دوتین دہائی پہلے بیشتر لیڈران کچھ بولتے ہوئے یہ خیال رکھتے تھے کہ ہر لفظ کی اپنی اہمیت، اپنا اثر ہوتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ان کے بولنے کے وقت اور انداز سے لفظوں کا غلط مفہوم نکال لیا جائے اور عوام میں ان کی شبیہ مسخ ہو جائے۔ اصل میں وہ مریادا میں رہ کر ہی جیت یا ہار کے بارے میں سوچا کرتے تھے، ہرحال میں جیتنا نہیں چاہتے تھے مگر آج کے بیشتر لیڈروں کے لیے اہمیت ’ہر حال میں جیت‘ حاصل کرنے کی ہے، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بولنے کا اثر عوام پر کیا پڑے گا، ان کے الفاظ تہذیب پر کیسے اثرات مرتب کریں گے، ان کے لیے اہمیت بس اس بات کی ہوتی ہے کہ عوام کے اس طبقے کو دائرۂ اثر میں لے لیں جن کا ووٹ انہیں چاہیے۔ حیرت اس پر ہے کہ بڑے لیڈران بھی بولنے سے پہلے الفاظ پر غور نہیں کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ’یہ گرمی جو ابھی کیرانہ اور مظفرنگر میں کچھ جگہوں پر دکھ رہی ہے، شانت ہوجائے گی۔ ‘ انہوں نے کہا کہ ’میں مئی اور جون میں بھی شملہ بنا دیتا ہوں۔‘ جواب میں متھرا کی انتخابی ریلی میں جینت چودھری نے کہا کہ ’ایسا بھر بھر کے ووٹ دو، ای وی ایم مشین کو ایسا بھر کے دو، نلکے ہینڈ پمپ کے بٹن کو ایسا دباؤ کہ بی جے پی کی جو چربی چڑھ رہی ہے، سارے نیتاؤں کی چربی اتاردوآپ۔‘ادھر اویسی نے پوچھا کہ ’ زراعت پر قانون واپس لیتے وقت یہ گرمی کہاں چلی گئی تھی۔‘ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے بیانات دینا ضروری ہے، ان کے بغیر سیاست نہیں کی جا سکتی؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کے بیانات سے کس کا بھلا ہوگا، عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟
باعث تشویش یہ بات ہے کہ عوام بھی اس طرح کے بیانات پر تالیاں بجاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ کسی کی ’گرمی‘ یا ’چربی‘ نکالنے سے ان کا کیا بھلا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب عوام کو یہ احساس لیڈروں کو دلانا چاہیے کہ وہ مفاد عامہ پر ان کے منصوبے سننا چاہتے ہیں، ترقی کے کاموں کے لیے وعدہ لینا چاہتے ہیں تو وہ یہ باتیں نہیں رکھ پاتے، پھر بعد میں حالات کا رونا رونے سے کیا فائدہ؟ اگر کوئی لیڈر یہ نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ وہ عوام کا نمائندہ ہے، عوام کے سامنے اسے عوامی نمائندے کی طرح ہی بات کرنی ہے تو اسے عوام کو سمجھانا چاہیے، یہ بات سمجھانی چاہیے کہ اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں جو اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں، ان پر ملک کے لوگوں کی ہی نگاہیں مرکوز نہیں ہیں، ان سے وابستہ خبریں ملک کے ہی اخبارات میں شائع نہیں ہو رہی ہیں، عالمی میڈیا کی بھی ان انتخابات سے دلچسپی ہے، خاص کر یوپی کے انتخابات سے دلچسپی زیادہ ہے، کیونکہ لوک سبھا میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یوپی میں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں۔ اسی لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ دلی کا راستہ یوپی سے ہوکر جاتا ہے اور اسی لیے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل ہے۔ جس نے اترپردیش جیت لیا، اس ریاست میں اپنا دائرۂ اثر قائم رکھا، اس کے لیے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں آسانی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتی ہے، کانگریس ووٹوں اور سیٹوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے، سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کی کوشش ہے کہ ان کی حکومت بن جائے، دیگر پارٹیوں نے بھی جان لگا رکھی ہے مگر جیت کی جدوجہد میںسیاسی مریادا، گنگا جمنی تہذیب، آپسی بھائی چارہ کی باتیں، کسانو ںکے مسئلے، مہنگائی، بے روزگاری، مفلسی ، وکاس کے ایشوز کہیں گم ہو گئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جن ایشوز پر لیڈران زیادہ باتیں کریں گے اور عوام جن ایشوز کو زیادہ پسند کریں گے، حکومت سازی کے بعد ایک حد تک انہی ایشوز کی اہمیت رہے گی، اس وقت لیڈروں کو یہ احساس دلانے سے بھی زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوگا کہ آپ آپسی بھائی چارے کی باتیں کیجیے، کسانو ںکے مسئلوں پر توجہ دیجیے، مہنگائی، بے روزگاری اور مفلسی سے نمٹنے لیے سنجیدہ کوشش کیجیے، وکاس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیے۔ انتخابی تشہیر کے دوران ایک اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ بلند شہر میں اکھلیش یادو اور جینت چودھری کا سامنا پرینکا گاندھی سے ہوا تواکھلیش اور جینت نے ہاتھ ہلاکر پرینکا کا استقبال کیا اور پرینکا نے بھی اسی طرح ان کا استقبال کیا۔ یہی ماحول ہونا چاہیے۔
[email protected]
بدلتے حالات، بدلتی سیاست
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS