شاہد زبیری
یوپی کے انتخابات میں 4ماہ بھینہیں بچے ہیں اضلاع میں ووٹر لسٹوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، ای وی ایم مشینیں بھی پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔ سرکاری عملہ کی انتخابی مصروفیات میں اضافہ ہو رہا ہے ، موسم کا درجہ حرارت نیچے گررہا اور سیاست کا درجۂ حرارت اوپر چڑھ رہا ہے، الفاظ کی جنگ تیز اور جارحانہ انداز اختیار کرتی جا رہی ہے اسی کے ساتھ سیاسی صف بندیوں کا دور جاری ہے، سیاسی پارٹیوں کا انتخابی اتحاد کے عمل کا کھیل بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ کھیل میں تمام پارٹیوں کے نشانہ پر بی جے پی اور بی جے پی کے نشانہ پر تمام پارٹیاں ہیں لیکن سیاست کی اس جنگ میں ابھی جو منظر نامہ ابھر رہا ہے اس میں بی جے پی اور سماجوادی پارٹی ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظر آرہی ہیں۔ مقابلہ ان دونوں پارٹیوں ہی میں طے مانا جا رہا ہے حالانکہ کانگریس اس سیاسی دنگل میںتمام سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ وہیں بی ایس پی بھی تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کرچکی ہے۔
بی جے پی کا گیم پلان جگ ظاہر ہے، اس کا ہندتوکا ایجنڈہ اب اس کا خفیہ ایجنڈہ نہیں اسی ہندتوکے ایجنڈہ کے تحت اس نے سیاسی بساط پر اپنی چالیں چلنا شروع کردی ہیں۔ اس کی نظریں اپنے سیاسی حریفوں پر اتنی جمی ہوئی ہیں کہ حریفوں کی ذرا سی لغزش اس سے او جھل نہیں ہے ا ن کے منہ سے نکلے الفا ظ کو ایسے جھپٹتی ہے جیسے شکاری اپنے شکار پر۔ سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادوکے یکم نومبر کے جناح پر دیے گیے بیان سے اپنے مطلب کی بات بی جے پی فوراً لے اُڑی۔ یہ اب صاف ہو چکا ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہی بی جے پی کا2022کا بھی چہرہ ہیں۔ انہوںاکھلیش کے جناح والے بیان کو نہ صرف شرمناک بتا یا بلکہ طالبانی ذہنیت بھی قراردیا۔جناح پر دیے گیے بیان کے بعد سے سماجوادی پارٹی دفاعی پوزیشن میںنظر آرہی ہے۔ کانگریس کے سابق قومی صدر راہل گاندھی کے ذریعہ ہندو مذہب اور ہندتوپر پارٹی کیڈر کیمپ میں دیا گیا حالیہ بیان اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید کی تازہ انگریزی کتاب ’سن رائز اور ایودھیا‘ ہندتوکا موازنہ داعش اور بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیموں سے کیاجا نا بی جے پی کیلئے بلّی کے بھاگو چھیکا ٹوٹ جا نا جیسا ہے جس سے بی جے پی کے ہندتوکی دھار اور تیز ہو گئی ہے ۔ بی جے پی مخالف جماعتیں نظریاتی طور پر بی جے پی کے سامنے کمزور پڑ نے لگی ہیں اور کوئی واضح سیاسی اور نظریاتی موقف اختیار کرنے اور کوئی اسٹینڈ لینے سے ڈرنے لگی ہیں اگر کوئی اسٹینڈ لیتی بھی ہیں تو دیر تک اس پر ٹکی نہیں رہتیں۔ سلمان خورشیداپنی تازہ کتاب کے اجرا سے چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں روزنامہ راشٹریہ سہارا کے سوال پرسپریم کورٹ کا حوالہ دے کر ہندتو پر مہر بھی لگا تے ہیں اور کتاب میں اس کا موازنہ داعش اور بو کو حرام سے بھی کرتے ہیں۔ سلمان خورشید جیسے قدآور لیڈر جب یہ کرتے ہیں تو کانگریس کی بیچارگی نظر آتی ہے جبکہ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی نے توہندتوپر لب سی رکھے ہیں اس کے برعکس بی جے پی اپنے سیاسی نظر یات اور موقف میں ایماندار ہے اور کھل کر ہندتوکے نظریہ پر نہ صرف ڈٹی ہو ئی ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والوں پر بھی حملہ آور ہو نے میں دیر نہیں لگا تی۔اقتدار پر قابض رہنے کیلئے ہندتوکے ایجنڈہ میں فٹ بیٹھنے والے کسی واقعہ یا واردات کو بی جے پی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی لگے ہاتھوں مغربی یو پی کے قصبہ کیرانہ سے ہندوئوں کی مبیّنہ نقلِ مکانی کے ایشو کو بھی بی جے پی نے اپنا انتخابی ہتھیار بنا لیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے8نومبر کو کیرانہ میں پی اے سی کی 50ویں بٹالین کے فائرنگ رینج کے سنگِ بنیاد کے موقع پر ریلی میں کیرانہ سے ہندئووں کی نقلِ مکانی اور مظفر نگر فساد کے ایشو پر سماجوادی پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کر چکے ہیں اور اس کو بی جے کیلئے اسمتا (عزّتِ نفس) کا سوال بچاچکے ہیں۔ بی جے پی نے اس کو بھی 2022 کے انتخابات کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کیلئے اپنے ایجنڈہ میں سرِ فہرست جگہ دی ہے ۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ 13نومبر کو اعظم گڑہ میں اعظم گڑھ یو نیورسٹی کے افتتاح کے موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ تک کیرانہ کا نام لئے بغیر کہہ گئے کہ نقلِ مکانی کرا نے والے اب خود نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے ۔ واضح رہے کہ سہارنپور کمشنری میں شامل ضلع شاملی کے تاریخی قصبہ کیرانہ سے ہندو ئوں کی نقلِ مکا نی کا ایشو سب سے پہلے بی جے پی کے ایم پی آنجہانی حکم سنگھ نے 2016میں اٹھا یا تھا۔ اس کے پس پشت ان کا مقصد 2017 کے اسمبلی انتخابات میں اپنی بیٹی کو بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑوانا اور جیت درج کرانا تھا، اس کیلئے پولرائزیشن کو ضروری سمجھتے ہو ئے حکم سنگھ نے اس ایشو کو اچھا لا لیکن اپنے مقصد میں حکم سنگھ کامیاب نہیں ہوئے ۔قابل ذکرہے کہ کیرانہ مسلم اکثریتی قصبہ ہے۔ حکم سنگھ نے کیرانہ ہی نہیں پڑوسی تاریخی قصبہ کاندھلہ سے بھی ہندوئوں کی نقلِ مکا نی کا شو شہ چھوڑا تھا ۔حکم سنگھ نے اس وقت الزام لگا یا تھا کہ مسلم اکثریت کے جبر اور ظلم زیادتی کے سبب اور خاص طور سے مسلم’ غنڈوں‘ اور مافیا کے خوف سے سیکڑوں کنبے کیرا نہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں،کیرا نہ ہی نہیں کاندھلہ سے بھی اچھی خاصی تعداد چلی گئی ہے۔ بعد میں میڈیا کے سروے اور سرکاری تحقیقات سے اس جھوٹے پرو پیگنڈہ کی ہوا نکل گئی تھی اور پتہ چلا تھا کہ نقلِ مکانی کرنے والوں کی جو346کنبوں کی لسٹ انہوں نے جا ری کی تھی اس میں 20کے قریب وہ کنبے بھی شامل تھے جو کیرانہ ہی میں مقیم تھے اور چھوڑ کر گئے ہی نہیں تھے اور جو چھوڑ کر گئے تھے ان میں بڑی تعداد ان کی تھی جو کاروبار یا ملازمت کے سبب نقلِ مکانی پر مجبور ہو ئے تھے یا ان کے نام تھے جوفوت ہو چکے تھے جس سے حکم سنگھ کے اس پرو پیگنڈہ کی قلعی کھل گئی تھی۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کو کیرانہ کی یادکیوں آئی، کیرانہ ہی نہیں ان کو مظفر نگر فساد بھی یادہے جو اکھلیش یادو کی سرکار میں ہواتھا۔ اس بہانے انہوں نے سماجوادی پارٹی پر نشانہ سادھا اور کہاتھا کہ اس کا دکھ جن کو ہے ان کی سوچ طالبانی ہے۔ انہوں نے صاف کہا کہ کیرانہ سے نقلِ مکانی اور مظفر نگر کا فساد بی جے پی کیلئے سیاسی ایشو نہیں’اسمتا‘ )عزّتِ نفس ) کا سوال ہے وزیر اعلیٰ کیرانہ کے اس کنبہ کے گھر بھی گئے جو کیرانہ لوٹ آیا تھا۔ کہا جاتاہے کہ ایسے 50کنبے ہیں جو کیرانہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، اب لوٹ آئے ہیں۔
یوگی نے صرف کیرانہ ہی نہیں شاہجہانپور اور بدایوں کی ریلی میں بھی کیرانہ سے نقلِ مکانی اور یو پی کے فسادات کا ایشو اٹھا یا۔ بلکہ وہ جہاں بھی ریلی کررہے ہیں، ان دو نوں ایشوز پر ان کا فوکس رہتا ہے اور سماجوادی پارٹی پر ان کے جارحانہ سیاسی حملے جا ری ہیں۔ وہ ان تمام ایشوز کو اٹھا رہے ہیں جو اقتدار کی بقا کے لئے راستہ ہموار کرسکتے ہیں، ان میں سلاٹر ہائوس پر پابندی اور سابقہ سرکاروں میں ملازمتوں میں رشوت ستانی سے لے کر مافیاکی املاک ضبط کئے جا نے اور مافیا اور غنڈوں کو ٹھونک دینے کی باتیں کررہے ہیں۔رام مندر اور کشمیر سے متعلق کالعدم دفعہ 370کا ذکر کرنے کے علاوہ کسانوں اور غریبوں کیلئے کرا ئے گئے سرکاری فلاحی کام بھی گنوارہے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ 2022کا انتخاب میں نہ صرف ان کے سیاسی وجود کا سوال ہے،بلکہ 2024 میں مرکز میں بی جے پی اور مودی کی بقابھی ضروری ہے اور یو پی کی 80پارلیمانی سیٹوں پر بی جے پی نے جو سبقت حاصل کی تھی اس کو برقرار رکھنا بھی اس کیلئے لازمی ہے اسی لئے بی جے پی ہی نہیں سنگھ پریوار بھی اس مہم میں یوگی کی پشت پر کھڑا ہے اور سرکار کا دبدبہ بھی ہے۔یوپی سمیت ملک کی 5ریاستوں کے انتخابات میں یو پی کے ساتھ اترا کھنڈ اسمبلی الیکشن بی جے پی کیلئے موت و زیست کا سوال ہے۔ اتنا ہی نہیں 2022-23میں ملک کی 16ریاستوں میںبھی اسمبلیوں کے انتخابات ہو ں گے ہیں ان ریاستوں میں پارلیمنٹ کی 246 سیٹیں ہیں، ان سیٹوں پر کامیابی کا انحصار بھی 16 ریاستی اسمبلیوںکے انتخابات پر ہیں جو بی جے پی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس لئے بی جے پی اسمبلیوں کے انتخابات کے پہلے رائونڈ میں ہی اپنا قلعہ مضبوط کرنا چا ہتی ہے خاص طور پر یو پی کے اپنے قلعہ کو بی جے پی اور یو گی کمزور نہیں ہونے دینا چاہتے جس کیلئے یوگی آدتیہ ناتھ ہر وہ سیاسی حربہ استعمال کررہے ہیں جو بی جے پی کے اقتدار کی راہ ہموار کر سکتا ہے اسی لئے بی جے پی نے کھلے طور پر ہندتوکی پتوار سے اپنی کشتی پار لگا نے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگاکہ غیر بی جے پی پارٹیاں بی جے پی کے ہندتو کی دھار کو کیسے کند کرتی ہیں؟ اور بنیادی ایشوز پر بی جے پی اور اس کی سرکار کا قافیہ کیسے تنگ کرتی ہیں؟بی جے پی عوام کی ناراضگی کے علاوہ اپنی دوسری کمزوریوں اور خامیوں کے باوجودجارحانہ انداز میں میدان میں ہے ،اپنے سیاسی حریفوں پر مسلسل حملے کرر ہی ہے اور اپنے سیاسی حریفوں کو دفاعی پوزیشن میں کھڑا کردیا ہے۔ بی جے پی کو کسان تحریک سے زیادہ خطرہ ہے اور سیاسی حریفوں سے کم خطرہ دکھا ئی دے رہا ہے۔ سیاسی حریف خوش فہمی میں زیادہ مبتلاہیں ۔
[email protected]