عبد العزیز
کسان آندولن ایک ایسا آندولن ثابت ہوا جو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈس میں لکھا جانے لائق ہے۔ ہندوستان میں اتنا لمبا یعنی 380 دنوں تک کوئی دوسرا آندولن نہیں ہوا۔ آندولن پر امن اور جمہوری تھا لیکن حکومت نے اس پر امن آندولن کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس کے شرکا کو طرح طرح کے نام دیے گئے۔ کبھی خالصتانی کہا گیا، کبھی پاکستانی، کبھی اربن نکسل، کبھی غدار وطن۔ سکھ اور ہندو میں آندولن کو بانٹنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کی طرف سے ہر طرح سے چوٹ پہنچانے کی کوشش کی گئی، کیل گاڑی گئی، پانی کے ربر سے ان کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ان کا سر پھوڑا گیا، گاڑی سے چار کسانوں اور ایک صحافی کو روند کر مار ڈالا گیا۔ کسانوں کو جیل میں بھیجا گیا، ہزاروں کسانوں پر مقدمات دائرکیے گئے، صرف چالیس ہزار کسانوں پر ہریانہ میں مقدمے دائر کیے گئے۔ اس طرح کے ہر حربے اور ہر ہتھکنڈے استعمال کیے گئے لیکن کسان متزلزل نہیں ہوئے، وہ ہر طرح کی تکلیف بر داشت کرتے رہے۔ گرمی، سردی، طوفان، بارش، کورونا کی مہاماری سب کو جھیلا لیکن ان کے عزم اور حوصلے میں کمی نہیں آئی۔ وزیر اعظم نریند رمودی نے زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان اس وقت کیا جب 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اور خاص طور پر اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں ان کی پارٹی کی نیا ڈگمگاتی نظرآئی۔ ہریانہ ، پنجاب اور مغربی یوپی کے گاؤں میں بی جے پی کے لوگوں کو جانے میں مشکلات ہونے لگی۔ ایک ایسی حکومت جو کسی کی بات نہیں سنتی، کسان آندولن کے سامنے اسے جھکنا پڑا۔ ان کے تقریباً سارے مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ بعض مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے وعدے کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسان آندولن کے لیڈروں نے آندولن کو ختم کرنے کے بجائے ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت پر نظر رکھنے اور وعدوں کو پورا کرنے پر دھیان رکھنے کی بات بھی کہی ہے۔ 15 جنوری کو دہلی میں کسان لیڈران کی میٹنگ ہوگی جس میں حکومت کے وعدوں اور کاموں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو آندولن کا خدشہ ابھی بھی ہے۔
کسان آندولن سے پہلی چیز یہ سیکھی جا سکتی ہے کہ عزم بالجزم ہو تو کامیابی قدم چوم سکتی ہے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ آندولن ہر حال میں پرامن ہونا چاہیے، حکومت یا حکمراں پارٹی اگر مشتعل کرنے کی کوشش کرے تو مشتعل ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ تیسرا سبق یہ ملتا ہے کہ کامیابی کے لیے ایثار و قربانی ضروری ہے۔ آندولن میں بہت سارے لوگوں نے مال کی قربانی دی ہے اور 714 کسانوں نے جان کی بھی قربانی دی ہے۔ یہ ساری قربانیاں آندولن میں جان ڈالتی رہیں اور کسان آندولن ہمیشہ تازہ دم رہا۔ چوتھا سبق یہ ہے کہ آندولن میں اتحاد اور اتفاق کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور حکومت کی چالبازیوں سے ہمیشہ ہوشیار رہا جائے۔ جو کام بھی کیا جائے، مشورے اور اتفاق رائے سے کیا جائے۔ 380 دنوں تک کسانوں کی 500 تنظیموں نے یکجہتی قائم رکھنے میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ بڑے سے بڑے طوفان اور بڑی سے بڑی سازشی چالوں کا صبر و سکون کے ساتھ مقابلہ کیا۔
کسان آندولن سے مسلمان بھی سیکھ سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ شاہین باغ اور ملک کے دیگر حصوں میں مسلمانوں نے سی اے اے، این آر سی اور این آر پی جیسے کالے قوانین کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ شاہین باغ میں مسلسل تین چار مہینے تک تحریک جاری رہی، مسلم خواتین نے بڑی تعداد میں اس میں حصہ لیا، ان کی بہادری اور دلیری کی داد ہر طرف سے پیش کی جانے لگی، تحریک کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کو شش کی گئی، غنڈے اور بد معاشوں نے شاہین باغ میں شرکائے تحریک کو مشتعل کرنے کی کوشش کی، تحریک مخالف ایک نوجوان نے فائرنگ بھی کی، تحریک میں مسلمانوں کے علاوہ ہر جگہ غیر مسلم حضرات بھی شریک رہے۔ شاہین باغ میں سکھوں کی طرف سے لنگر چلتا رہا، ہریانہ اور پنجاب سے بھی سکھ آکر شاہین باغ کی تحریک میں شامل ہوتے رہے۔ یہ تحریک بھی میلے کی شکل اختیار کر گئی اور بی جے پی کو اس سے خوف لگنے لگا اور اسے کچلنے کی ہر ممکن کو شش کی گئی۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی کے الیکشن کے موقع پر تقریر میں مجمع عام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ووٹنگ مشین پر ایسابٹن دباؤ کہ اس کا کرنٹ جا کر شاہین باغ میں لگے۔ بی جے پی کے ایک ایم پی پر ویش ورما نے کہا کہ ’اگر شاہین باغ کا آندولن ختم نہیں کیا گیا تو مسلمان ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر بہن بیٹیوں کی عصمت دری کریں گے پھر نریندر مودی اور امت شاہ بچانے نہیں آئیں گے۔‘ انوراگ ٹھاکر نے نعرہ بلند کیا کہ ’گولی مارو۔۔۔‘، کپل مشرا نے دہلی کے ایک دوسرے مقام پر آکر، جہاں خواتین احتجاج پر بیٹھی ہوئی تھیں، پولیس کی موجودگی میں دھمکی دی کہ اگر دو تین دنوں میں یہاں سے آندولن کو ختم نہیں کیا گیا تو وہ خود ختم کر دیں گے۔ کپل مشرا کی دھمکی کے بعد ہی دہلی میں فساد پھوٹ پڑا جس میں متعدد لوگوں کی جانوں کا اتلاف ہوا اور بہت سے لوگوں کی جائیدادیں تباہ و برباد ہوئیں۔ آج بھی بہت سارے لوگ بغیر کسی قصور کے جیلوں میں ہیں۔ یہ تحریک بھی پر امن تھی، کسان آندولن کے بعض لیڈروں نے بعض تقریروں میں شاہین باغ کا حوالہ دیا کہ اس تحریک سے بھی انہیں تحریک ملی۔ اس تحریک کو حکومت نے مسلمانوں کی تحریک سمجھ کر سخت رویہ رکھا اور سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ اسی دور میں کورونا کے آنے سے تحریک جو ملک کے کئی حصوں میں ہو رہی تھی، وہ جاری نہیں رہ سکی لیکن یہ تحریک اپنی چھاپ چھوڑے بغیر نہیں رہی۔ جو لوگ اور خاص طور پر جو نوجوان اس تحریک میں شامل رہے، ان کے ساتھ حکومت ابھی بھی بے رحمی اور سنگ دلی سے پیش آ رہی ہے۔ ان کو ضمانت تک نہیں مل رہی ہے۔ مسلمانوں کو اس سے نہ مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی مشتعل ہونا چاہیے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت جس قدر بھی مضبوط اور مستحکم ہو، وہ ایک نہ ایک دن جائز مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگی۔
[email protected]