تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد

0

بی جے پی کی زیرا قتدار ریاستوں میں انسانی حقوق ،جمہوریت، سیکولرزم ، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے تحفظ کی صورتحال تشویش ناک حد تک خراب ہوگئی ہے۔ابھی آسام سے مسلمانوں کو جبراً نکالے جانے اور ا ن پر پولیس و شرپسندوں کی وحشیانہ کارروائی کی گرد تھمی بھی نہیں تھی کہ پڑوسی ریاست تریپورہ کے مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے اس ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلی ہوئی ہے اور تشدد کے سنگین واقعات پیش آرہے ہیں۔ مسلمانوں کی جان و مال اور ان کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔ شر پسندوں نے تقریباً 15 مساجد کو آگ کے حوالے کردیا جس میں رکھے ہوئے قرآن شریف کے نسخہ تک جلادیے گئے۔ان واقعات سے کشیدگی میں سنگین حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکم امتناعی نافذ کردیاگیا اور مرکزی سیکورٹی فورسز بھی تعینات کی گئی ہیں۔ دونوں فرقہ کے رہنماؤں سے بات کرنے کے بعد حالات کو قابو میں کر لیا گیا ہے۔نیز سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی افواہوں کو روکنے کیلئے بھی سخت کارروائی کی جارہی ہے اور لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے۔تاہم تری پور ہ پولیس نے مساجد جلانے اورا ن پرحملے کی خبروں کو افواہ قرا دیا ہے۔لیکن سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات ، تصاویر اور ویڈیوز پولیس کے اس دعویٰ کی تردید کررہے ہیں۔
شمال مشرقی ہندوستان کی یہ چھوٹی سی ریاست تین اطراف سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے گھری ہوئی ہے۔ تقریباً 37 لاکھ کی آبادی والی اس ریاست میں مسلمانوں کی تعدادفقط8.6فیصد ہے۔ بنگلہ دیش سے بھی کافی تعداد میں ہندو آکر یہاں آباد ہیں۔کہاجارہا ہے کہ تریپورہ کے یہ واقعات درگاپوجا کے دوران بنگلہ دیش کے کمیلا ضلع میں پوجا پنڈال میں قرآن شریف رکھے جانے کے بعدوہاں ہوئے تشدد کا ردعمل ہیں۔جس طرح 2002میں گجرات میں ’ردعمل‘ کی مثال پیش کرتے ہوئے شرپسندوں نے مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ شروع کردیاتھا، وہی صورتحال یہاں بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ بنگلہ دیش واقعہ کے بعد سے ہی تریپورہ کے مختلف علاقوں میں آباد مسلمانوں کو ہندو شدت پسند تنظیموں نے نشانہ بناناشروع کر دیا ہے۔ گزشتہ منگل کو وشو ہندو پریشد نے پانی ساگر سب ڈویزن میں ایک ریلی نکالی تھی جس میں3سے 4ہزار افراد شامل تھے، مسلم مخالف نعرے لگاتی ہوئی اس ریلی کے د وران وہاںکی ایک مسجد اور کم از کم پانچ مسلم بستیوں کو آگ لگا دی گئی۔اسی طرح دوسری شدت پسند ہندو تنظیمیں بجرنگ دل اور آر ایس ایس نے بھی ریلیاں نکالیں اور ان ریلیوں کے دوران مسلمانوں اور ان کی مساجد پر حملے کیے گئے۔ راجدھانی اگرتلہ سے155کلو میٹر دورپانی ساگر علاقہ کی مسلم خواتین سے چھیڑ چھاڑ اور زیادتی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن کی باقاعدہ تھانہ میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں جو تشدد ہوا، وہاں کی حکومت نے اس پر فوراً قابو پالیا۔ایک سو سے زیادہ گرفتاریاں ہوئیں اور مرکزی ملزم کو بھی بنگلہ دیش کی حکومت نے فوراًگرفتار کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی ہے۔ہماری وزارت خارجہ، بنگلہ دیش حکومت کے اس اقدام اور فوری کارروائی کی باقاعدہ ستائش بھی کرچکی ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ تریپورہ میں ایک ہفتہ سے تشدد کاسلسلہ جاری ہے، مسجدوں اور قرآن شریف کو جلایاجارہاہے،مسلمان خوف وہراس کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ایک لفظ بھی مذمت کا نہیں آیا ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے برخلاف شدت پسندتنظیموں کو ریلی نکالنے اور جلسے جلوس کی اجازت دے کر ماحول کو مزید کشیدہ کیا جا رہا ہے۔
کم وبیش25سال تک تریپورہ میں بائیں بازو کی حکمرانی تھی، اس رُبع صدی میں فرقہ وارانہ فساد کا ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا تھا۔ اب تریپورہ میں بپلب دیب سرکار کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں اگلے سال نومبر کے مہینہ میں اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں۔بپلپ دیب سرکار اپنے مسلم مخالف خیالات اور بیانات کی وجہ سے اکثر ہی سرخیوں میں رہتے ہیں۔ جاری فساد اور تشدد کے سلسلے میں اب تک انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی فسادیوں کے خلاف کسی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی اس خاموشی کو الگ الگ معنی پہنائے جارہے ہیں۔
لوگو ں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں بی جے پی حکومت نے عوام کی توقعات کے مطابق کوئی کام نہیں کیا ہے اور خدشہ ہے کہ اس بار بی جے پی کے ہاتھ سے حکومت جاسکتی ہے، ایسے میںبنگلہ دیش کا واقعہ پیش آگیا جسے بی جے پی اور دوسری ہندو شدت پسند تنظیمیں ووٹ پولرائزیشن کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔
وزیراعلیٰ بپلب دیب کی خاموشی اس لیے بھی سوال کھڑے کررہی ہے کہ حکومت اور پولیس انتظامیہ کو بنگلہ دیش میں ہندوؤں پرمبینہ حملے کے خلاف احتجاج میںہندو تنظیموں کی ریلی نکالے جانے کی خبرتھی، اس کے باوجود اسے روکنے کا کوئی سامان نہیں کیا گیا اور ریلی کو مسلم علاقوں سے گزارنے کی اجازت دی گئی۔فساد اور تشدد ڈھاکہ میں ہو یا دہلی اور اگر تلہ میں وہ قابل مذمت ہے اور فسادیوں کے خلاف فوری کارروائی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔حکومت اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے یکساں طور پر ذمہ دار ہوتی ہے۔ امید ہے کہ بپلب دیب کی حکومت فسادیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تریپورہ کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS