عبدالسلام عاصم
بین مذاہب شعلہ بیانی، ردعمل پسندی اور اعتراض برائے تشہیر کے متوالوں پر اگر میڈیا تجارتی اہمیت کے ساتھ توجہ دینا بند کر دے تو نہ کسی کو دھرم سنسد کے نام پر اَدھرم باتوں کا پتہ چلے اور نہ کسی کی جوابی ہرزہ سرائی اخباری سرخیوں کا حصہ بن سکے۔اس طرح ایک سے زیادہ مذاہب کی نمائندگی کرنے والے ملک ہندوستان کو محدود ترین سوچ اور سرگرمیوں کی آماجگاہ میں بدلنے کی جانے انجانے میں امداد باہمی والی کوششیں از خود ناکام ہوجائیں۔ کاش ہر مکتب فکر کے باشعور بالخصوص میڈیا کے لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پراسے سال 2022 کا منشور بنالیں۔ ہر چند کہ سماجی اصلاح اور ثقافتی تطہیر کے نام پر نفرت کے اس کاروبار میں برصغیر کے سرکاری حلقوں کے کچھ عناصر بھی شریک ہیں، لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ابھی تک نفسیاتی علاج کے ذریعہ حالات پر قابو پائے جانے کے امکانات باقی ہیں۔شرط صرف یہ ہے کہ نفرت کے رُخ پر تھوک کے حساب سے خام پیداوار کو الگ الگ لیبل کے ساتھ تیار شدہ سامانِ زندگی بنا کر بیچنے والے میڈیا کے ایک حلقے نے جو تباہی مچا رکھی ہے اُس پر نئے سال میں کسی طرح قابو پالیا جائے۔ کہتے ہیں کسی غیر مطلوب درخت سے نجات چاہیے تو پتیوں کو توڑنے اور ٹہنیوں سے الجھنے کے بجائے اُس کی جڑوں کی آبیاری روک دی جائے۔ یہ کام میڈیا کے ایک حلقے کو سدھارکر کیا جا سکتا ہے اور ماحول کو اُس بے ہنگم شور سے بچایا جا سکتا ہے جس کی انتہا اکثر افسوسناک سناٹوں میں بدل جاتی ہے۔
سیاست اور معاشرت کے غیر علمی ملاپ میں ثقافت کی آڑ لے کر بعض ذمہ دارانِ دیر و حرم جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ اتنا پوشیدہ بھی نہیں کہ سب کچھ جھانک کر ہی دیکھنا پڑے۔ ڈیجیٹل عہد نے معبد سے میخانے تک تمام سرگرمیوں کی رسائی ڈرائنگ روم سے خواب گاہ تک وسیع کردی ہیں۔ ایک ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی ردعمل اور جوابِ آں غزل کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔یہ ایک بے سمت دوڑ کا کھیل ہے جس میں کوئی قریب کے خندق میں گر کر دم توڑ دیتا ہے تو کوئی اگلے موڑ پر تعاقب کرنے والوں کے ہتّھے چڑھ جاتا ہے۔ نفرت کے اس ٹورنامنٹ میں ہر ٹیم کو عروج اور زوال کے عہد سے گزرنا پڑتا ہے۔
برصغیر کی بدقسمتی سے اِس وقت ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں درونِ ملک فرقہ وارانہ جنون کو میڈیا کا ایک حلقہ حق گوئی کے نام پر بڑھاوا دے رہا ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے یہاں رونما ہونے والے منفی واقعات کا نوٹس تو لے رہی ہیں لیکن اپنے اپنے گھروں میں حالات کی سنگینی سے اطمینان بخش طور پر رجوع کرتی نظر نہیں آتیں۔ابھی گزشتہ دنوں جہاں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے خلاف ہندوستان نے نہ صرف مذمتی بیانات جاری کیے تھے بلکہ پاکستانی سفارت کار کو طلب کر کے احتجاج بھی درج کرایا تھا، وہیں اتراکھنڈ میں اکثریت کے ایک حلقے کی طرف سے ہندوستان کی ایک اقلیت کے خلاف نفرت انگیز تقاریر پر تحفظات کے اظہار کے بعد پاکستان نے ہندوستانی سفارتخانے کے ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ ان رسمی کارروائیوں سے نہ ماضی میں دونوں ملکوں کے عام شہریوں کو اکثریت کے مٹھی بھر نفرت پسندوں سے نجات ملی ہے اور نہ حال میں اس سے نجات کے حق میں کوئی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔
عبادت گاہیں جو کبھی کائنات کی تخلیق کے مقصدِ ایزدی سے رجوع کرنے کے رُخ پر عہد و پیماں کی تجدید گاہ ہوا کرتی تھیں، اب وہاںمبینہ طور پر نزاع سے بھر ی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ یہ دراصل ادیان کی سیاسی تعبیر کا نتیجہ ہے اور مذاہب کی آڑ میں جب سیاسی انتہاپسندی سے کام لیا جاتا ہے تو اس کے نتائج کچھ زیادہ ہی سنگین ہوتے ہیں۔ ابھی دو تین روز قبل وطن عزیز میں پولیس نے جہاں مہاتما گاندھی اور اسلام کے تعلق سے مبینہ ہرزہ سرائی پر ایک مذہبی رہنما کو کھجوراہو سے گرفتار کیا ہے، وہیں حال ہی میں فرانس میں ایک مسجد کو بند کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسجد کے امام نفرت انگیز قسم کی تقریرکر رہے تھے اور انہوں نے مسیحیوں، یہودیوں اور ہم جنس پرستوں کو نشانہ بنایا تھا۔ بین مذاہب عدم ہم آہنگی اگر مندر، مسجد، کلیسا، کنیسہ اور گرودوارے وغیرہ سے پھیلنے لگے تو عقائد اور آستھاؤں میں پناہ لینے والے سماج کو بچائے گا کون! حکومتیں حالات کے بے قابو ہوجانے پر محض ایڈمنسٹریٹو اقدامات اور پولیس ایکشن پر انحصار کرتی ہیں۔ کوئی حکومت سیکولر ہو یا مذہبی اُس کی تشکیل خلا یا آسمان میں نہیں ہوتی کہ وہ گندگی صاف کرنے کیلئے ایکدم سے زمین کو کھنگالنا شروع کردے۔ جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے۔ حکومتی ذمہ داروں کو بالترتیب سماج کے نمائندے یا عام لوگ ہی چنتے ہیں۔ جب عوام اور خواص دونوںبین مذاہب عدم ہم آہنگی کے شکار ہوں گے تو وہ ایسے قومی سرپرستوں کا بھلا کیسے انتخاب کر سکیں گے جو فکر ونظر کے محاذ پر اُن سے الگ ہوں۔ایسا نہیں کہ نفرت کے ماحول سے بیزار اورآستھا اور عقیدے پر حقیقی علم کو ترجیح دینے والے حلقے اس منظر نامے اورحالات کی سنگینی سے بے خبر ہیں۔ اُن کی فکر کوئی عملی تحریک سما لانے سے اس لیے قاصر ہے کہ وہ حد سے زیادہ عافیت پسندی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔
ضرورت ہے کہ مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر ڈسکورس اور رابطے کے ذریعہ حالات سے بیزار اہل علم کو کم سے کم اتنا فعال کیا جائے کہ وہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی ظلمت پسندانہ ہائی جیکنگ کی راہ مسدود کرسکیں۔ یہ کام کیسے ہوگا! اس کیلئے اب سمندر پار لائبریریوں کی الماریاں چھاننے کی ضرورت نہیں۔ ایک ڈیجیٹل بٹن بتا سکتا ہے کہ یوروپ اور بعض دوسرے ترقی یافتہ ملکوں نے اِس محاذ پر انفرادی طور سے اور انحصارِ باہمی کی بنیاد پر کہیں جزوی تو کہیں خاصی کامیابی کس طرح حاصل کی! نتیجے میں آنے والے انقلاب کا اثراُن کی تجربہ گاہوں تک محدود نہیں بلکہ ایسے ممالک بھی اب چونکانے کی حد تک متاثر ہونے لگے ہیں جو ابھی کل تک سائنسی ترقی یافتہ حربی آلات خریدنے سے دلچسپی رکھتے تھے۔ نفرت اور جنگ کے کئی میدان اب پُر امن ہمسائیگی کی گزرگاہوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اخبارات میں وقفے وقفے سے ایسی خبریں مایوسی کے اندھیرے میں امید کی شمع روشن کر دیتی ہیں۔باوجودیکہ ایسا نہیں کہ اس تبدیلی کی راہ پوری طرح ہموار یعنی نشیب و فراز سے پاک ہے۔
کائنات کی تخلیق کے اصل مقصد سے راست اور بالواسطہ تحریک پانے والوںکی عصری ترجیحات سے جو حلقے مطمئن نہیں ہوتے وہ اُس کی کاٹ کرنے کیلئے کانسپریسی تھیوریاں بیچتے پھرتے ہیں۔یہ تھیوریاںلاؤڈاسپیکر کو متعارف کرانے کے زمانے سے بیچی جا رہی ہیں اور انٹرنیٹ کے موجودہ عہد میں بھی اسی کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ علمی ترقی سے استفادہ کرنے والی نسلیں ماضی میں بھی سازشی تھیوریوں کی خرید و فروخت سے متاثر ماحول میں ہی آگے بڑھتی رہیں۔آج بھی ایسی تھیوریاں خریدنے والوں میں بفضلہ نئی نسل کی تعداد کافی کم ہے۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے فروغ نے حالیہ دہائیوں میں اسٹارٹس اپ کی لہر انتہائی مربوط انداز میں دوڑائی ہے۔ یوروپ کے بعد اب جنوبی و مغربی ایشیائی ملکوں میں اس لہر کو مہمیز لگانے کی کوششیں آئندہ دہائیوں میں اگرپچاس فیصد بھی کامیاب ہوگئیں توزندگی سے معاملات کا رُ خ اندیشوں سے یکسر امکانات کی طرف مڑ جائے گا اورپھر ایسے مجمع بازوں سے پسماندہ اقوام کو مرحلہ وار نجات مل جائے گی جو خود تو گلوبل پوزیشننگ سسٹم(جی پی ایس)کی مدد سے چہار رُخی عیش کرتے ہیں اور خستہ حال اور پسماندہ فرقوں، قبیلوں اور قوموں کو درپیش آزمائشوں سے نجات کی خاطر بند گلی میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ برصغیر میں بھی حیات افروز امکانات کے ذریعہ ہلاکت خیز اندیشوں اور وسوسوں کے ماحول کو بدلنے کی کوشش کا رخ ان شاء اللہ جلد کامیابی کی طرف مڑے گا۔ تشدد کے واقعات میں موجودہ اضافہ اس یقین کا ثبوت ہے کہ ’’بجھنے سے پہلے بہت تیز بھڑکتا ہے چراغ۔۔۔‘‘
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]
میڈیا چاہے تو 2022 کونفرت کے بے ہنگم شور سے نجات مل جائے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS