شیکھر گپتا
تین نئے زرعی قوانین کو رد کرنے کا اعلان کرکے مودی حکومت نے صحیح قدم اٹھایا ہے۔ طویل عرصہ سے چل رہے تنازع کو حل کرنے کا یہی ایک راستہ تھا، لیکن اس سے یہ حقیقت نہیں تبدیل ہوجاتی کہ ان زرعی قوانین سے بہتری اور کسانوں کی فلاح ہوتی۔ یہ حقیقت بھی نہیں تبدیل ہوجاتی کہ یہ قوانین شروع سے ہی بے روح اور متضاد تھے۔
جمہوریت میں یہ معنی نہیں رکھتا کہ کسی پالیسی کے بارے میں حکمراں کتنے پراعتماد ہیں کہ وہ عوام کے مفاد میں ہیں۔ 2020کی گرمیوں میں جب یہ اصلاحی قدم اٹھایا گیا تھا تب کسی کو اس کی ضرورت نہیں محسوس ہورہی تھی۔ اپوزیشن ندارد تھا۔ میڈیا کل ملاکر مخالف نہیں تھا۔ ان اصلاحات کی حمایت جن میں یہ مصنف بھی شامل تھا، کہہ رہے تھے کہ بحران کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لہٰذا پارلیمانی طریق کار کی باریکیوں کی فکر کیوں کی جائے؟
شروع کے کچھ ہفتوں کے اندر ہی صاف ہوگیا کہ کسی نے پہلے سے تیاری کرنے، اپوزیشن یا اپنے ساتھیوں(مثلاً شرومنی اکالی دل) کے ساتھ ہی مل کر عام اتفاق رائے قائم کرنے یا ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں کو راضی کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ بغیر غور و خوض کے، بغیر بحث کے آپ بڑے فیصلے نہیں کرسکتے۔
زرعی قوانین کے معاملہ میں پہلی بڑی غلطی یہ کی گئی کہ انہیں آرڈیننس کے طور پر لایا گیا۔ آرڈیننس جاری کردو تو اس کے بعد اسے قانون بنادینا ایک رسم رہ جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری کنفرم ہوجاتی ہے اور بحث محض کتابی بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ سب ایسے معاملات میں تو چل سکتا ہے، جن پر پہلے سے بڑے پیمانہ پر اتفاق رائے ہو یا جو کم لوگوں کو متاثر کرتے ہوں لیکن جب زراعت جیسے سیاسی طور پر بے حد حساس مسئلہ کو اٹھا رہے ہوں جس سے تقریباً آدھی آبادی راست متاثر ہوتی ہو، ویسے مسئلہ کو کیا آرڈیننس کے ذریعہ ہی نمٹانا ضروری ہے؟ کھیتی کے معاملہ میں یہ سب نہیں چلتا۔ یہ نسل در نسل آگے بڑھتے ہوئے ہی سخت ہوتی ہے۔ سبز انقلاب سے پہلے پانچ سال تک اس کے لیے زمین تیار کی گئی تھی، کسانوں سے راست بات چیت کرکے انہیں سمجھایا گیا تھا۔ اس انقلاب کے خیالات سے دیسی مہم چلانے والے اُبھرے اور انہوں نے کسانوں کو سمجھایا۔ اب ہم تین آرڈیننس کے ذریعہ راتوں رات ان کی عادتوں اور معیشت کو تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔
سبزانقلاب 53سال پہلے آیا تھا۔ اس نے اپنا کام پورا کردیا ہے، یہ پنجاب سے سمجھ آتا ہے۔ اگر نئے زرعی قوانین کی سب سے پرزور مخالفت اس ریاست میں ہورہی ہے جسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مصلح پہلے سے تیاری نہیں کی۔
بی جے پی نے اندرونی بحث یا عدم اتفاق کو اس قدر نظرانداز کردیا ہے کہ کوئی بھی یہ سمجھنے یا ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ پورے شمالی ہندوستان میں ’مودی کا جادو‘ جس ریاست پر نہیں چلا وہ پنجاب ہی کیوں ہے۔ سکھوں کو سمجھنے کی گہری نااہلی نے معاملہ کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ جب دیکھا کہ کسان راستہ پر نہیں آرہے بلکہ دہلی کی گھیرابندی کرکے نافرمانی کررہے ہیں تب بدنام کرنے اور سازش کے جھوٹے الزامات لگانے کی مہم شروع کردی گئی۔ تب تک، نئے زرعی قوانین کی پیروکاری کا وقت نکل چکا تھا۔
ایک تو پنجاب کو سمجھ پانے میں بی جے پی کی نااہلی، اس کے ساتھ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا بھی کہ دہلی کے پاس ایک بڑا طبقہ ہے، جو آنکھ بند کرکے چلنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسرے، پارلیمنٹ کے تئیں احترام کی کمی بھی۔ ایک آرڈیننس اُچھال دو اور اسے راجیہ سبھا سے جبراً منظور کروا لو، اسے پورے ملک نے دیکھا۔ اسے ایک کسان بن کر دیکھئے، جو نہ صرف اپنے روایتی کاروبار بلکہ دو نسلوں والی طرززندگی میں کی جارہی اس ڈرامائی تبدیلی کے تئیں سب سے مشکوک اور انجان ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ایسا دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ سب اس کے لیے ہورہا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس پر بحث اور ووٹنگ دیکھنے کی سہولت تک نہیں ہے؟
بی جے پی نے اپنے قدم واپس کھینچنے کا یہ دوسرا بڑا فیصلہ کیا ہے۔ حصول اراضی بل(Land Acquisition Bill) بھی بغیر سابقہ تیاری اور بغیر عام اتفاق رائے کے لایا گیا تھا۔ 2019کے بعد سے پارلیمنٹ نے قانون بنانے کی ایسی افراتفری خوب دیکھی ہے۔ مثال کے لیے آرٹیکل 370اور کشمیر کے خصوصی درجہ کو لے کر کیے گئے فیصلے کو اچانک ایک صبح پارلیمنٹ میں لایا گیا۔ شام تک سب کچھ ویسے ہی ختم کردیا گیا جیسے ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے ٹی-20 ورلڈ کپ میں اسکاٹ لینڈ کو 39گیندوں میں نمٹا دیا تھا۔ کشمیر مسئلہ پر اپوزیشن تقسیم تھا، قومی رائے اس کے حق میں تھی، کشمیر اور کشمیری بہت الگ تھے۔ اس کے بعد آیا شہریت قانون(سی اے اے) جس کے ساتھ این آر سی کا شور بھی شامل تھا۔ لیکن اس سے بی جے پی کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔
اس سب کے باوجود وہ مغربی بنگال ہار گئی اور اب اپنے سب سے اہم، قریبی اور دوستانہ پڑوسی بنگلہ دیش کے ساتھ رشتے سنبھالنے کے لیے جوڑتوڑ کرنی پڑرہی ہے۔ اب سی اے اے بھی مردہ ہے۔ آپ اس طرح کا کوئی قانون بناکر خلیج کے عربوں اور بنگلہ دیش سے دوستی کی بھی امید نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ معاملہ جب پارٹی کے مفاد اور قومی مفاد کے اہم پہلوؤں کا ہو، تب قدم واپس کھینچنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔
معاشی اصلاحات کے معاملہ میں بھی ہم دو بڑے اقدامات کی واپسی دیکھ چکے ہیں۔ حالاں کہ ان فیصلوں کی ہم ادارتی طور پر حمایت کرچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ ایک سال قبل پاس کیے گئے نئے لیبر قوانین کو ابھی تک نوٹیفائڈ نہیں کیا گیا ہے۔ چھوٹی بچت کی سرکاری اسکیموں کے لیے بازار کے حالات کے مدنظر سود کی شرح کم کرنے کے فیصلہ کو واپس لے لیا گیا ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت میں پارلیمانی اکثریت ہونے کے باوجود اپنی حدود ہیں۔ دوسرا آپ کا چاہے کتنا بھی دبدبہ کیوں نہ ہوہندوستان ریاستوں کی یونین ہے اور 28 میں سے صرف12ریاستوںمیں آپ کے وزرائے اعلیٰ اقتدار میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کا بڑا دائرہ ایسا ہے جو بغیر سوال اٹھائے آپ کے پیچھے نہیں چل رہا ہے۔ ریاستوں کو ساتھ لیے بغیر اس کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کریں گے تو مخالفت ہوگی ہی۔
آخری سبق سب سے اہم ہے۔ یہ ایک براعظمی شکل کے متنوع اور وفاقی نظام والے ملک کو کسی ریاست کے وزیراعلیٰ کی طرح چلانے کے خطرے سے منسلک ہے۔ ہماری زیادہ تر ریاستوں میں اسمبلیوں کے سیشن آناًفاناً چلائے جاتے ہیں، بحث نہیں ہوتی، وزیراعلیٰ تاناشاہ کی طرح سلوک کرتے ہیں۔ یہ سبھی پارٹیوں کے امراض ہیں۔ کیا ان سب سے کوئی سبق لیا جائے گا؟ ہم نہیں جانتے۔ اسمارٹ لوگ عام طور پر جیت سے زیادہ ہار سے سبق سیکھتے ہیں لیکن ہم نے اب تک جو ہوتے دیکھا ہے اس کے سبب اس کے امکانات یہاں کم ہی نظر آتے ہیں۔
(مضمون نگار ’دی پرنٹ‘ کے ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)