صفائی مہم: کچھ اور کرنے کی ضرورت!

0

ہر دور میں صفائی کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ آج کی قدیم مگر اپنے دور کی جدید تہذیبیں اس لیے بھی جدید مانی گئی تھیں کہ ان میں پانی کی نکاسی کے لیے نالوں کا بہتر نظام تھا، نالے پتھروں کے بڑے بڑے بلاکس سے ڈھکے ہوتے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ آبادی بڑھی تو امراض بڑھے، زیادہ اسپتال کھولنے اور اسی مناسبت سے طبی عملے کی ضرورتیں بھی بڑھیں مگر حکومت مفاد عامہ کے کسی ایک شعبے پر ہی پوری توجہ نہیں دے سکتی، کسی ایک شعبے کا بجٹ بناتے وقت دیگر شعبوں کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ وطن عزیز ہندوستان میں 2020 کے مقابلے 2021 کے صحت کے بجٹ میں 137 فیصد کا اضافہ ہوا تھا، اس کے باوجود کورونا کی لہر تیزی سے پھیلنے لگی تو لگا کہ صحت کا بجٹ اور زیادہ ہونا چاہیے۔ سوال یہ تھا کہ کتنا ہونا چاہیے؟ بجٹ بڑھے گا تو اضافی رقم کہاں سے آئے گی، کیونکہ ریونیو بڑھے بغیر ہی حکومت صحت کی مد میں زیادہ خرچ کرے گی تو اس کا اثر دیگر شعبوں پر پڑے گا۔ مان لیجیے کہ ریونیو بڑھائے بغیر تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کرکے صحت کی مد میں رقم بڑھا دی جائے تو کیا اس کا بالواسطہ اثر صحت کے شعبے پر اس طرح نہیں پڑے گا کہ آنے والے وقت میں اچھے اسٹاف کی اس کے پاس کمی ہوجائے گی؟ اصل میں اکثر لوگ کسی کام کے راست اثر کے بارے میں ہی سوچتے ہیں مگر بجٹ بنانے والے لوگ اس کے بالواسطہ اثر کے بارے میں بھی سوچتے ہیں ، کوئی مہم شروع کرتے وقت بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے جیسے 2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کا ’سوچھ بھارت ابھیان‘ جسے ’سوچھ بھارت مشن‘ بھی کہا جاتا ہے، آج اس مہم کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر شہر کے لیڈر، میونسپل کونسلر اور صفائی کے لیے ذمہ دار لوگوں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ ان کا شہر ’سوچھ سروکشن‘ میں اول آئے۔ اس سلسلے میں مقابلہ سخت ہوتا ہے، ٹاپ 10 صاف شہروں میں بھی کسی شہر کا جگہ بنا لینا بڑی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کے باوجود 2021 کے سروے میں بھی اندور ہی کو ہندوستان کا سب سے صاف شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس نے یہ پوزیشن مسلسل پانچویں بار حاصل کی ہے جبکہ چھتیس گڑھ کو سب سے صاف ریاست قرار دیا گیا ہے۔
صاف شہروں کی فہرست میں سورت دوسرے، وجے واڑہ تیسرے، نوی ممبئی چوتھے اور دہلی پانچویںنمبر پر ہے تو امبیکا پور چھٹے، تروپتی ساتویں، نوئیڈا آٹھویں، پنے نویں اور اجین دسویں نمبر پر ہے۔ یہ فہرست ان لوگوں کو الجھا سکتی ہے جو ان دنوں دہلی اور اس کے اطراف کے علاقوں کی آلودگی کی وجہ سے پریشان ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ دہلی کا شمار دنیا کے ٹاپ 10 آلودہ شہروں میں ہوتا ہے مگر انہیں الجھنا نہیں چاہیے، یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آلودگی کی کتنی اقسام ہیں اور اسی کے ساتھ یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ ان کا شہر ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہو، چاہے وہ خواہ مخواہ کے بحث و مباحثے کی آلودگی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت ہند کے ’سوچھ بھارت ابھیان‘ سے شہروں کو صاف بنانے پر پہلے سے زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے، اس مہم کی سب سے اہم بات بیت الخلا کی تعمیر ہے، اس سلسلے میں جولائی 2019 میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے 2018-19 کے اکنامک سروے کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 99.2 فیصد دیہی علاقوں کو ’سوچھ بھارت مشن‘ کے تحت کور کیا گیا ہے اور 564,658 گاؤں اوپن ڈیفیکیشن فری (Open Defecation Free) بنا دیے گئے ہیں۔ پورے ملک میں مجموعی طور پر 9.5 کروڑ بیت الخلا بنوائے گئے ہیں۔ چونکہ ’سوچھ بھارت ابھیان‘ کا دوسرا دور 2020 میں شروع ہو چکا ہے، اس لیے یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ حالات میں مزید مثبت تبدیلی آئی ہوگی۔ بیت الخلا کی تعمیر سے کھلے میں مرد و خواتین کو رفع حاجت کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑے گا، اس کا راست مثبت اثر فضا پر پڑے گا تو بالواسطہ مثبت اثر لوگوں کی صحت پر بھی پڑے گا، کیونکہ یہاں وہاں فضلا نہیں سڑیں گے، اطراف کی فضا آلودہ نہیں ہوگی تو کئی بیماریاں بھی نہیں ہوں گی۔ ’سوچھ بھارت ابھیان‘ صفائی کی ایک مہم ہی نہیں، امراض کے خلاف بھی مہم ہے۔ توجہ پانی کی صفائی اور فضا کی مجموعی صفائی پر بھی دی جانی چاہیے تاکہ یہ تضاد نہ ہو کہ کوئی شہر ایک طرف تو ٹاپ کے صاف شہروں کی فہرست میں شامل ہو اور دوسری طرف آلودہ شہروں کی فہرست میں بھی جگہ بنائے ہوئے ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ’سوچھ بھارت ابھیان‘ کی مکمل کامیابی اسی میں ہے کہ ہر طرح کی آلودگی سے ہمارا ملک صاف ہو، چاہے وہ آلودگی نفرت کی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ صفائی ایسی ہو کہ لوگوں کو سروے سے بھی معلوم ہو اور وہ خود بھی اسے محسوس کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS