پیٹرول و ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمت اور اسکی وجہ۔

0

امام علی مقصود فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

پیٹرول و ڈیزل کے لگاتار بڑھتی قیمتوں نے عوام کا جینا دشوار کردیا ہے، لوگوں کی جتنی آمدنی ہے اسکا ربع حصہ تو پیٹرول و ڈیزل میں صرف ہو رہا ہے، دن بدن پیٹرول و ڈیزل کی قیمت آسمان کو چھوتی ہوئی نظر آرہی ہے، جسے دیکھ کر عوام خستہ حال ہو چکی ہے۔
لیکن ایسی حالت میں بھی کچھ اند بھکتوں کا یہ خیال ہے کہ ہم پیٹرول کا سو روپیہ دے کر بڑا اچھا کام کر رہے ہیں، کیونکہ ہمارا یہ پیسہ بھارت کو آگے بڑھانے میں صرف ہو رہا ہے، بھارت کے نرماڑ میں خرچ ہو رہا ہے۔

بہر کیف! آج کے دور میں ہماری سرکار پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کا تعین daynimic pricing system سے کرتی ہے۔
قارئین! گلوبل مارکیٹ میں جیسے جیسے crude oil کی قیمت اوپر نیچے ہوتی ہے ویسے ویسے ہمارے ملک میں بھی پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔
اسکے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کا تعین براہ راست ہماری سرکار نہیں کرتی بلکہ گلوبل مارکیٹ کرتی ہے، سرکار کا اسمیں کوئی دخل نہیں ہوتا ہے، یعنی پیٹرول و ڈیزل کی قیمت سرکار کے کہنے سے اوپر نیچے نہیں ہوتی بلکہ اسکا تعلق گلوبل مارکیٹ سے ہوتا ہے گلوبل مارکیٹ میں اگر پیٹرول کی مانگ زیادہ ہوتی ہے تو اسکی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور اگر اسمیں کمی ہوتی ہے تو اسکی قیمت بھی گھٹ جاتی ہے۔
کافی سال پہلے ہماری سرکار بذات خود پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کا تعین کرتی تھی، لیکن اس کی وجہ سے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، سرکا بھی پریشان ہوجاتی تھی، کیونکہ جیسے ہی پیٹرول کی تھوڑی قیمت بڑھتی تھی تو لوگ سرکار کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ پیٹرول کی قیمت میں کمی لائی جائے، جسکی وجہ سے سرکار بھی کافی دقت محسوس کرتی تھی، یہی وجہ رہی کہ 2010 میں من موہن سنگھ کی سرکار نے پیٹرول کی قیمت کو ڈیریگولیٹ کردیا اور 2014 میں مودی سرکار نے ڈیزل کی قیمت کو ڈیریگولیٹ کردیا۔
پھر نظام ایسا بنا دیا کہ مہینے کی 15 اور 16 تاریخ کو پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں گلوبل مارکیٹ کے ذریعے اتار چڑھاؤ ہوتا تھا، یعنی کہ تقریباً پندرہ دنوں کے لئے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت متعین ہوتی تھی۔

لیکن 16 جون 2017 میں سرکار نے ایک نئی اسکیم بنائی اور کہا کہ ہم ہر 15 اور 16 دن کے بجائے ہر دن پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں لچک پیدا کریں گے، اور ہر دن صبح 6 بجے پیڑول کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کریں گے جیسا کہ آج تک چلتا آرہا ہے۔ اسی وجہ ہم روزانہ سنتے ہیں کہ آج ایک روپیہ بڑھ گیا اور آج پچاس پیسہ بڑھ گیا۔
اور سرکار نے رویہ اس لئے اپنایا کہ چونکہ پندرہ دن کافی لمبا وقفہ ہوجاتا تھا، اور اسمیں ہوتا یہ تھا کہ لوگ مہینے کی پندرہ تاریخ کے آنے سے پہلے crude oil کا حساب لگانا شروع کردیتے تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ اس بار قیمت میں اضافہ ہونے والا ہے اسی لئے وہ پندرہ تاریخ سے پہلے ہی پیٹرول و ڈیزل کو خرید کر رکھ لیا کرتے تھے۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے دیس میں پیٹرول کا اکثر حصہ باہر سے آتا ہے، اور جب global crude oil کی قیمت میں اضافہ ہو تا ہے تو بھارت میں بھی پیٹرول و ڈیزل کی قیمت آسمان کو چھو جاتی ہے۔

لیکن یہاں پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کا اتار چڑھاؤ global crude oil پر منحصر ہے تو جب crude oil میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کمی ہوئی تھی تو ہمارے یہاں پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں کمی کیوں نہیں ہوئی؟
اس وقت بھی تو پیٹرول و ڈیزل کی قیمت آسماں کو چھو رہی تھی!
تو اسکا سادا سا جواب یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمت crude oil پر منحصر ہے، اور global crude oli ہی اسے کنٹرول کرتی ہے یہ سب ایک دھوکا ہے، کیونکہ اسکی اصلیت یہ ہے کہ سرکار ہی پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کو اپنے ٹیکسس کے ذریعے اسے کنٹرول کرتی ہے، یہی وجہ تھی کہ جب crude oli کی قیمت میں کمی واقع ہوئی تھی تب بھی ہمارے یہاں اسکی قیمت میں ایک آگ بھڑک رہی تھی، کیونکہ اس وقت سرکار نے ٹیکس کو بڑھادیا تھا۔
تو اسکو ایک طرفہ ریگولیشن کہا جاسکتا ہے جو سرکار کی جانب سے ہے۔ کیونکہ جب crude oli کی قیمت اوپر کو جاتی ہے تب ہمارے لئے بھی پیٹرول کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور ہم زیادہ پیسے میں پیٹرول خریدتے ہیں۔
اور جب crude oli کی قیمت میں کمی واقع ہوتی ہے تو سرکار اس پر ٹیکس زیادہ لگا دیتی ہے جسکی وجہ سے پیٹرول و ڈیزل قیمت بھی اوپر ہوتی ہے اور ہم اسمیں بھی زیادہ پیسے ادا کرتے ہیں۔

قارئین! اگر ہم دوسرے ممالک کا جائزہ لیں تب بھی ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے ہندوستان میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کتنی زیادہ ہو چکی ہے۔
پاکستان میں پیٹرول کی قیمت پچاس روپے پر لیٹر کے قریب ہے۔
سریلنکا میں ساٹھ روپیہ پر لیٹر۔
نیپال میں تقریباً ستر روپیہ پر لیٹر۔
افغانستان میں سینتیس روپیہ پر لیٹر۔
اور حالت ہندوستان کی اتنی خراب ہوچکی ہے کہ یوپی بہار کے جو بورڈر والے ہیں وہ نیپال جاکر پیٹرول خرید رہے ہیں۔
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف ہندوستان ہی میں پیٹرول کی قیمت زیادہ ہے، کیونکہ دوسرے اور بھی ایسے ممالک ہیں جہاں پیٹرول کی قیمت ہمارے یہاں سے زیادہ ہے۔
جیسے جاپان میں چورانوے روپیہ پر لیٹر،
ساؤتھ کوریا میں چھیانوے روپیہ پر لیٹر۔
جرمنی میں ایک سو انیس روپیہ پر لیٹر۔
فرانس میں ایک سو اٹھائیس روپیہ پر لیٹر۔
اور ہوم کونگ میں ایک سو چوہتر روپیہ پر لیٹر ہے۔
لیکن یاد رکھیں ان سارے ممالک میں صرف پیٹرول ہی مہنگے نہیں ہیں بلکہ یہاں پر لوگوں کی تنخواہیں بھی آسمان کو چھوتی ہیں۔
کیونکہ اگر اوسط درجے میں بھی یکھا جاے تو جرمنی ایک آدمی کی تنخواہ کم سے کم دو سے تین لاکھ روپیہ مہینہ ہے۔ اور ہندوستان میں ایک آدمی کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ بیس سے تیس ہزار روپیہ پر مہینہ۔
بہر کیف! معلوم ہوا کہ ہمارے ملک ہندوستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت آسمان کو چھوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اسکی وجہ صرف مودی سرکار ہے، نہ کہ کانگریس سرکار کیونکہ جب بھی ہمارے ملک وزیر اعظم کا بیان ہوتا ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آج پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کا سبب بھی کانگریس سرکار ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS