سرمائی اجلاس کی کامیابی؟

0

پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس مقرر ہ تاریخ سے ایک دن قبل ہی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ یہ اجلاس 23 دسمبر کو ختم ہوناتھا لیکن آج بدھ کے روز جیسے ہی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی شروع ہوئی، مسلسل شور وغل اور ہنگامہ آرائی کو وجہ بتاتے ہوئے ایک دن پہلے ہی اجلاس ملتوی کردیاگیا ۔اس سے قبل کے مانسون اجلاس میں بھی بعینہٖ یہی صورتحال رہی تھی اور اس دوران زرعی قوانین، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بنیادی عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ پیگاسس جاسوسی کیس پر بھی حکمراں اور حزب اختلاف میں رسہ کشی رہی تھی۔ سرمائی اجلاس میں ہنگامہ کا بیج بھی اسی وقت پڑگیا تھا جب حزب اختلاف کے 12راجیہ سبھا ارکان کو معطل کیاگیا تھا۔ حکومت اگر ہنگامہ سے گریز کی خواہاں تھی تو اسے یہ معطلی ختم کردینی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیاگیا۔اس التوا کیلئے حکومت نے حزب اختلاف کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے ارکان کویہ نصیحت بھی کرڈالی کہ وہ ایوان کے بہتر کام کاج کیلئے غور و فکر کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں تعمیری اور مثبت ماحول کیلئے کام کریں ۔ہنگامہ آرائی اور اعتراض کی وجہ سے ایوان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور قوم کی گاڑھی کمائی کا زیاں ہوتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ29نومبر سے شروع ہونے والے سرمائی اجلاس کا ہر دن ہنگامہ خیز رہا۔ اس دوران بھلے ہی حکومت نے اپنے پسندیدہ بل پاس کرکے قانون بنالیے ہوں لیکن ان پر نہ تو کوئی بحث ہوئی اور نہ حزب اختلاف کے رہنمائوں کو موقع ملا کہ وہ اپنی بات رکھ سکیں ۔ 17 ویں لوک سبھاکا یہ ساتواں اجلاس تھاجس کی تمام کی تمام 18 نشستیں مکمل طور پر ہنگامہ اورشور و غل کے نام رہیں ۔اس اجلاس میں حزب اختلاف کے ارکان کی معطلی، مرکزی وزیر اجے مشر کی برخاستگی کا مطالبہ اور ایک دن قبل پیش کیے گئے انتخابی قوانین (ترمیمی) بل 2021 پر ہونے والے ہنگامہ نے ایوان کی منفعت کو شدید نقصان پہنچایا ۔مجموعی طور پر 83گھنٹوں کے اس اجلاس میں حکومت نے 11بل پیش کیے تھے ہر چند کہ دونوں ایوانوں راجیہ سبھااور لوک سبھا نے مجموعی طور پر کل 9پاس کردیے لیکن ان پر بحث کا نہ ہونا اورحزب اختلاف کی رائے سے صرف نظر کرجانا ملک کے پارلیمانی جمہوری نظام کی افادیت کیلئے مناسب نہیں کہاجاسکتا ہے۔
معطل ہونے والے ارکان کا یہ دعویٰ بھی قابل غور ہے کہ متنازع بلوں کو بغیر کسی رد و قد کے پاس کرانے کیلئے ہی حکومت نے انہیں معطل کیا تھا، پر بھی غور کیا جانا ضروری ہے ۔ سرمائی اجلاس میں جو 9بل پاس کیے گئے ہیں،ان میں سے اکثریت پر حزب اختلاف نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔چائلڈ میرج امتناع (ترمیمی) بل 2021 کو تو اعتراضات کے بعد ایوان کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیاگیا لیکن دہلی اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ (ترمیمی) بل 2021، سینٹرل ویجی لنس کمیشن(ترمیمی) بل2021، دی نارکوٹکس ڈرگ اینڈ سائیکوٹرپک سبسٹانسز(ترمیمی) بل2021 اور انتخابی قوانین (ترمیمی) بل 2021 جیسے متنازع بل پر حزب اختلاف کے ہر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے حکومت نے اسے پاس کرایا ۔ خاص کر انتخابی قوانین (ترمیمی) بل پاس کرانے کیلئے حکومت نے ایڑی چوٹی کازور لگادیا اورا عتراض کرنے والے رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن کو ہی ایوان سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔حالانکہ یہ بل ایسے تھے کہ قانون بنائے جانے سے قبل نہ صرف حزب اختلاف کو مطمئن کیاجانا ضروری تھا بلکہ اس سلسلے میں عوامی رائے بھی لی جانی چاہیے تھی لیکن اس کے علی الرغم حکومت نے اپنی عددی برتری کا ظالمانہ استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی پورے ملک پر تھوپ دی ۔
پارلیمانی جمہوری نظام میںایوان کے اندر حکومت کی اکثریت کو بھی بہرحال مطلق العنانی حاصل نہیں ہے ۔دستور بھی تنازع کی صورت میں افہام و تفہیم اورمختلف معاملات کی قائمہ کمیٹی میں بل پر غور و خوض کی ہدایت دیتا ہے۔ ان سب سے صرف نظر کرکے اپنی مرضی تھوپنا ہنگامہ کو دعوت دینا ہی ہے ۔ لکھیم پور کھیری میں کسانوں کی منصوبہ بند اور منظم ہلاکت پر ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے باوجود وزیرمملکت برائے امور داخلہ اجے مشر ٹینی کو برطرف نہ کیاجانا اور اس معاملہ میں مسلسل مطالبہ کے بعد بھی حکومت کی خاموشی بھی حزب اختلاف میںا شتعال کا سبب بنی اور ایوان کے 19قیمتی گھنٹوں کا زیاں ہوا۔
9بل پاس کراکر حکومت بھلے ہی سرمائی اجلاس کو کامیاب قرار دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سرمائی اجلاس عوام کی امنگوں کے برخلاف رہاہے اور جس طرح حزب اختلاف کو درکنا ر کر کے قانون سازی کی گئی وہ ملکی جمہوریت کیلئے نیک فال نہیں کہی جاسکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS