عبدالماجد نظامی
تریپورہ فرقہ وارانہ فسادات پر ’ایڈیٹرس گیلڈ آف انڈیا‘ کی سہ رکنی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اس سہ رکنی ٹیم میں آزاد صحافی بھارت بھوشن، ایڈیٹرس گیلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور اور ’امپھال ریویو آف آرٹس اینڈ پالیٹکس‘ کے ایڈیٹر پردیپ پھانجوبام بطور ممبران شامل تھے۔ اس رپورٹ کا مقصد فسادات سے متعلق حقائق سے پردہ اٹھانا اور تریپورہ میں میڈیا کی آزادی کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ جو کچھ اس رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے، وہ اس ملک کے تمام انصاف پسندوں اور جمہوری اداروں کی حفاظت کے لیے کوشاں رہنے والوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ رپورٹ سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ اکتوبر کے مہینہ میں جو فرقہ وارانہ فسادات تریپورہ میں ہوئے بلکہ کروائے گئے، ان کا استعمال بی جے پی کی قیادت والی تریپورہ سرکار نے سیاسی فائدہ کے لیے کیا اور فسادات کو روکنے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ تریپورہ سرکار نے بنگالی ہندوؤں کے درمیان اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی خاطر فسادات کو روکنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کے برعکس یہ کہہ کر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر جو حملے ہوئے تھے، ان کا یہ ’فطری ردعمل‘ تھا۔ رپورٹ میں پولیس اور انتظامیہ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ذمہ داریوں کو نبھانے میں پیشہ ورانہ طرز عمل کا ثبوت پیش نہیں کیا اور اکثریتی طبقہ کی داداگیری کو شہ دینے میں ملوث پائے گئے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب درگا پوجا کے موقع پر بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر حملوں کی خبریں آئی تھیں تب وشو ہندو پریشد جیسی شدت پسند ہندو جماعتوں نے تریپورہ کے الگ الگ حصوں میں سیکڑوں ریلیاں نکالی تھیں۔ اس موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات اور مسجدوں پر مبینہ حملوں اور انہیں نذر آتش کرنے کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں۔ اس کے باوجود تریپورہ سرکار مسلسل یہ کہہ رہی تھی کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور ماحول پرامن ہے۔ جن صحافیوں نے فسادات اور آتش زنی کے واقعات پر قلم اٹھایا، ان کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ صحافیوں کے علاوہ وکلا اور سماجی کارکنان کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں سے بعض لوگوں کے خلاف یو اے پی اے جیسے سخت قانون کا استعمال بھی کیا گیا۔ بعض مقامی صحافیوں کے حوالہ سے رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ گرچہ تریپورہ سرکار نے مساجد پر حملہ سے ہمیشہ انکار کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ کم از کم دس مسجدوں پر حملے ہوئے اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ایک صحافی نے یہ بھی بتایا کہ پولیس عملہ سرکار کے بیانیہ کو پیش کرنے میں جنون کی حد تک سرگرم نظر آیا۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ حقیقت کو چھپایا جائے اور سرکار کی امیج پر آنچ نہ آنے پائے اور اسی لیے اگر کسی ہلکے یا متبادل واقعہ کا پتہ پولیس کو چلا تو انہوں نے سنگین واقعات کو چھپاکر ہلکے واقعات کا ذکر کر دیا تاکہ صورتحال کی شدت پر پردہ ڈالا جا سکے۔ مثلاً ایک نماز ہال پر حملہ کے واقعہ کو مثال بناکر پولیس نے یہ عمومی بیان دے دیا کہ باضابطہ مساجد پر حملے نہیں ہوئے ہیں حالانکہ اگرتلہ کے ایک صحافی کے بقول اس نے خود تین مسجدوں کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ تریپورہ فسادات کو نومبر کے اخیر میں ہونے والے میونسپل الیکشن کے سیاق میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔ چونکہ قبائلی علاقوں میں بی جے پی کو سخت سیاسی نقصان پہنچا تھا اور اسے خدشہ تھا کہ کہیں باقی حصوں میں بھی وہی صورتحال پیش نہ آئے۔ ایسے میں بنگلہ دیش کا فرقہ وارانہ فساد بی جے پی کے لیے نعمت غیر مترقبہ بن کر آیا جس کا سیاسی استعمال پورے طور پر کیا گیا۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ہندو جاگرن منچ وغیرہ نے تریپورہ میں تشدد کے ذریعہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے میں پورا تعاون پیش کیا اور مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا۔ تریپورہ میں ترنمول کانگریس پارٹی کے داخلہ سے بی جے پی مزید بوکھلا گئی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مغربی بنگال کے بعد تریپورہ میں بھی ممتابنرجی کی پارٹی ایک طاقت بن کر ابھرے جہاں بنگالی زبان بولنے والے ہندوؤں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور اسی لیے فساد کے ماحول کو پروان چڑھنے دیا گیا۔
اس رپورٹ میں مقامی میڈیا کے تعلق سے ایک دلچسپ لیکن نہایت افسوسناک پہلو کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقامی میڈیا اور بی جے پی سرکار کے درمیان زبردست تال میل ہے۔ مقامی میڈیا انہی باتوں کو پھیلاتا ہے جو سرکار کے حق میں ہوں اور اسی لیے مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والے فسادات اور تشدد کے بارے میں مقامی صحافیوں نے نہیں لکھا۔ صرف انہی صحافیوں نے ان کے بارے میں لکھا جو قومی میڈیا میں لکھتے رہتے ہیں۔ بعض تو وہ صحافی تھے جو خوف کھاکر خاموش رہے لیکن کچھ دیگر صحافیوں نے اس لیے بھی تشدد کے واقعات پر نہیں لکھا کہ انہیں کہیں ’’ترنمول پارٹی کی سازش‘‘ کا حصہ نہ قرار دے دیا جائے۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرکزی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے، اس کا مکمل عکس تریپورہ میں نظر آتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ سے لے کر مقامی میڈیا تک سبھی اپنی اہم ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہے تھے اور اس کوشش میں تھے کہ تریپورہ سرکار کی تنقید نہ کی جائے اور بی جے پی نے نیشنلزم اور قومیت کا جو نیا معیار قائم کیا ہے، اس پر پورا اترا جائے خواہ اس کے لیے جمہوری اداروں کی قربانی ہی کیوں نہ پیش کرنی پڑے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ ملک کی سالمیت کو جو خطرہ در پیش ہے، وہ بہت سنگین ہے اور اس کے خلاف عوام کو پوری قوت کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کا صدیوں پرانا امن و آشتی کا ماحول باقی رہ سکے اور ملک کو ترقی کے منازل طے کرنے کا موقع میسر آتا رہے۔حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران فاروق عبداللہ کی آنکھوں سے چھلکنے والے آنسوؤں میں بھی ملک کی موجودہ تشویشناک صورت حال کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ملک کی دِشا اور دَشا کیا ہے!
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے ڈپٹی گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]