امبریش کمار
اتراکھنڈ میں حالیہ برسات نے 9 سال کا ریکارڈ ہی نہیں توڑا، بلکہ پہاڑ کے اس زون کو تباہ بھی کردیا ہے۔ 17؍اکتوبر سے جو برسات شروع ہوئی، وہ 19کی رات تک جاری رہی۔ پہلے تو یہی محسوس ہوا کہ بادل پھٹ گیا، لیکن تکنیکی طور پر اسے زیادہ بارش ہی بتایا گیا ہے۔ اس آفت کا سب سے زیادہ اثر نینی تال ضلع کے رام گڑھ، نتھوآکھان، تلّا رام گڑھ سے لے کر بھیم تال میں زیادہ ہوا ہے۔ رام گڑھ میں تو ہم نے سامنے پہاڑوں میں شگاف پڑتے، ٹوٹتے اور گرتے ہوئے دیکھا۔ تقریباً تین دہائی سے اپنا اس زون سے رشتہ رہا ہے، لیکن ایسی آفت اور ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ دراصل یہ تباہی وہاں وہاں زیادہ ہوئی، جہاں بغیر سوچے سمجھے، زمین کی بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت کو بغیر جانے بے ترتیب تعمیر کی گئیں اور پانی کے ذرائع کو بند کرکے تعمیر کی گئی۔ یہی حالت سڑک تعمیرات کی بھی رہی۔
پانی کی نکاسی یعنی ڈرینیج سسٹم کو بند کرکے تعمیر کرنے کی وجہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بھوالی بھیم تال میں تو پہلے سے ہی کافی گھنی تعمیرات ہوچکی تھیں اور یہاں کا موسم بھی اب گرمیوں میں اتنا ٹھنڈا نہیں رہتا ہے۔ اب وہاں کے زیادہ تر گھروں میں پنکھے لگ چکے ہیں اور ہوٹل ریسورٹ میں ایئرکنڈیشن کی سہولت ہے۔ اس وجہ سے مزید اونچائی والی پہاڑی جگہوں جیسے رام گڑھ، ست بنگا، بھٹیلیا اور مکتیشور کی طرف لوگوں نے مہنگی زمین خریدی اور جیسا چاہا، ویسی تعمیر کرادی۔ انہوں نے پہاڑی ڈھال پر پانی کے قدرتی ذرائع کو بند کردیا یا اس کے پاس ہی تعمیر بھی کرادی۔
اس کی سب سے دلچسپ مثال بھوالی اور شیام کھیت کے پاس سے نکلنے والی شپرا ندی ہے، جس کے اصل پوائنٹ کے سامنے ہی لوگوں نے تعمیر کرا دی ہے۔ اس ندی کی دھارا کو لوگوں نے موڑ کر نالے کی طرف گھمادیا اور جہاں سے ندی برسات میں بہتی تھی، وہاں اب کالونی آباد ہوچکی ہے۔ ایسے میں کبھی بادل پھٹنے یا ضرورت سے زیادہ برسات ہونے پر پانی کے راستے میں جو بھی گھر مکان آئیں گے، وہ کیسے بچیں گے؟ ٹھیک اسی طرح رام گڑھ سے تلّا رام گڑھ کے درمیان باغ باغیچوں کی ڈھلان والی زمین پر لوگوں نے بڑے پیمانہ پر تعمیرات کرائی ہیں۔ پہاڑ پر میدان کی طرح نہ تو بڑے لان کا رواج رہا ہے نہ ضرورت، لیکن لوگوں نے تین-چار منزلہ گھر بنانے کے ساتھ بڑے لان کے انتظام بھی کرلیے ہیں۔ اس وجہ سے باغ باغیچوں کی ڈھلان والی زمینوں پر ریٹیننگ وال دی۔ وزنی پتھروں کی یہ دیوار مٹی کو سہارا تو دیتی ہے، لیکن اگر زبردست برسات کے بعد زیادہ پانی مٹی میں بھرجائے تو ایسی دیوار اپنے وزن کو بھی نہیں سنبھال پاتی، کیوں کہ ڈھلان پر برساتی پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔ تین دن کی زبردست برسات کی وجہ سے اس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ پانی جھرنے کی شکل میں اوپر سے نیچے کی طرف بہنے لگا اور اس کے راستہ میں جو بھی تعمیرات آئیں، وہ متاثر ہوئیں۔ جہاں بھی جنگل کٹ چکے تھے یا زیادہ تعمیرات ہوئی ہیں، وہاں زیادہ نقصان ہوا ہے۔ پہاڑ پر زیادہ تر وہ گھر گرے یا بہے ہیں، جن کی تعمیر گزشتہ دو ڈھائی دہائی کی ہے۔
یہاں زیادہ تر تعمیر میدانی علاقوں کی طرز پر کرائی گئی ہیں اور پہاڑ کی تعمیر میں جو ضروری احتیاط برتی جانی چاہیے تھیں، ان کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ ہمالیہ وِیو، ریور وِیو یا لیک وِیو کے نام پر زمین تو آسانی سے فروخت کی جاتی ہے، لیکن ایسی جگہوں پر تعمیر سے متعلق جو احتیاط برتی جانی چاہئیں، اس کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ کچھ پہاڑ ابھی بھی گررہے ہیں، جو کچے پہاڑ سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے پہاڑ پر پانی کی نکاسی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی، جنگل کی کٹائی بھی کم سے کم ہو۔
ایک بات سڑک سے متعلق انتہائی توجہ طلب ہے۔ پہاڑ پر سڑک بناتے وقت خیال رکھا جاتا ہے کہ سڑک بنانے کے لے جتنا پہاڑ کاٹا جائے گا، اسی کٹے ہوئے پتھر کی سڑک بنائی جائے گی۔ لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے، یہاں پہاڑ کاٹ کر ندیوں میں گرائے جارہے ہیں۔ ایسے میں ندیوں میں طغیانی آئے گی۔ جے سی بی مشین سے اگر پہاڑ کاٹ کر بغیر سوچے سمجھے، بغیر پلاننگ کے سڑک بنائی جائے گی، تو پہاڑ کمزور ہوجائے گا اور زبردست برسات میں وہ سڑک بیٹھ جائے گی، جیسا کئی جگہ پر نظر آرہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)