عبدالماجد نظامی
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں 2022-2023 کا جو سالانہ بجٹ پیش کیا ہے، اس میں بظاہر کسانوں، مزدوروں اور متوسط طبقہ کے شہریوں کے لیے کچھ خاص نظر نہیں آ رہا ہے۔ کورونا کی زد میں آکر جن لوگوں کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی، انہیں یہ توقع تھی کہ شاید ان کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے گا لیکن یہ امید بر نہیں آئی۔ بجٹ کے مطالعہ سے تو یہی لگتا ہے کہ صحت، تعلیم اور روزگار کے مسائل بدستور جاری رہیں گے کیونکہ انہیں حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں بلکہ اس کے برعکس بجٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی کے تناسب میں صحت کا بجٹ زیادہ نہیں بڑھا ہے، اسی طرح دیہی ملازمت کے پروگرام کے لیے جو رقم طے کی گئی ہے وہ گزشتہ بجٹ کے مقابلہ کم ہے۔ اس کے باوجود اس بجٹ کی تعریف اس اعتبار سے کی جارہی ہے کہ یہ الیکشن بجٹ نہیں ہے۔ یعنی ایسے وقت میں جبکہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا گھمسان جاری ہے یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ عوامی جذبات کی رعایت، کسانوں،مزدوروں اور متوسط طبقہ کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے شاید مودی سرکار سالانہ بجٹ میں ان طبقوں کے مسائل کو پیش نظر رکھ کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرے گی اور بعض مراعات کا اعلان کرے گی۔ خاص طور سے اس لیے بھی کہ اترپردیش جیسا اہم صوبہ اس الیکشن موسم کا حصہ ہے۔ مودی سرکار میں اترپردیش کو جو اہمیت حاصل ہے وہ جگ ظاہر ہے۔ اس اسٹیٹ میں 2017 کے بعد سے ہی زعفرانی رنگ کا ایک جلوہ نظر آتا ہے کیونکہ گجرات کے بعد یوپی ہی وہ دوسرا اہم صوبہ بن گیا ہے جہاں ہندوتو کی پالیسیوں کو پوری جارحیت کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی لیے اترپردیش میں ہونے والے ہر بدلاؤ کو سیاسی تجزیہ نگار بڑی گہرائی سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہاں جو ہوا آج چل رہی ہے، اسی سے یہ طے ہوگا کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بر آمد ہونے کے بعد ہندوتو کی کشتی 2024 میں اپنا سفر کس سمت میں طے کرے گی۔ اترپردیش کی یہ اہمیت صرف اسی لیے نہیں ہے کہ یہ سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ اس کو ان دنوں ہندوتو پروجیکٹ کے تناظر میں جو مرکزیت حاصل ہوگئی ہے وہ بھی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کی اپنی ایک دوسری وجہ بھی ہے جو موجودہ صورحال کے پس منظر میں زیادہ اہمیت کی حامل بن گئی ہے۔ سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ مغربی بنگال کے بعد اترپردیش واحد ایسی بڑی ریاست ہے جہاں بی جے پی کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ جس ہندوتو پروجیکٹ کا استعمال کرکے ایک خاص قسم کی سیاست کا آغاز کیا گیا تھا اور جس کی بدولت اپوزیشن کا دائرہ تنگ پڑ گیا تھا، اچانک سے اس میں بڑی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ اپوزیشن کا ایک مضبوط محاذ کھڑا ہوگیا ہے جو ہندوتو پروجیکٹ کو بری طرح ٹکر دے رہا ہے۔ یوپی الیکشن میں اس بار یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ یہاں مذہب کے مقابلہ میں ذات پات کی جیت ہوگی یا منڈل پر ہندوتو کا پرچم لہرائے گا۔ گویا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں آدتیہ ناتھ نے جس جارحانہ ڈھنگ سے ہندوتو پروجیکٹ کو نافذ کیا ہے، اس کی کامیابی اور ناکامی کا اشارہ اسی اسمبلی الیکشن کے نتائج سے مل جائے گا اور پھر ملکی سیاست پر اس کے واضح اثرات مرتب ہوں گے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے2017کے اسمبلی انتخابات میں بڑی کامیابی اس وقت حاصل کرلی تھی جب اس نے کئی ذات پات کے اہم لیڈروں کو اپنا حلیف بنا لیا تھا اور متحدہ محاذ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ لیکن2022میں وہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں جن پالیسیوں پر یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار نے عمل کیا، وہ پالیسیاں ہی بکھراؤ کا سبب بن گئیں۔ اس بار سماج وادی پارٹی زیادہ اسمارٹ نظر آ رہی ہے۔ وسائل کے فرق کے باوجود اس نئے گٹھ بندھن نے عوام تک اپنی بات پہنچانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اس سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ اترپردیش میں ہوا کا رخ کافی تیزی سے بدل رہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران پر اس کا واضح اثر بھی نظر آتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ فرقہ واریت کی جس سیاست پر اس نے اپنی ترقی کی بنیاد رکھی ہے، وہی اس بار متزلزل نظر آرہی ہے۔ فرقہ واریت کی دھار کافی کند پڑ گئی ہے اور مظفر نگر میں 2017کا ماحول نہیں ہے۔ مغربی یوپی کے عوام کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ انہوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ کسان تحریک نے اس احساس کو زیادہ موثر ڈھنگ سے سمجھانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ لوگ اپنے اقتصادی مسائل کی روز بروز بڑھتی پیچیدگی سے زیادہ پریشان ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان ملازمت کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر اتر رہے ہیں جہاں انہیں پولیس اور سرکار کی بربریت کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ کسانوں کی تحریک ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک نیا مسئلہ سامنے آگیا۔ ان مسائل کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاست کا درجۂ حرارت مقامی اور ریاستی دونوں سطح پر نارمل ہو رہا ہے۔ اس نارمل سیاسی درجۂ حرارت کے ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا، وہ جگ ظاہر ہے کیونکہ 2017کی کامیابی نے فرقہ پرستی اور آمریت پسندی کے جس ماحول کو سازگار بنا دیا تھا اس کو قائم رکھنے میں ہندوتو کی سیاست بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ جس ہندوتو کے خوف سے اپوزیشن پارٹیاں گزشتہ پانچ برسوں تک سڑکوں پر نظر تک نہیں آئیں، انہیں کسان تحریک اور لکھیم پور کھیری واقعہ نے نئی زندگی عطا کر دی اور ریاست میں سیاست کا ڈھانچہ ہی بدل گیا۔ یہ بدلی ہوئی سیاست کا اثر تھا کہ آر ایس ایس کے تعاون سے بی جے پی نے جو ہندو اتحاد قائم کیا تھا، وہ بکھراؤ کا شکار ہوگیا اور بی جے پی کی سیاست کی پول کھل گئی۔ جن سیاسی پارٹیوں نے ان کے ساتھ اتحاد کیا تھا انہوں نے ہی یہ الزام لگا دیا کہ بی جے پی انہیں پاور میں اتنا حصہ نہیں دینا چاہتی ہے، جتنے کے وہ حق دار ہیں۔ جب سی اے اے/این آر سی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس وقت یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار نے اسی ہندوتو پالیسی کے زعم میں بڑی سفاکیت کا مظاہرہ کرکے تحریک سے وابستہ لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور بے قصوروں کو اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں۔ اس وقت یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی کہ کسان تحریک سے پیدا ہونے والی سیاسی اور سماجی بیداری کی روشنی میں ہندوتو کا پروجیکٹ اس قدر بے اثر ہو جائے گا کہ بی جے پی کا اتحادی آشیانہ ہی بکھر جا ئے گا۔ اب دیکھنا صرف یہ ہوگا کہ اس بدلی ہوئی رُت کا ووٹ پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ مرحلہ بی جے پی کے لیے جس قدر مشکل ہے، اسی طرح اپوزیشن کے لیے بھی چیلنجز سے پُر ہے۔ اصل امتحان عوام کی سیاسی اور سماجی بیداری کا ہے۔ وہی طے کریں گے کہ اس ملک میں آئندہ بھی دستوری جمہوریت کا علم بلند رہے گا یا ہندوتو کی سیاست ان تمام مشترک تہذیبی سرمایوں کا خاتمہ کردے گی جس کی بنا پر ہندوستان نے دنیا کی کامیاب جمہوریتوں کی فہرست میں اپنا مقام حاصل کیا ہے۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]