شاہد زبیری
یوپی میں سیا سی پارٹیوں کے لئے محشرکی گھڑی سر پر آگئی ہے، اقتدار پا نے اور بچا نے کی جنگ تیز ہوتی جارہی ہے۔ 10فروری کو پہلے مرحلہ کی پولنگ ہو گی۔ ہر پارٹی اپنے اپنے داؤ پیچ چل رہی ہے، سیاسی بساط پر شہ اور مات کا کھیل جاری ہے۔ پہلے سمجھا جارہا تھا کہ اقتدار پر قابض بی جے پی جس طرح جارحانہ انداز کے ساتھ انتخابات کو ’دھرم یدھ‘ کی طرح لڑ رہی ہے اور ہندتوا کا کارڈ کھیل رہی ہے غیر بی جے پی پارٹیا ں اس کا مقابلہ نہیں کر پا ئیں گی اور بی جے پی یکطرفہ طور پر بازی مار لے جائے گی، لیکن بظاہر اچانک حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھا یا عام طور پر جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی اور بی جے پی کا’دھرم یدھ‘ کا رتھ ذات برادی اور’اگڑے پچھڑے‘ کی دلدل میں پھنس گیا جس نے ایک مرتبہ پھر منڈل کمنڈل کی جنگ کی یاد تازہ کر دی ہے۔اس نئی مصیبت کے باوجود بی جے پی ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے اور اس نے ہندتوا کے ایجنڈہ کو لپیٹ کر نہیں رکھا ہے بلکہ اس کی دھار کو مزید صیقل کردیا ہے اور اس جنگ میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سپہ سالار کے کردار میں ہیں، جنہوں نے سہارنپور کمشنری کے کیرانہ اسمبلی حلقہ سے 22جنوری کو مغربی یو پی کی بی جے پی کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور ہندوؤں کی مبینہ نقل مکانی کے ایشو کو گرم کرنے کی پوری کوشش کی۔ 2017کے اسمبلی انتخا با ت اور 2019کے پارلیمانی انتخابات میں بھی بی جے پی کیرانہ کے ایشو کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر استعمال کر چکی ہے اور فائدہ اٹھا چکی ہے، معلوم نہیں اب یہ ایشو اس کے لئے کتنا کار گر ثا بت ہوسکتا ہے۔ 29جنوری کو انہوں سہارنپور کے دیو بند، دیہات اور شہری اسمبلی حلقوں کا دورہ کیا اور سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو پر خوب برسے لیکن جینت چودھری کا نام تک نہیں لیااورمظفر نگر فساد کے زخموں کو کریدا۔ بی جے پی اور امت شاہ کو مغربی یو پی کی جاٹ برادری کی نا راضگی، جاٹوں
اور مسلمانوں کے درمیان مضبوط ہو تے رشتے اور 2013کے فسادات کے بھرتے زخموں سے بڑی فکر لا حق ہے اسی لئے شاہ نے دہلی میں جاٹ
لیڈر پرمیش ورما کے گھر جاٹ برادری کے 250 ’سرکردہ‘لوگوں کا دربار لگا یا ور مبینہ طور پر جاٹوں سے مغلوں کے ساتھ جنگوں کا حوالہ دیا۔ ظاہر ہے کہ مغلوں سے مراد مغل نہیں مسلمان تھے امت شاہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ 29جنوری کے مغربی یو پی کے دوسرے دورے میں امت شاہ پاکستان اور دہشت گردی کے ایشوکو بھی ہوا میں اچھال گئے ہیں۔اپنے پہلے دورہ میں انہوں نے لوکدل اور سماجوادی پارٹی کے اتحاد میں دراڑ ڈالنے کے لئے لوکدل کے جینت چو دھری کو بھی دانہ ڈالااور کہا کہ ایک صحیح آدمی غلط جگہ چلا گیا ہے،بی جے پی کی یو پی میں سرکار بننے پر
ان کو سرکار میں شامل رکھا جائے گا لیکن جینت چودھر ی بی جے پی کی چال کو سمجھتے ہیں اسی لئے انہوں نے دور اندیش لیڈر کے طور پر جواب
دیا اور صاف کہا کہ وہ چونّی نہیں جس کو بی جے پی اچھا ل کر چت پٹ کا کھیل آسانی سے کھیل سکتی ہے اور وہ پالا بدلنے والے نہیں۔یہاں یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ بی جے پی مغربی یو پی کے جاٹوں کو کسان کی حیثیت سے نہیں ہندو جاٹ برادری کی حیثیت سے ہندتوا کی چھتری میں لا نا چا ہتی ہے۔ کسان کی حیثیت میں جاٹوں کو اپنے پا لے میں کھینچنے کی اس میں سکت ہی نہیں رہی جاٹ کسان تو بی جے پی سے خار کھا ئے بیٹھے ہیں۔ مغربی یو پی کے اضلاع میں بی جے پی لیڈر ممبرانِ اسمبلی کو گھسنے نہیں دیا جا رہا ہے اور تو اور بی جے پی کے صو بائی صدر ستیندردیوسنگھ کے قافلہ کے ساتھ شاملی ضلع میں جو کچھ ہوا وہ اسی کی ایک کڑی ہے ان کا غصّہ سرد نہیں ہوا ہے۔ کسانوں کا مشترکہ محاذ ’ سنیکت کسان مورچہ‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں کی وعدہ خلافی کے خلاف 31جنوری کو ملک کے 500اضلاع میں ’وشواس گھات دوس‘ کے تحت احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دینے والے ہیں۔امت شاہ کی طرح ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی 80بنام 20کا کھیل کھیل رہے ہیں، سماجوادی پارٹی کی سرکار میں ہندوؤں کے ساتھ ظلم زیادتی اور دنگا فساد ان کی تقاریر کا مرکز اور محور ہے۔
مظفر نگر کے فساد میں ہلاک ہو نے والے ’سچن‘ اور’گورو‘ان کو یاد آرہے ہیں، میرٹھ کے ہستنا پور میں اپنی تقریر میں انہوں نے ان دونوں کا نام لے کر ذکر کیا ہے۔مغربی یو پی میں زمین بچا نے کے لئے بی جے پی جہاں فرقہ وارانہ ایشوز کو اچھا ل رہی ہے مشرقی یو پی اور سینٹر ل یوپی میں منڈل کی بازگشت نے بی جے پی کی نیندحرام کر رکھی ہے اسی لئے اس نے پسماندہ طبقات کو میدان میں اتارا اور پہلے سے زیادہ ٹکٹ بانٹے ہیں اور اپنی حلیف جماعتوں انو پریہ پٹیل کے اپنا دل اور سنجے نشاد کی نشاد پارٹی جیسی پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کو بھی خوش
رکھنے کے لئے وہ سیٹیں چھوڑ دی ہیں جہاں 2017 میں اس کے امیدوار کامیاب رہے تھے بدلے ہو ئے حالات میں یہ اس کی مجبوری بھی ہے کہ اسے نے جیتی ہو ئی سیٹیں اپنی حلیف جماعتوں کے لئے چھوڑ نی پڑ رہی ہیں۔بی جے پی کے لئے الٰہ باد میں نوجوانوں پر لاٹھی چارج نے نئی آفت کھڑی کردی ہے، ابھی بی جے پی اس سب سے سنبھل نہیں پائی کہ سماجوادی پارٹی اور لوکدل اتحاد نے بنیادی ایشوز اٹھاکر بی جے پی کے سامنے بڑا دھرم سنکٹ کھڑا کر دیا ہے۔ سرکاری ملازموں کی پرا نی پنشن کی بحالی،300یونٹ مفت بجلی اور 22لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی سیکٹر میں
ملازمت دینے کا وعدہ اور رہی سہی کسر گنا کسانوں کو 15دن کے اندر بھگتان کرنے کے وعدہ نے پوری کر دی ہے۔ یہ وعدہ 28جنوری کو گنا بیلٹ کے ضلع مظفر نگر کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اکھلیش یادو اور جینت چو دھری نے کیا ہے۔ دو نوں لیڈروں کی مشترکہ پریس کا نفرنس امت شاہ اور یو گی کی مغربی یوپی کے جاٹو ں کو بہلا نے پھسلا نے کی کو ششوں کا جواب ہے۔ باقی ایشوجس میں بیروزگاری مہنگا ئی اور کورونا کی مار، اینٹی ان کیمبسی فیکٹر اور کسانوں کی ناراضگی اپنی جگہ،خا ص طور پر پنشن بحالی کا ایشو بی جے پی کے لئے دردِ سر ثا بت ہو سکتا ہے۔
پرانی پنشن بحالی کا ایشو 21لاکھ سرکاری ملازمین اور ان سے وابستہ ایک کروڑ سے زائد افرد کو متاثر کرتا ہے۔ پُرانی پنشن بحالی کے لئے یوپی کے ملازمین ایک عرصہ سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں اور دھرنے اور احتجاج بھی کئے گئے ہیں اس لڑائی میں چپراسی سے لے کر افسر تک سب شامل ہیں،وہ بھی شامل ہیں جو ریٹائرڈ ہو گئے، لیکن پنشن نہ ملنے سے عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں اور برا وقت جھیل رہے ہیں۔موجودہ 21 لاکھ میں 5لاکھ
ملازمین وہ ہیں جن کو آؤٹ سورسنگ (ٹھیکہ) پر ایجنسیوں کے ذریعہ رکھا گیا ہے۔اس اہم ایشو پر نہ تو پارلیمنٹ میں اور نہ اسمبلی میں کوئی آواز بلند ہو ئی نہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں اس پر بحث کرا ئی، پارلیمنٹ میں کانگریس سمیت غیر بی جے پی پارٹیوں اور بی جے پی نے دبے الفاظ میں مطالبہ کو صحیح تو مانا لیکن اس کے لئے کچھ کرنے کی بجا ئے اس سے پلّہ جھاڑ لیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لیڈر ایم پی اور ایم ایل اے ایک مرتبہ بن جاتا ہے وہ تاحیات لاکھوں رو پے پنشن پاتا ہے لیکن جو لو گ دفتروں، اسپتالوں اور اسکول کالجوں میں پسینہ بہا تے ہیں جسمانی مشقت اٹھاتے اور دماغ سوزی کرتے ہیں ان کی آواز میں آواز ملا نے کا خیال کسی ایم پی اور ایم ایل اے کو نہیں آیا۔ ان کی حمایت اگر باہر سے کسی
نے کی ہے وہ ان نو جوانوں نے کی جو خود سرکاری ملازمت پانے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ سرکاریں ملازمین کے غصّہ کو کم کر نے کے لئے مہنگا
ئی بھتّہ سے منھ بھرا ئی کرتی رہی ہیں لیکن جوپنشن دی جا تی تھی اس کو کسی سرکار نے بحال نہیں کیا۔ بی جے پی مخالف جماعتوں کا الزام ہے کہ
بی جے پی نے سرکاری ملازمتیں دینے کی بجا ئے آؤٹ سورسنگ سسٹم کو نافذ کر کے پسماندہ طبقات اور دلت طبقات کے ریزرویشن کو ٹہ پر بھی
چھر ی چلا ئی اور اس کے ذریعہ کو ٹہ سسٹم کو نقصان پہنچا یا ہے۔ آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ملازمتوں کا دائرہ اسکول کالج اور سرکاری اسپتالوں تک وسیع ہے، یہاں کسی کو مستقل ملازمت نہیں دی جا تی کبھی بھی کسی وقت بھی کام سے ہٹا ئے جا نے کی تلوار سروں پر لٹکی رہتی ہے۔ شاید اس سب کو سامنے رکھتے ہوئے ہی عین موقع پر سماجوادی پارٹی نے پنشن بحالی کی گیند کو ہوا میں اچھا ل دیا ہے۔دوسرا ایشو جو بی جے پی کے ’دھرم یدھ‘کے رتھ کا روڑہ بن سکتا ہے وہ ہے نوجوانوں کا وہ طبقہ جو یوپی کے کل ووٹروں کا 25فیصد ہے جس کی اکثریت بیروز گار ہے اور جو پارٹیوں کے سروں پر اقتدار کا تاج رکھنے میں اہم کر دار ادا کرتا رہا ہے وہ چا ہے 2007 میں بی ایس پی رہی ہو جو 403سیٹوں میں سے
206سیٹیں جیت کر مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار پر قابض ہو ئی تھی، سماج جوادی پارٹی جس کو 2012 میں 224سیٹیں ملی تھیں اور یا بی جے پی جس نے 2017میں 312سیٹیں لے کر گزشتہ ریکارڈ توڑ دئے تھے، اسی لئے کا نگریس نے انتخا بات میں نو جوانوں کی اہمیت سمجھتے ہوئے جہاں 20لاکھ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے اور ’بھرتی ودھان چناوی گھوشنا پتر‘ منشور جا ری کیا ہے اس کے تحت ہنر کو فروغ دینے، اسکل سینٹر کے کلسٹر قائم کرنے کے ساتھ بیروزگار نوجوانوں کو روز گار دئے جانے کا وعدہ شامل ہے۔ علاوہ ازیں پرینکا گاندھی واڈرا کا تازہ بیان کہ ’اگر سماجوادی پارٹی کی سیٹیں کم ہوئیں تو کانگریس حمایت کرے گی اور حکومت سازی میں مدد دے گی‘یہ بیان موجودہ سیاسی تناظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ بات سماجوادی پارٹی اور لوکدل کو نہیں بھو لنی چاہئے کہ سرکار سازی میں بی ایس پی سپریمو مایا وتی بی جے پی کو سہارا لگا سکتی ہیں۔علاوہ ازیں سنگھ پریوار اور بی جے پی بھی آسانی سے یو پی کے قلعہ کو ہاتھ سے جا نے نہیں دیں گے۔بی جے پی کو کمزور مان لیناان پارٹیوں کے لئے خوش فہمی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔بی جے پی انتخا بات کے اعلانات سے پہلے زمینی سطح پر سرگرم رہتی ہے اور تنظیمی
ڈھانچہ کے لحاظ سے بھی اس کو غیر بی جے پی پارٹیوں پر سبقت حاصل ہے جو الیکشن جیتنے کی کلید (چابی) ہے، سرکار بھی ابھی اس کی ہے، ایک خدشہ کا اظہار تو خود جینت چو دھری اپنے انٹرویوز میں کرر ہے ہیں وہ ہے پو سٹل بیلٹ پیپر کا ہتھیار جس کا کاری زخم 2019کے پارلیمانی انتخابات میں آنجہانی چو دھری اجیت سنگھ کو لگ چکا ہے، جیتی ہو ئی سیٹ اجیت سنگھ کے ہاتھ سے پھسل گئی تھی۔ دوسرا خدشہ الیکشن کمیشن کی نئی حکمت عملی سے ہے وہ ہے معذو روں اور 80سال سے اوپر کے ضعیف ووٹروں سے ان کے گھر جا کرانتخابی ٹیموں کی نگرا نی میں پوسٹل بیلٹ پیپر سے ان کا ووٹ پول کرا نا ہے جس کو لے کر بی جے پی مخالف جماعتوں کو خدشہ ہے کہ سنگھ پریوار اس کے لئے ایسے پریزائڈنگ افسروں پر ڈورے ڈال سکتا ہے جو گھر جا کر کمل پر مہر لگوانے میں مدد کرسکتے ہیں جس سے پھر سے یوپی میں بی جے پی کا کمل کھل سکتا ہے یہ حقیقت ہے کہ افسانہ کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ طے ہے کہ بی جے پی ہر حربہ استعمال کرے گی۔ یوپی 2022کا انتخاب بی جے پی کے لئے ہی اہم نہیں سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو اور لوکدل کے جینت چودھری کے لئے بھی کافی اہم ہے۔ یہ انتخاب د ونوں لیڈروں کے سیاسی مستقبل کو بھی طے کرے گا اور 2024 میں کون دہلی کا گدی نشین ہو گا اس کا بھی فیصلہ کرے گا۔ [email protected]
یوپی میں اقتدار پانے اور بچانے کی جنگ تیز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS