عبیداللّٰہ ناصر
ہندوؤں کے چند مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہری دوار میں گزشتہ دنوں ایک نام نہاد دھرم سنسد کا انعقاد کیا گیا جس میں کوئی قابل ذکر ہندو سنت سادھو شنکرآچاریہ وغیرہ نے شرکت نہیں کی لیکن بھگوا کپڑوں میں ملبوس کچھ نفرت کے پرچارکوں نے شرکت کی جس میں حال ہی میں مرتد ہوئے وسیم رضوی جن کا نیا نام جیتندر نارائن تیاگی رکھا گیا سمیت رسوائے زمانہ یتی نرسنگھا نند، ہندو رکشا سینا کے سوامی پرمودآنند گری، سوامی آنند سروپ سمیت درجنوں لوگ شامل تھے۔ اس نام نہاد دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بیہودہ الفاظ استعمال کیے گئے بلکہ کھلے عام ان کی نسل کشی کی ترغیب دی گی اور ہندوؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ دھرم کی رکشا کے لیے ہتھیار اٹھا لیں اور جتنا زیادہ ہو سکے مسلمانوں کا قتل عام کریں۔ سوشل میڈیا پر اس دھرم سنسد میں ہوئی نفرت اور تشدد آمیز تقریروں کے وائرل ہونے کے بعد پورے ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں سخت ردعمل سامنے آیا لیکن اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت اور وزارت داخلہ کے مرکزی وزیر امت شاہ کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔بعد از خرابی بسیار ہری دوار ضلع کے جوالا پور قصبہ کے باشندہ گل بہادر خان کی رپورٹ پر شہر کوتوالی میں وسیم رضوی عرف جیتندر نارائن تیاگی کے خلاف نامزد ابتدائی رپورٹ درج کی گئی، باقی سب کو نا معلوم کے خانہ میں رکھا گیا۔ اس سلسلہ میں استفسار پر ضلع پولیس سربراہ نے بتایا کہ بقیہ نامعلوم لوگوں کا نام تفتیش کے دوران ثبوت ملنے پر شامل کرلیا جائے گا۔ یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ153 (الف) کے تحت درج کیا گیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اس میں نہ تو دفعہ 506قتل کی دھمکی کو شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی دیگر سخت دفعات کو۔معمولی معمولی باتوں پر قومی سلامتی قانون(این ایس اے) اور یو اے پی اے کے تحت سیاسی اور نظریاتی مخالفین خاص کر مسلمانوں کو ان سخت دفعات کے تحت گرفتار کر کے برسوں انہیں بنا ضمانت جیل میں سڑانے والی پولیس قانون، آئین اور انسانیت کے خلاف کئے جارہے اس جرم کو اتنے ہلکے میں لے رہی ہے، اس سے اتراکھنڈ حکومت کی مرضی اور منشا صاف ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہی یتی نرسنگھا نند نے دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کرکے ایسی ہی بیہودہ باتیں کی تھیں لیکن امت شاہ کے انڈر آنے والی دہلی پولیس نے معمولی دفعات میں رپورٹ درج کر کے اپنے فرض سے سبکدوشی حاصل کر لی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ہی نہیں بلکہ تشدد پر اکسانے کی حرکتوں کو سرکاری اور میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سب کچھ برسراقتدار لوگوں کی مرضی اور منشا کے مطابق ہو رہا ہے۔ اگلے چند مہینوں میں اترپردیش کے ساتھ ہی ساتھ اتراکھنڈ اسمبلی کا الیکشن بھی ہونا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کے پاس مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار کے علاوہ اور کوئی حربہ بچا نہیں ہے جس سے وہ عوام سے ووٹ مانگ سکے۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حالت کتنی پتلی ہے، اس کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ پانچ برسوں میں اسے تین بار اپنا وزیراعلیٰ بدلنا پڑا اور آج بھی اس کی حالت اتنی ہی خستہ ہے۔ اتراکھنڈ جو کبھی اترپردیش ہی کا حصہ تھا، وہاں کی بیار کا اثر اترپردیش پر بھی پڑنا لازمی ہے اس لیے وہاں آئین اور قانون کی اس خلاف ورزی کو ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ اس کی درپردہ حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے لیکن اس خطرناک فرقہ وارانہ کھیل سے ملک کو کتنا نقصان ہو رہا ہے اس کی فکر حکمراں جماعت اور ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہے، ان کی نظر میں سیاسی فائدہ ہی سب کچھ ہے ۔
ملک کو خانہ جنگی کے دہانہ پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کو انبوہ گردی اور قانون کی حکمرانی کو اکثریت کی من مانی(میجا رٹی انیزم)میں تبدیل کیا جا رہا ہے، آج کی مہذب، قانون کی حکمرانی اور حقوق انسانی کے تئیں حساس دنیا میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے، خاص کر حقوق انسانی کی پامالی کو اب کسی بھی ملک کا اندرونی معاملہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔
حکومت، حکمراں جماعت اور اس کے نظریات کے حامی لوگوں کو ان بیانوں اور اس مجرمانہ چشم پوشی سے بھلے ہی کوئی فرق نہ پڑتا ہو لیکن عالمی سطح پر ملک کی زبردست بدنامی ہو رہی ہے اور امریکی وزارت خارجہ نے دنیا کے جن ملکوں میں مذہبی آزادی خطرہ میں ہے، ان ملکوں میں ہمارے وطن عزیز کو بھی شامل کر لیا گیا جو آزادی کے بعد سیکولرزم کی راہ اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا تھا اور جس کی کثرت میں وحدت کے نظریہ کو دنیا اپنے لیے مشعل راہ سمجھ رہی تھی۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور مرر جیسے اخباروں نے سخت شہ سرخیاں لگا کر ہری دوار میں زہرافشانی کی مذمت کی ہے۔سوشل میڈیا پر90فیصد لوگوں نے ان اشتعال انگیز فرقہ وارانہ بیانوں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ حکومت کی سرد مہری کو بھی ہدف ملامت بنایا ہے۔ یہاں تک کہ سنگھی نظریات کے حامی بھی اگر مگر کے ساتھ ہی سہی ان بیانوں کو ناقابل قبول بتا رہے ہیں۔فوج کے سابق سربراہ جنرل ملک کی بحریہ کے سابق سربراہ اڈمرل ارون پرکاش، اترپردیش پولیس کے سابق سربراہ وکرم سنگھ، ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر وجے شنکر سنگھ سمیت اعلیٰ سبکدوش افسران نے بھی نہ صرف ان بیہودہ بیانوں بلکہ حکومت کی مجرمانہ چشم پوشی کی مذمت کی ہے لیکن وہ جو کہاوت ہے ’نہ نکٹے کی ناک کٹی ڈھائی بالشت اور بڑھی‘اسی کے مصداق حکومت، حکمراں جماعت اور اتراکھنڈ پولیس خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔
بھلے ہی علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چنگیزی یا خون دین اور مذہب کے نام پر ہی بہایا گیا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ہندستان میں آزادی کے بعد فسادات کی شکل میں یہ سلسلہ چلتا رہا ہے جس کے خلاف بھلے ہی کارروائی میں لاپروائیاں ہوئی ہوں لیکن ان کو سیاسی اور سرکاری سرپرستی کم ہی حاصل تھی اور دیر سے ہی سہی مجرموں کو سزا مل ہی جاتی تھی مگر آج کا ہندوستان بالکل بدلا ہوا ہے، اب کھلے عام نسل کشی کی بات کی جاتی ہے، مذہب کا چولا پہن کر مذہب کے نام پر قتل عام، لوٹ پاٹ، آبرو ریزی کی ترغیب دی جاتی ہے اور زیادہ تر معاملات میں حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔جس طرح سے مذہبی لبادہ اوڑھ کر میانمار اور سری لنکا میں بودھ بھکشوؤں نے وہاں کی اقلیتوں روہنگیا مسلمانوں اور تمل ہندوؤں کے خلاف قتل و خوں کا بازار گرم کرایا، ویسا ہی کچھ ماحول بھگوا چولا پہنے ہندوتو وادی ہندوستان میں کرنے کا ماحول بنا رہے ہیں۔ راہل گاندھی کے علاوہ ہندوستان کا کوئی بھی، کسی بھی پارٹی کا لیڈر آج ان نفرت، تشدد اور فرقہ پرستی کے پرچارکوں کے خلاف کھل کر میدان میں نہیں آ رہا ہے سبھی بی جے پی کو سیاسی شکست دینا چاہتے ہیں، صرف راہل گاندھی سنگھ پریوار کے خلاف نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ جب تک فرقہ پرستی، تشدد اور نفرت کے نظریہ کو شکست نہیں دی جائے گی تب تک محض سیاسی شکست دے کر اس منفی ماحول سے ’’ہندوستان اور نظریہ ہندوستان‘‘کو نہیں بچایا جا سکتا ۔
آج ہمارے سامنے دو سب سے اہم سوال منھ پھیلائے کھڑے ہیں، اول اس ماحول سے ملک کو کیسے بچایا جائے، دوم ان عناصر کو کیسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ان عناصر کے خلاف ابتدائی رپورٹ درج کرانے سے لے کر آخری مرحلہ تک جذبات کے ساتھ نہیں بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ مقدمہ لڑا جائے تو انہیں سخت سے سخت سزا دلوائی جا سکتی ہے لیکن یہ مستقل مزاجی کہیں دکھائی نہیں پڑتی جب کوئی واقعہ ہوجاتا ہے تو کچھ دنوں تک تو اس کی گرمی دکھائی دیتی ہے پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔ ضلع عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک ایسے سیکولر وکلا کی کمی نہیں ہے جو ایسے لوگوں کے خلاف پوری طاقت اور صلاحیت سے مقدمہ لڑ سکتے ہیں لیکن 80برس کی بزرگ ذ کیہ جعفری جیسی مستقل مزاجی کیا کسی اور کے پاس دکھائی دیتی ہے؟ اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاج کے دوران 22نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ پولیس نے حکومت کے اشارہ پر بربریت کا ننگا ناچ کیا۔ اس معاملہ کی ابتدائی رپورٹ تک نہیں درج ہوئی ہے۔ کانگریس نے 700صفحات پر مشتمل ثبوتوں کے ساتھ اس کی شکایت قومی حقوق انسانی کمیشن میں درج کرائی تھی جس پر کمیشن نے حکومت اترپردیش کو نوٹس بھی جاری کیا تھا لیکن تب سے کسی نے اس معاملہ کی پیروی نہیں کی اور کمیشن میں وہ درخواست دھول کھا رہی ہے، اب اگر کوئی کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں سے امید کرے کہ وہ روزمرہ اس شکایت کی پیروی کریں گے تو یہ ایک احمقانہ خیال ہے، اس کی ذمہ داری ہمیں اٹھانی چاہیے تھی لیکن ہم سب کچھ بھولے بیٹھے ہیں، ایسے ہی ہری دوار کے شرمناک اشتعال انگیز بیانوں کا حال ہوگا۔ اگر ہم پوری شدت اور مستقل مزاجی کے ساتھ ذکیہ جعفری کی طرز پر اپنے مقدموں کی پیروی کریں تو عدالتوں سے کبھی نہ کبھی انصاف حاصل ہی کر لیں گے۔ دوسرا مرحلہ ان عناصر کو سیاسی شکست دینے کا ہے کیونکہ جس دن انھیں اپنی فرقہ پرستانہ پالیسی سیاسی طور سے نقصان دہ دکھائی دینے لگے گی وہ اس کے پاس بھی نہیں پھٹکیں گے۔ اس کے لیے نہ صرف ہمیں اپنی سیاسی صف کو درست کرنا ہوگا بلکہ برادران وطن کی جو اکثریت ان کی مخالف ہے ان کا ساتھ بھی لینا ہوگا، اس کے لیے تدبر، دور اندیشی اور سیاسی مصلحت پسندی اولین شرط ہے لیکن فی الحال اس کا بھی فقدان ہی دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال اب خاموشی جرم ہی نہیں بلکہ گناہ ہے، ہمیں پوری طاقت سے قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس لڑائی کو لڑنا ہی ہوگا، اب کوئی راہ مفر بچی نہیں ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]