نئی دہلی/بابوآن (ارریہ): (یو این آئی) مسلمانوں کی فکری، معاشی، سیاسی اور سماجی پسماندگی کو دینی عصری تعلیم کے فقدان کی وجہ قرار دیتے ہوئے القرآن اکیڈمی نئی دہلی کے سربراہ مولانا اکرام الحق قاسمی نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی پسماندگی دور کرنے کے لئے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم پریکساں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے مدرسہ تحفیظ القرآن میں منعقدہ ایک پروگرام سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان اس وقت تک معززاور حکمراں رہے جب تک ان میں تعلیم موجودرہی اور جیسے ہی انہوں نے تعلیم اور خاص طور پر قرآن کو ترک کرکے اسے صرف ثواب کی کتاب تک محدود کردیا اس کے بعد ان میں فکری صلاحیت کے فقدان کے ساتھ عصری تعلیم بھی جاتی رہی اور وہ اس وقت ملک میں مزدور کی فیکٹری بن کر رہ گئے ہیں۔ جدھر بھی نظر دوڑائیں مسلمان مزدوری کرتے، پنکچر بناتے اور دیگر چھوٹے کام کرتے نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم پر توجہ دیں اور خاص طور پر قرآن کی تعلیم کونہ صرف عام کریں بلکہ خود سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔ انہوں نے کہاکہ مدرسہ تحفیظ القرآن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں حفظ کے ساتھ آٹھویں کلاس تک اسکولی تعلیم کا نظام ہے اوربچوں کو حفظ کے ساتھ اسکولی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
بسمتیہ کے سابق مکھیا محمد مزمل نے کہاکہ مدرسہ تحفیظ القرآن تعلیمی اداروں کے لئے رول ماڈل ہے۔ میں بچوں کی تعلیم و تربیت دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ہمیشہ مدرسہ کی خدمت کے لئے تیار رہیں گے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جو آواز یہاں سے اٹھ رہی ہے انشاء اللہ بہت دور تک جائے گی۔انہوں نے کہاکہ اسوقت مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے ایسے ہی تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے۔ دہلی سے آئے یو این آئی کے سینئر صحافی اور مہمان خصوصی عابد انور نے اس موقع پر کہا کہ کوئی بھی چیز مقصد کے بغیر ادھوری ہوتی ہے اور جب تک طلبہ مقصد کو اپنے سامنے نہیں رکھیں گے اس وقت تک وہ اس میدان میں مہارت حاصل نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں ہوتا بلکہ ایک اچھا انسان بننا ہوتا ہے اور ایک اچھا انسان ہی معاشرہ کے لئے مفید ہوتا ہے۔ مدرسہ تحفیظ القرآن کے ناظم اعلی مولانا اخترحسین لطیفی نے مدرسہ کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس ادارے کا قیام ایسے وقت کیا گیا جب یہاں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کیلئے دور دراز علاقے اترپردیش، راجستھان، گجرات اور دیگر علاقے میں جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے سب لوگ بچو ں کو نہیں پڑھاپاتے تھے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس مدرسہ کا قیام 2017میں عمل آیا۔ یہ ندی کا بہاؤ کا علاقہ تھا لیکن اب یہاں علم کا دریا بہہ رہا ہے۔ اس کے اہم شرکاء میں مدرسہ کے صدر مدرس مولانا و حافظ قمرالزماں نعمانی، مولاناعبدالحسیب قاسمی ناظم تعلیمات، نائب ناظم مولانا عمران لطیفی، مولانا احسان لطیفی خازن، ڈاکٹر اسرائیل، ڈاکٹر انیس، عباس انصاری، خورشید انصاری اور جملہ اساتذہ و طلبہ موجود تھے۔
مسلمانوں کو اپنی پسماندگی دور کرنے کیلئے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم پریکساں توجہ دینے کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS