بہت حد تک تسلیم بھی کیے گئے۔ وطن آزاد ہوا اور اِس کے پیش منظر کو پڑھتے ہوئے ویدوں کو عملاً اِس تحریک سے وابستگی میں کوئی دلچسپی اور ضرورت نہیں رہی۔ آزاد ی کے بعدا نگریز تویہاں سے چلے گئے ، لیکن انگریز نما ہندوستانیوں کی’ بیمار سوچ ‘سے نبرد آزما ہونے کا مسئلہ اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ بالخصوص یونانی طب کے ساتھ ہنوزباقی تھا، اپنے تشخص اورحقوق کی بازیابی کی جنگ ادھوری تھی، جو انگریزوں کی سی مضمحل سوچ رکھنے والے ہندوستانی اَرباب ِ حل وعقد سے ابھی لڑی جانی تھی، اِسی مقصد سے طب یونانی کے دانشوروں نے 1952 میں ویدوں کے اشتراک کے بغیر ’ آل انڈیا یونانی طبّی کانفرنس ‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اِس تنظیم کے تحت اُس دور میں بلاشبہ بڑے اہم اور معرکۃ الآراء کام انجام پائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ طبّی فکر و شعور رکھنے والی بعض اہم شخصیات، ڈاکٹر اے یو اعظمی (سابق رکن پارلیمنٹ)، حکیم صیانت اللہ امروہوی اور حکیم پروفیسر سید اشتیاق احمد (اللہ اِن مرحومین کی قبروں کوا پنے انوار سے بھر دے) نے بوجوہ ایک اور طبّی تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس کی اورا ِس طرح 1990 میں ’آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس‘ کا وجود عمل میں آیا۔
آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس نے اپنے قیام کے روز ِ اوّل سے ہی یونانی طب کے مسائل کو ایک نئے عزم، نئی فکر اور نئے لائحۂ عمل کے ساتھ اربابِ گرہ کُشا کے سامنے رکھنے کی کوششیں شروع کردیں اور الحمدللہ اس کو ارباب ِ اقتدار سے بہت سے طبّی مسائل حل کرانے میںکامیابی حاصل بھی ہوئی۔ آج عوام الناس اور حکومت کی سطح پر تنظیم کی آواز توجہ اور اہمیت کے ساتھ سُنی جاتی ہے،لیکن تنظیم سے وابستہ افراد کسی خوش گمانی میں مبتلا ہوئے بغیر مسلسل سر گرمِ عمل ہیں اور اب تک ملک کی24 ریاستوں میں اِس کی اکائیاں قائم ہوچکی ہیں اور اپنے طبّی مسائل بڑے موثر انداز میں اٹھاتے رہتے ہیں۔
آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کی تحریک پر 18اگست 2010 کے ایک اعلانیہ کے ذریعہ محکمہ آیوش، وزارتِ صحت و خاندانی بہبود ، حکومت ہند ، نئی دہلی نے 12 فروری کو مجاہد آزادی، مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاںکے یومِ ولادت کی مناسبت سے ’عالمی یومِ طب یونانی‘ قرار دیا۔ یہ اعلانیہ مسیح الملک کی ملکی اور طبّی خدمات کا نہ صرف اعتراف ہے ، بلکہ ہمیں اِس نظامِ علاج کی توسیع اور تشہیر کے لیے واضح لائحۂ عمل مرتب کرنے اور اس پر استقامت سے عمل کرنے کی فکر بھی دیتا ہے۔
آج آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کی تاسیس کے 32 سال ہوگئے ہیںاورہم 2015 کو سلور جوبلی سال کے طور پر منا چکے ہیں اور کامل احساسِ ذمہ داری کے ساتھ پورے سال طب یونانی کے حوالہ سے ملک کی ہر ریاست میں ’ یونانی طب بیداری تقریبات‘ کا انعقاد کریںگے۔
’عالمی یونانی میڈیسن ڈے‘ کے موقع پر ملک بھر میں مختلف نوعیت کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور اس کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یونانی ڈاکٹروں میں بڑے پیمانے پر بیداری بھی آئی ہے، اس سے نہ صرف ملک میں طب یونانی کے استحکام کی ضمانت ملی بلکہ مزید فروغ کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔ یہ امر بھی یقینا خوش آئند ہے کہ وزارتِ آیوش، حکومت ہند کی جانب سے باضابطہ طور پر 2017 سے 11فروری کو ’یونانی ڈے‘ منائے جانے کی روایت شروع کی گئی اور سنٹرل کونسل فار رِیسرچ اِن یونانی میڈیسن (سی سی آر یو ایم) کے زیراہتمام یہ فریضہ انجام پاتا ہے۔
(ڈپٹی ڈائریکٹر، سی سی آریو ایم، حکومت ہند، نئی دہلی)
مسیح الملک حکیم اجمل خاں کی خدمات اور ’یونانی میڈیسن ڈے‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS