پٹرولیم مصنوعات کو گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے دائرہ میں نہ لانے کے سلسلے میں حکومت کے عذر کو کیرالہ ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں حکومت قیل و قال اور ٹال مٹول کا رویہ اپنا رہی ہے۔ وبائی امراض کا حوالہ پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کے عدم نفاذ کا اطمینان بخش جواز نہیں ہے۔ حیلہ بہانہ کے بجائے حکومت اس کی ٹھوس وجہ بیان کرے ۔ کیرالہ کے ایک ایکٹیوسٹ نے پٹرول و ڈیزل کی روزافزوں بڑھتی قیمت کے حوالے سے عدالت میں عرضی دائر کی تھی کہ حکومت کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لائے۔ اس عرضی کی سماعت کرتے ہوئے کیرالہ ہائی کورٹ نے جی ایس ٹی کونسل کو حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ عدالت میں جی ایس ٹی کونسل نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے، اس میں کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات حکومت کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں اور وبائی امراض کے دوران پٹرولیم مصنوعات کو جی ایس ٹی نظام کے تحت لانا مشکل ہوگا۔
جی ایس ٹی کونسل کے اس تعجب خیز بیان پر عدالت کا برہم ہونا غیر فطری نہیں کہاجاسکتا ہے ۔جی ایس ٹی کونسل کا یہ جواب اپنے آپ میں ہی حیرت انگیز ہے کیوں کہ گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی ) ملک کا بنیادی مقصد تمام تر بالواسطہ ٹیکسز کو ختم کرکے ایک واحد ٹیکس وصولی کا نظام متعارف کرناتھا ۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے وقت حکومت نے انتہائی طمطراق سے یہ دعویٰ کیاتھا کہ اس سے پیچیدگیاں کم ہوں اور ایک یکساں طور پر مؤثر ٹیکس نظام پورے ملک میں نافذ العمل ہوگا ۔لیکن پٹرولیم مصنوعات کو اس کے دائرے سے باہر رکھ کر حکومت نے خود ہی اپنے موقف کی تردید کردی ہے ۔
جی ایس ٹی کے نفاذ کے وقت اس کے فوائد کا شمار کراتے ہوئے حکومت نے ٹیکس چوری، بدعنوانی، کالے دھن اور کاروباریوں کو ہونے والی پریشانیوں کے خاتمہ کی نوید بھی سنائی تھی۔یہ بھی بتایاتھا کہ ملک مکمل طور پر آن لائن ٹیکس کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ای کامرس کو زیادہ سے زیادہ رفتار ملے گی۔ غیر منظم کاروباری شعبہ بھی حکومت کے کنٹرول میں آجائے گا۔ مجموعی طور پر حکومت اور ٹیکس دہندگان دونوں کو فائدہ ہوگا۔جدید معیشت کیلئے یہ عمل انتہائی مطلوب ہے ۔
حکومت کے اس اقدام کو ماہرین اقتصادیات نے مشروط طریقے سے درست ٹھہراتے ہوئے کہاتھا کہ ہندوستانی معیشت کو عصری عالمی معیشت کے ہم پلہ بنانے کیلئے جی ایس ٹی کا نفاذ قابل ستائش قدم ہے اور اس کے دوررس اثرات ہوں گے۔ اگر اسے درست طریقے سے نافذ کیاگیاتوجی ایس ٹی ہندوستانی معیشت کی خوشحالی کی کلید ثابت ہو گا۔
جی ایس ٹی نافذ ہوئے تقریباً5 برس ہوچکے ہیں لیکن ٹیکسوں میں یکسانیت کادور دور تک پتہ نہیں ہے، پٹرولیم مصنوعات کی طرح ہی کئی اور دوسری بنیادی چیزوں کو جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر رکھ کر حکومت ٹیکس وصولی کے اسی پرانے نظام پر عمل پیرا ہے جس کے خاتمہ کی اس نے دہائی دی تھی۔جن چیزوں پر جی ایس ٹی نافذ کیا گیا ہے اس میں توازن کی ایسی کمی ہے کہ کئی ایک تجارتی اور کاروباری شعبے بھاری خسارہ کا بوجھ اٹھارہے ہیں۔ حکومت کو بھاری ٹیکس وصولی کی اتنی عجلت تھی کہ اس نے بغیر خاطر خواہ تیاری کے یکم جولائی2017کی آدھی رات کو جی ایس ٹی نافذ کردیا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوٹ بندی کی عذاب ناک صورتحال سے گزررہی ہندوستانی معیشت جی ایس ٹی کی وجہ سے چرمرا کر رہ گئی۔ ماہرین اقتصادیات کے مشوروں کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جی ایس ٹی نافذ کرنے سے قبل احتیاطی تدابیراختیار کی جاتیں، انفرااسٹرکچر بنایا جاتا، ماہرین کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف سے مشاورت کی جانی چاہیے تھی اور پارلیمنٹ میں بھی اس پر خاطر خواہ مخلصانہ بحث کی جانی چاہیے تھی لیکن ان سب اقدامات سے صرف نظر کی وجہ سے جی ایس ٹی سے فوائد کم اور نقصان زیادہ ہوا اورا ب تک ہورہاہے ۔ہندوستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے مائیکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرائز(ایم ایس ایم ایز) پر ٹیکس کا بوجھ پہلے سے نسبتاً زیادہ ہوگیا ہے اور اس سے وابستہ صنعتی اور تجارتی برادری اسے کم کرنے کی آج تک اپیلیں کررہی ہے۔ مختلف مصنوعات پر بہت زیادہ شرحوں پر جی ایس ٹی لگائے جانے کی وجہ سے اشیائے ضروریہ سے لے کر فلیٹوں اور مکانات تک ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے۔
یہ صورتحال جی ایس ٹی کے تعلق سے کیے گئے حکومتی وعدے کے برخلاف ہے اور اس کا راست اثر عوام الناس پر پڑ رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کو اس کے دائرہ سے باہر رکھ کرمختلف ریاستوں میں اس پر مختلف طرح کے الگ الگ ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔جی ایس ٹی کے وقت کیے گئے وعدے کے مطابق حکومت کو پٹرولیم مصنوعات پر بھی ٹیکس میں یکسانیت لانے کیلئے اسے جی ایس ٹی کے دائرہ میں لاناچاہیے۔ معاملہ میں قیل و قال اور ٹال مٹول کارویہ عوا م کے ساتھ صریحاً دھوکہ ہی شمار ہوگا۔
[email protected]
پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کیوں نہیں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS