ڈاکٹر شبانہ نذیر
مارچ 2020 نے اچانک ہمیں ایک ایسے دور میں داخل کردیا جس کا تصور ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ 2019کے آخری دنوں میں یہ خبر ضرور آئی تھی کہ چین میں ایک وائرس آیا۔۔۔ خطرناک ہے۔۔۔ لیکن ایسا خطرناک ثابت ہوگا یہ سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔ دو۔۔۔ چار۔۔۔ چھ ملک نہیں، پوری دنیا ہی جہاں کی تہاں تھم جائے گی۔ ایک عجیب خوفناک دور تھا وہ۔ بازار بند، اسکول بند، دفتر بند، کاروبار بند۔۔۔ اور ایسے میں وہ مزدوروں اور کامگاروں کا پلائن(ہجرت)۔ کیسا دل دہلا دینے والا منظر تھا، آج بھی یاد کرکے روح کانپ جاتی ہے۔ اس وقت تو ہر شخص بس اپنی جان بچانے میں لگا تھا اور پھر دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی تو کرنا ہی تھا۔ ہر شخص پریشان تھا، فرق تھا تو بس اس کی پریشانی کی نوعیت کا۔ جب ذرا راحت ملی تو خیال آیا کہ زندہ رہنے کے لیے روٹی کے علاوہ تعلیم بھی بے حد ضروری ہے اور پھر سلسلہ شروع ہوا آن لائن تعلیم کا۔ لیکن ہندوستان جیسے وسیع اور محدود وسائل والے ملک کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آن لائن ٹیچنگ کے لیے کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں، وہ ہر خاص و عام کو میسر ہوں یہ ناممکن تھا۔
پہلی اور بنیادی ضرورت اسمارٹ فون۔ پلک جھپکتے ہی اسمارٹ فون ہر بچے کی ضرورت بن گیا تھا۔ بہت مشکل تھا۔۔۔ وہ مزدور جو روزکماتا، روز کھاتا ہو اور اس کا کام بھی چھوٹ گیا ہو مگر اپنے بچوں کو پڑھانے کا خواب دیکھ رہا ہو، کیا وہ اپنے ہر بچے کو اسمارٹ فون دلاسکتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 2020میں 54فیصد لوگ ہی اسمارٹ فون استعمال کررہے تھے۔ 2040میں بڑھ کر 96فیصد ہونے والا تھا۔ اب ہم زمینی حقیقت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ یقین کیجیے میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہی ہوں کہ کچھ ٹیچرس بھی ایسے تھے جن کے پاس اسمارٹ فون نہیں تھا۔ پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے والا ٹیچر جو دس سے بیس ہزار روپے ہی کماتا ہو، کیا کھائے گا اور کیا بچائے گا۔
انٹرنیٹ کی موجودگی خود اپنے آپ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دوردراز علاقہ اور پھر انٹرنیٹ کا ماہانہ خرچ، وہ بھی اس وقت جب کاروبار بند ہوں اور آگے بھی کچھ نظر نہ آرہا ہو۔ ہمارا مقصد صرف ایک خاص طبقے کے بچوں کو تعلیم دینا نہیں ہے، ہم ’تعلیم سب کے لیے‘ کے اصول کے پابند ہیں اور اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ اس آن لائن تعلیم سے ایک بڑا حصہ محروم رہ گیا تھا اور جن کے پاس یہ تمام سہولتیں میسر تھیں، وہاں بھی کوئی بہت پرامید صورت حال نہیں تھی۔ ہاں کورس پورا کرایا جارہا تھا، خانہ پری ہورہی تھی۔ درحقیقت ہمارا ٹیچربھی تو اس نظام کے لیے تیار نہیں تھا اور پوری ذمہ داری ٹیچر پر ہی آگئی تھی۔ ہمارے اساتذہ نے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ نہ تو بچوں کی وہ توجہ تھی، نہ وہ ماحول تھا۔ نہ ٹیچر کی انفرادی توجہ تھی، نہ بچوں کا آپس میں میل ملاپ تھا۔ یہ آپسی میل ملاپ بچوں کو زندگی گزارنے کا ہنر سکھانے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ تب ہی تو کہا جاتا ہے کہ اسکول کے در و دیوار بھی پڑھاتے ہیں۔
اب جب حالات رفتہ رفتہ بہتر ہورہے ہیں۔۔۔ ہورہے ہیں کہ نہیں یہ بھی سوال ہے۔ اس کورونا وائرس نے پورے سسٹم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اسکول بھی تو اسی سسٹم کا حصہ ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام شدید بحران سے دوچار ہے۔ کئی چیلنجز ہیں ہمارے سامنے۔سب سے بڑا چیلنج ہے بچوں کو سسٹم میں واپس لانا۔ بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو سسٹم میں واپس نہیں آپارہے ہیں۔ کسی نے والدین کو کھودیا ہے، کسی کے والدین کا ذریعۂ معاش ختم ہوگیا ہے تو کسی کے والدین بیماری کی وجہ سے اتنی محنت نہیں کرپارہے ہیں یا پھر اس دوران ان پر قرض زیادہ ہوگیا ہے، ان تمام حالات میں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کو تعلیم چھوڑ کر کام کرکے پیسہ کمانے کی فکر ہوگئی ہے۔ درحقیقت اس عالمی وبا میں سب سے زیادہ استحصال بچپن کا ہوا ہے۔
اب بات کریں ان بچوں کی جو سسٹم میں واپس آگئے ہیں، پاس ہوگئے ہیں، اگلی جماعت میں بھی آگئے ہیں مگر۔۔۔ حقیقت میں پچھلی جماعت کی پڑھائی بھی بھول چکے ہیں۔ اکثر بچوں کی تعلیمی سطح اپنی موجودہ جماعت سے کم سے کم ایک درجہ نیچے چلی گئی ہے۔ ایسے میں ایک بڑا چیلنج اس خلا کو بھرنا ہوگا، یوں کمزور بنیاد پر تو عمارت نہیں کھڑی کی جاسکتی۔ یہی وجہ رہی ہے کہ امریکہ کے دانشوروں کا کہنا تھا کہ اسکول سب سے آخر میں بند کیے جائیں اور انہیں سب سے پہلے کھولنے کے بارے میں سوچا جائے۔ موجودہ صورت یہ ہے کہ اقتصادی اور معاشی منصوبہ بندی پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے جبکہ دیر تک اور دور تک جو نقصان ہونے والا ہے، وہ تعلیم کے میدان میں ہے۔ بچے آن لائن پڑھ کر پریکٹیکل کرکے ڈاکٹر اور انجینئر بن گئے۔ دوسری طرف جس بچے کا تعلیمی سفر ابھی شروع ہونا تھا جسے گھر سے باہر نکل کر سماج میں جینا سیکھنا تھا، وہ تو زندگی کی دوڑ میں پہلے ہی سال پچھڑ گیا۔
بچے گھر میں بیٹھے بیٹھے سست ہوگئے ہیں۔ ان کی لکھنے کی صلاحیت بہت کم ہوگئی ہے۔ موبائل اب ان کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس میں اور کیا کیا کررہے ہیں، اس پر نظر رکھنا مشکل کام ہے۔ خبریں تو یہاں تک آرہی ہیں کہ بچے آن لائن کھیل کھیلتے کھیلتے خودکشی تک پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ درحقیقت تعلیمی نظام کو معمول پر لانے کے لیے بہت مشقت درکار ہے۔ یہ کوئی کارخانہ نہیں ہے کہ کھلا اور کام چالو۔ یہاں بڑے پیمانہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ برج کورس تیار کیے جائیں ہر ایک جماعت کے لیے اور پھر اس پر سنجیدگی سے عمل بھی ہو۔ سرکار کی مداخلت کے بغیر یہ کام ہونا مشکل ہے۔
سرکاری محکمہ کو دوباتوں پر توجہ دینی ہوگی، پہلی تو یہ کہ ڈراپ آؤٹ بچوں کو جہاں تک ہوسکے سسٹم میں واپس لایا جائے اور دوسرے جو تعلیمی طور پر پستی آئی ہے اس کو دور کرنے کے لیے کارگر پالیسیاں بنائی جائیں۔یہ بے حد ضروری ہے ہمارے بچوں کی زندگی کے لیے اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے۔
(مضمون نگار سابق پرنسپل ہیں)