بالی ووڈ اداکار شاہ رخ کے بیٹے آرین خان کا دفاع اور پیروی کرنے والے سرکردہ وکیل ستیش مانشندے نے کیس سے ہٹ کر ایک اہم نکتہ بلکہ بہت بڑا مسئلہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرین خان خوش نصیب ہیں جنہیں بہترین قانونی ٹیم ملی ، جس میں ملک کے نامور اورسرکردہ وکلاشامل تھے، انہوں نے مضبوطی کے ساتھ ان کا کیس لڑا اورانہیں جیل سے باہر نکالنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگایا ورنہ ملک میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جن کے پاس وکیل تک کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے اورپیروی ودفاع کے لیے کسی وکیل کی خدمات نہ حاصل ہونے کی وجہ سے انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ اچھا وکیل یا وکیل نہ ہونے کی وجہ سے بس انصاف کی امید میں جیلوں میں وقت کاٹتے رہتے ہیں۔صحیح بات ہے کہ جب وکلاکی مضبوط ٹیم ہونے کے باوجود آرین خان کو ضمانت پر باہر آنے میں 28دن لگ گئے تو عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہوگا؟جومعاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے نہ وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں اورنہ مچلکہ اداکرنے کی۔اس طرح وہ معمولی الزام کے تحت برسوں جیل میں رہتے ہیں۔اس کی وجہ سے نہ صرف جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے بلکہ عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بھی بڑھتا ہے۔مقدمات زیادہ ہونے کی وجہ سے سماعت کی تاریخ لمبی لمبی ملتی ہے۔اس طرح معاملہ ایک طرح سے معلق رہتا ہے۔ قانونی چارہ جوئی، خود کو بے گناہ ثابت کرنا اورانصاف کا عمل اتنا مشکل ہوجاتا ہے کہ لوگ جرم کے لیے عدالتی فیصلے کے بغیر مقررہ سزاسے زیادہ وقت جیلوں میں گزاردیتے ہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب ناکردہ گناہوں کی سزا 10-10سال کاٹ لیتے ہیں اورپھر باعزت بری ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں 2سال کے وقفہ سے نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی آربی)کی جیلوں میں بند قیدیوں سے متعلق رپورٹ آئی جس میں 31دسمبر 2016تک کے اعدادوشمار جمع کیے گئے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی 1,400جیلوں میں 2016 میں 4.33لاکھ قیدی ہیں، جن میں مجرم یا جن پر الزام ثابت ہوچکا ہے یا جنہیں سزا ہوچکی ہے،ایسے قیدیوں کی تعداد1,35,683ہے جبکہ زیرسماعت قیدیوں کی تعداد 2,93,058ہے یعنی 67 فیصددوتہائی قیدی زیرسماعت ہیں۔این سی آربی کی رپورٹ کا وہ پہلو غورطلب ہے کہ قیدیوں میں 1,649 خواتین ایسی ہیں جو اپنے 1,942 بچوں کے ساتھ جیلوں میں ہیں۔یعنی قیدی خواتین سے زیادہ ان کے بچے ہیں جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے لیکن ضوابط کے مطابق 6سال تک کے بچوں کو ماں کے ساتھ جیل میں رہنے کی اجازت ہے۔اس لیے ماں کے ساتھ بچے بھی کسی نہ کسی وجہ سے جیل میں رہنے پر مجبور ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر دیکھا جائے توملک میں قیدیوں کی صورت حال کسی بھی لحاظ سے اچھی نہیں ہے۔غنیمت ہے کہ 2015کی طرح 2016کی رپورٹ مذہب کی بنیادپر نہیں آئی جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا اور سیاست بھی خوب ہوئی تھی ، پھر بھی اس بار کی رپورٹ کافی اہم ہے جس پر سنجیدگی سے غوروفکر اوراس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔دوتہائی زیرسماعت قیدی بہت بڑی تعداد ہوتی ہے جس سے چشم پوشی نہیں اختیارکی جاسکتی۔
زیرسماعت قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ انکوائری، چارج شیٹ اورٹرائل میں تاخیر کے ساتھ سینئر ایڈووکیٹ مانشندے نے جو بات کہی ہے ، وہ بھی وجہ ہوسکتی ہے۔انصاف کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انصاف کاحصول آسان نہیں، کافی خرچیلااورصبر آزما ہوتا ہے۔جسے حاصل کرنا عام اورغریب آدمی کے لیے مشکل ہوتا ہے۔وہ نہ وکیل رکھ پاتے ہیں اورنہ مچلکہ اداکرپاتے ہیں۔ اس طرح مجبوراً خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کرانصاف کے انتظار میں جیل میں وقت کاٹتے رہتے ہیں۔ان کی یہ حالت اور پریشانی ملک کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اوریہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم دعویٰ خواہ کچھ کریں ،ایک بار عام آدمی جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلاگیا تو اس کے لیے باہر آنا آسان نہیں ہے۔ سسٹم کچھ ایسا ہے کہ بہت کم لوگوں کو قانونی مدد مل پاتی ہے اوراس طرح انصاف تک ان کی رسائی میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔جب تک جیل ہی ان کا مقدر رہتی ہے۔یہی پیغام این سی آربی کی رپورٹ بھی دے رہی ہے۔
[email protected]
انصاف کا حصول کتنا مشکل!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS