وطن عزیز ہندوستان نے شروع سے آزاد خارجہ پالیسی کو اہمیت دی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا امریکہ اور سوویت یونین کے دو گروپوں میں بٹتی ہوئی نظر آنے لگی تھی، کئی بڑے ملکوں نے بھی ان دونوں گروپوں میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے میں ہی بھلائی سمجھی تھی مگر پنڈت جواہر لعل نہرو نے دونوں میں سے کسی بھی گروپ میں ہندوستان کی شمولیت میں دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ دراصل پنڈت نہرو یہ سمجھ چکے تھے کہ ہندوستان کی طرح کئی اور ممالک نہ سوویت یونین کے گروپ میں رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی امریکہ کے گروپ میں۔ ایسے ملکوں کے ساتھ ہندوستان نے ناوابستہ تحریک کی تشکیل کی۔ اس وقت اس تحریک کی اہمیت کا جن لیڈروں کو اندازہ نہیں رہا ہوگا، انہوں نے بھی دیوار برلن کی تعمیر سے یہ اندازہ لگا لیا ہوگا کہ سوویت یونین اور امریکہ دنیا بھر کے ملکوں کو اس طرح بانٹ دینا چاہتے ہیں کہ جو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو، وہ دوسرے کی طرف نہ دیکھے مگر ہندوستان ناوابستہ تحریک کا حصہ تھا، اس کی ایک آزاد خارجہ پالیسی تھی تو اس کے تعلقات سوویت یونین اور امریکہ دونوںسے تھے۔ بعد کے برسوں میں سوویت یونین اور ہندوستان میں کچھ زیادہ قربت بڑھی، امریکہ کچھ دور سا نظر آیا مگر گزشتہ تین دہائی میں امریکہ اور ہندوستان دونوں کے تعلقات مستحکم ہوئے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ روس سے بھی اس کے تعلقات کمزور نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ ہندوستان کسی کے دائرۂ اثرمیں نہیں۔ وہ اپنے مفاد کا خیال رکھنا چاہتا ہے اور اس کی یہ کوشش بھی رہی ہے کہ باہمی تعلقات کو وہ صحیح طریقے سے نبھائے۔ ’کواڈ‘ میں ہندوستان کی شمولیت پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے سخت تنقید کی تھی مگر ہندوستان یہ اشارے دیتا رہا ہے کہ اس کے امریکہ کے ساتھ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ روس کے خلاف ہے اور روس سے اہم ہتھیاروں کی ڈیل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ سے اس کی دوری ہو گئی ہے، چنانچہ ہندوستان نے ایس-400 میزائل سسٹم کے معاملے میں قدم بڑھائے ہیں۔ اسی ایس-400 میزائل سسٹم کی روس سے خریداری کی وجہ سے ترکی کے امریکہ سے رشتے میں تلخی آئی ہے۔ ترکی کے ناٹو میں شامل ہونے کے باوجود امریکہ اس کے خلاف کاؤنٹرنگ امریکاز ایڈورسریز تھرو سینک شنس ایکٹ (Countering America’s Adversaries Through Sanctions Act) کے تحت کارروائی کر چکا ہے۔
ہندوستان نے اشارے ہی اشارے میں یہ بات کہہ دی ہے کہ وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ وزیر دفاع کے بیان کے حوالے سے آنے والی رپورٹ کے مطابق، ایس-400 میزائل سسٹم کی ڈلیوری کے لیے روس کے ساتھ ہندوستان نے 5 اکتوبر، 2018 کو قرار کیا تھا۔ وزیر دفاع کے مطابق، ’حکومت دفاعی آلات کی خریداری کو متاثر کرنے والے سبھی حالات سے واقف ہے۔ حکومت، مسلح افواج کی سبھی دفاعی چنوتیوں کا سامنا کرنے کی تیاری کے لیے متوقع خطروں، آپریشنل اور ٹیکنیکل پہلوؤں کی بنیاد پر خودمختاری کے ساتھ فیصلے لیتی ہے۔ یہ ڈلیوری معاہدے کی متعینہ مدت کے مطابق ہو رہی ہے۔‘اس بیان کی اہمیت اس لیے بھی ہے، کیونکہ اس نے اس خدشے کو دور کر دیا ہے کہ حکومت ہند امریکہ کی وجہ سے ایس-400 میزائل سسٹم کی ڈلیوری پر موقف واضح نہیں کر رہی ہے مگر اب اس نے موقف کا اظہار کر دیا ہے۔ ہندوستان اور روس کے مابین ہونے والے اس دفاعی معاہدے پر 15 نومبر، 2021 کو امریکہ تشویر ظاہر کر چکا ہے مگر یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا وہ ہندوستان کے خلاف بھی کاؤنٹرنگ امریکاز ایڈورسریز تھرو سینک شنس ایکٹ کے تحت کارروائی کرے گا؟ مگر امریکہ کو ہندوستان کے خلاف کوئی قدم اٹھاتے ہوئے یہ سوچ لینا چاہیے کہ چین اس کی جگہ لینے کے لیے بے چین ہے، 2028 تک اقتصادی طور پر اس کی جگہ چین کے نمبر وَن پر آنے کی بات کہی جا رہی ہے، دنیا چین کی توسیع پسند پالیسی سے پریشان ہے تو ایسی صورت میں کواڈ کی بڑی اہمیت ہے اور یہ اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس میں ہندوستان شامل ہے۔ پھر یہ کہ امریکہ کو ایس-400 میزائل سسٹم معاہدے کے خلاف کوئی مذموم قدم اٹھانے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اس نے اپنے مفاد کے لیے اوکس بنایا اور اس میں ہندوستان کو شامل نہیں کیا، اس نے افغانستان سے انخلا کے فیصلے تک پہنچنے میں اس طرح ہندوستان کو شامل نہیں کیا جیسے اسے کیا جانا چاہیے تھا جبکہ روس نے یہ ظاہر کرنے کی عملی کوشش کی ہے کہ افغانستان کی تعمیر نو میں ہندوستان کا رول اہم ہے۔ 6 دسمبر کو ولادیمیرپوتن ہندوستان کے دورے پر آرہے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد ہونے والے ان کے اس دورے کے اہم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اس دورے کے بعد ایس-400 میزائل سسٹم پر حالات زیادہ واضح ہو جائیں گے!
[email protected]
ہندوستان: کسی کے دائرۂ اثر میں نہیں!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS