ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو وزیراعظم نریندر مودی کی بہت ساری باتوں سے اختلاف ہو لیکن وزیراعظم کی بعض باتیں اہل فکر و نظر کو سوچنے کا نیا زاویہ ضرور دیتی ہیں۔ آج یوم آئین کے موقع پر پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے جمہوریت بالخصوص سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے حوالے سے جو باتیں کہی ہیں، ان پر غور کیاجانا ضروری ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سیاست میں خاندان اور خاندانی پارٹیاں جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ ہر چند کہ انہوں نے کسی ایک پارٹی کا نام نہیں لیا لیکن بین السطور ان کا پیغام کانگریس کیلئے ہی تھا۔اشارے کنائے میں بڑی سے بڑی تلخ و متنازع باتوں کا سہل انداز میں ابلاغ کرجانا اور پانی میں اتر کر بھی دامن تر نہ ہونے دینا وزیراعظم کا ہی خاصہ ہے۔ یوم آئین کے موقع پر اپنا یہی ہنر خاص آزماتے ہوئے وزیر اعظم ملک میں جمہوریت کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دے گئے۔
انہوں نے بغیر نام لیے خاندانی سیاسی جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر میرٹ کی بنیاد پر کسی ایک خاندان کے کئی افراد کسی پارٹی سے منسلک ہوں تو وہ پارٹی خاندانی نہیں ہوجاتی ہے لیکن ایک پارٹی ہے جو کئی نسلوں سے سیاست میں ہے اور وہ اس کی خاندانی پارٹی ہوگئی ہے۔ خاندانی سیاسی جماعتیں جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ہندوستان ایک ایسے بحران کی جانب بڑھ رہاہے جو آئین کو کمزور کرسکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں خودا پنا جمہوری کردار کھورہی ہیں، اس سے آئین اورآئین کی ایک ایک شق کو نقصان پہنچ رہاہے۔وزیراعظم نے اہل وطن سے سوال کیا کہ جب سیاسی جماعتیں خود اپنا جمہوری کردار کھو رہی ہیں تو وہ آئین اور جمہوریت کا تحفظ کیسے کرسکتی ہیں؟
وزیراعظم کا یہ سوال غورطلب ہے اور اس ضرورت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے ثمرات شیریں کا مزہ لینے کیلئے ہر ادارہ اور جماعت میں اسے ناگزیر ہو ناچاہیے۔سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت بھی اسی ذیل میں آتی ہے اور حکومت و ملک کے آئینی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا اندرون بھی اس جمہوریت سے روشن ہوناچاہیے۔
بظاہر یہ سوال حزب اختلاف سے کیا گیا ہے لیکن درحقیقت اس سوال کا جواب حزب اختلاف سے پہلے خود وزیراعظم اور ا ن کی حکومت کو دینا چاہیے۔ گزشتہ سات آٹھ برسوں کے بین الاقوامی سروے اور جائزہ کوا گر دیکھاجائے تو 90فیصد جائز ے یہی بتارہے ہیں کہ ہندوستان میں منجملہ جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور ہندوستان ایک کم ہوتی جمہوریت کی راہ پر چل پڑا ہے۔ ایوان میں اپنی عددی برتری کو اپنی غلط کاریوں کی تائید سمجھتے ہوئے ہر وہ کام کر گزرتی ہے جو آئین سے متصادم اور جمہوری روایات کے برخلاف ہوتا ہے۔
آئین کی روح کے علی الرغم جمہوری اقدار سے صرف نظر کرتے ہوئے حکومت، طاقت اور تشدد کے ذریعہ ایک خاص نظام اور نظریہ کو پورے ملک پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں حزب اختلاف پر سوال اٹھانا یا ان کی داخلی جمہوریت کو موضوع بحث بنانے سے پہلے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ حکومت اپنے اقدامات اور کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے یہ بتائے کہ اس نے جمہوری حوالوں سے ملک میں استحکام کیلئے کون کون سے کام کیے ہیں۔حزب اختلاف تو اسی لیے حزب اختلاف ہے کہ بوجوہ عوام نے اسے رد کردیا ہے۔عوام کی تائیدکا وزن حکومت کے پلڑے میں ہے، اس لیے یہ حکومت کو ہی بتانا ہوگا کہ اس کے نامہ اعمال میں جمہوریت کی سربلندی کیلئے کی جانے والی کوئی کاوش بھی ہے یا نہیں ؟
سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت ایک مسئلہ ہوسکتی ہے لیکن یہ بنیادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں کم ہوتی جمہوریت اور زیادہ ہوتے جبر و تشدد کے خلاف حکومت سرگرم کیوں نہیں ہے؟آئین کی کون سی شق اور جمہوریت کا کون سا اصول حکومت کیلئے یہ جائز ٹھہرارہا ہے کہ چور کو پکڑنے کے بجائے چور چور کہہ کر عوام کو بیدار کرنے والوں کے خلاف ہی بزن بولے۔
صرف ووٹ ڈال کر حکومت سازی کی تائید حاصل کرنا ہی جمہوریت نہیں ہے بلکہ جمہوریت ایک مسلسل سفر کا نام ہے، جو افراد اور اقوام کو ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے۔ اس سفر پر پورے ملک و قوم کو ساتھ لے کر چلنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے پہلو تہی جمہوریت کی نفی سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت نہ صرف اتحاد و اتفاق کی نقیب ہوتی ہے بلکہ یہ معاشرہ کے ہر فرد کی آزادی کا احترام کرنابھی سکھاتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت پر تشویش کے ساتھ ساتھ حکومت کوجمہوریت کے اس سنہرے اصول کی روشنی میں اپنی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔
[email protected]
صرف داخلی جمہوریت ہی کیوں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS