زین شمسی
شروعات میں انسان بے لباس رہا کرتا تھا۔وقت کے ساتھ اس کی فکری ترقی نے اسے کپڑا پہننے کی جانب متوجہ کیا۔ آج جس لباس میں میں آپ سے روبرو ہوں وہ دانشوری، ترقی، تہذیب اور اخلاق کا منتہائے عروج ہے۔ جس پر انسان عہد بہ عہد تاریکیوں کاسفر پورا کرتا ہوا اجالے کی طرف پہنچا ہے۔ دور برہنگی پچھڑے پن کی نشانی ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ انسان کی سوچ زمانہ قدیم کی طرف واپس جارہی ہے۔ یہ الفاظ نوبل انعام یافتہ یمنی خاتون توکل کارمین کے ہیں۔ جن سے تقریب اسناد کے دوران یہ پوچھا گیا تھا کہ آپ اتنی بڑی تقریب میں حجاب پہن کر آئی ہیں، جسے خواتین کے لیے جبر اور پچھڑاپن کا لباس کہا جاتا ہے۔ کارمین کے مذکورہ جواب کے بعد سامعین کے پاس تالیاں بجانے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔
انگلینڈ کا ایک واقعہ اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب ایک سکھ نوجوان کو پولیس نے بغیر ہیلمٹ کے42ویں دفعہ پکڑا کہ وہ ہیلمٹ کی جگہ پگڑی پہن کر اسکوٹر کیوں کر چلا سکتا ہے۔ بعدازاں عدالت نے اسے ہی نہیں بلکہ سکھ فرقہ کو اس بات کی اجازت دے دی کہ اس فرقہ کو گاڑی چلاتے وقت ہیلمٹ کی لازمیت نہیں ہے۔
فرانس، بلجیم، روس سمیت کئی ممالک نے تو باضابطہ اسلامی فوبیا کو حجاب فوبیا میں تبدیل کر دیا اور حجاب کو پسماندہ سوچ قرار دے رکھا ہے۔ حتیٰ کہ حجاب، نقاب یا پردہ پر جرمانہ کا بھی التزام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کھیل کے میدان سے بھی حجاب پہننے پر پابندی کی خبر دنیا نے سنی ہے۔ اولمپک اور فیفا نے تیراکی کے مقابلہ میں برقعین پر پابندی عائد کی ہے۔ برقعین برقعہ اور بکنی کا مخفف ہے، جسے اسلامی ممالک کی خواتین پیراک تیراکی کے مقابلہ میں زیب تن کرتی ہیں۔ تاہم بھارت کی معروف ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کے منی اسکرٹ پر بھی مسلمانوں کے ایک طبقہ سے احتجاج کی آواز بلند ہوئی تھی، جس کے جواب میں ثانیہ نے کہا تھا کہ وہ کھیل دیکھیں، لباس نہیں۔ ثانیہ کا یہی جواب اولمپک اور فیفا کے لیے بھی ہونا چاہیے کہ وہ مقابلہ دیکھیں برقعین اور بکنی پر توجہ نہ دیں۔ اگر کوئی کھلاڑی اپنے لباس کی وجہ سے مقابلہ ہار جاتا ہے تو یہ اس کا اور اس کے ملک کانقصان ہے نہ کہ فیفا یا اولمپک کا۔
ایران میں ایک خاتون پر ہزاروں ڈالر کا جرمانہ اس لیے عائد کر دیا گیا تھا کہ اس نے دفتر میں حجاب نہیں پہنا تھا۔ اسی طرح طالبان حکمراں بھی خواتین کے لباس پہننے پر اپنی مرضی تھوپتے رہے ہیں۔ بھارت میں رادھے ماں کو اسکرٹ پہن کر رقص کرنے پر خوب ٹرول کیا گیا تھا۔ لباس کے معاملے میں سماجی جبر کا یہ بھی احتجاج دیکھنے کو ملا ہے کہ جب یوروپ اور امریکہ کی سڑکوں پر خواتین بے لباس نکل پڑیں اور پاکستان میں بھی فحش ڈریس کے ساتھ خواتین ’میرا جسم میری مرضی‘ کا بینر اٹھائے گھروں سے نکل گئیں۔
گویا خواتین کو لباس پہنانے اور خواتین کا لباس اتارنے کی تمام ذمہ داری مرد سماج نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ خواہ وہ سیاست کے نام پر ہو یا مذہب کے نام پر۔ اس معاملے میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ جسم خواتین کا ہوگا اور مرضی مردوں کی۔
کیرالہ کا بھی واقعہ خوب یاد ہے۔ جب عدالت نے کہا کہ امتحان کے دورانیہ میں2گھنٹے اگر حجاب نہ پہنا جائے تو عقائد پر اثر نہیں پڑے گا، بعد میں رولنگ دی گئی کہ ممتحن چاہیں تو جانچ کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات اور ہنگامے کا دور دورہ اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔کرناٹک میں جو ہو رہا ہے، وہ لباس پر نہیں ہورہا ہے وہ لباس دیکھ کر پہچان پر ہورہا ہے۔ یوں تو اسکول انتظامیہ یہ طے کرتا ہے کہ اس کے اسکول کا یونیفارم کیا ہوگا۔ یونیفارم ضروری ہے تمام طلبا کی یکسانیت کے لیے، مگر یونیفارم کے اوپر اگر کسی مذہب کی طالبہ اپنے عقیدے کے مطابق کچھ پہن لیتی ہے تو اس میں انتظامیہ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ کسی بھی اسکول یا کالج کا دستور بھارت کے دستور کے ماتحت ہی ہے۔ اگر آرٹیکل25ہر آدمی کو اپنے مذہب کے مطابق جینے کا حق دیتا ہے تو کوئی بھی انتظامیہ اس سے اس کاحق نہیں چھین سکتا۔ اسے اپنے دستور میں تبدیلی لانی ہوگی نہ کہ آئین کو چیلنج کرنا ہوگا۔ دراصل اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنایا جارہا ہے ۔ اس کو سنگین مسئلہ بنانے کے لیے ہی کنیز فاطمہ پر بھگوا ذہنیت کے لاتعداد لوگوں کا جھنڈ ٹوٹ پڑا۔ یہ اس لڑکی کا حوصلہ ہی ہے جس نے دشمنوں کے ہالے کو توڑتے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ یہ اس کی حمیت اسلامی تھی، لیکن اس طرح کا ماحول یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہم اور ہمارا معاشرہ نفرت کے سب سے گھناؤنے مقام تک پہنچ چکے ہیں۔
کپڑا پہننے اور کپڑا اتارنے کے اس تمام قواعد کا اثر عورت سمیت معاشرہ پر بھی خوب پڑا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے کھانا کھانے اور نہ کھانے کا پڑا۔ سماجی نفرت کا خاتمہ عدالت کے کٹہرے میں ہونا مشکل ہے۔اسے ختم کرنے کے لیے سماج کے ہی بڑے طبقے کو سامنے آنا ہوگا۔ سیاسی طور پر بھی اور تعلیمی طور پر بھی۔ کیونکہ اب یہ زہر طلبا تک پہنچ چکا ہے۔ اب نئی نسل بھی نفرت کے ساتھ بڑی ہو رہی ہے۔ اس کا نتیجہ بے حد خطرناک ہو نے والا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]