شاہد زبیری
یو پی مدرسہ ایجو کیشن بورڈٖ یا اتر پردیش مدرسہ شکشا پریشد ، پرا نا نام عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد کی طرف سے الحاق شدہ اور گرانٹ پر لیے گئے مدارس دینیہ کے نصاب میں جہاں منشی، مولوی اور عالم کے امتحان میں ریاضی، تاریخ اور سائنس کو لا زمی کر دیا گیا ہے وہیں اساتذہ کی تقرری کے لیے اردو جاننے کی لازمیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ 13 اکتوبر کے ایک ہندی روزنامے کی خبر کے مطابق، بورڈ کے رجسٹرار، آر پی سنگھ نے اردو کی لازمیت کو ختم کرنے کی دلیل یہ دی ہے کہ متبادل مضامین پڑھا نے والے اساتذہ کے لیے اردو کی لازمیت کا کوئی جواز نہیں بنتا، کیونکہ اردو جاننے والے ایسے اساتذہ جو ان مضامین کو پڑھا سکیں، آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ہندی روز نامے کی خبر کے مطابق، پاس شدہ تجاویز حکو مت کو بھیج دی گئی ہیں۔ رجسٹرار صاحب نے کہا کہ اردو جاننے والے اساتذہ آسانی سے دستیاب نہیں یہ تو خیر ہو ئی یہ نہیں کہا کہ ان مضامین کو پڑھا نے والے اردو اساتذہ دستیاب ہی نہیں بلکہ ناپید ہیں۔
جہاں تک جدید مضامین کی لازمیت اور اس سے پیدا ہو نے والی طلبہ کی مشکلات کا سوال ہے، اس پر ٹیچرس ایسو سی ایشن مدارسعربیہ اتر پردیش نے واضح ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ہم اگر اردو جاننے کی لازمیت ختم کرنے کی بات کریں، اس پر اردو اساتذہ کی کسی انجمن کا کوئی ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اس کھلی اردو دشمنی پر ہمیں نہیں معلوم اردو اساتذہ کی انجمنوں اور اردو زبان و ادب کی انجمنوں کا کوئی ردعمل سامنے آئے گا بھی کہ نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات کا عذر پیش کر کے ان انجمنوں کے منھ میں مصلحتوں کی دہی جم جا ئے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ مدرسہ ایجو کیشن بورڈ اتر پردیش بورڈ کے لائق فائق چیئرمین اور ممبران اردو تو جانتے ہی ہوں گے کہ ان کے ہاتھوں یو پی میں اردو کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ڈور کہیں سے ہلی ہوگی۔ ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اتر پردیش نے بورڈ کے ایکٹ اور ضابطے کا حوالہ دے کر صحیح کہا کہ بورڈ کے ایکٹ اور ضابطے کے مطابق مدارس کی ملازمت میں اردو کی لازمیت ختم کرنے کے فیصلے سے مدارس کی تعلیم کا معیار متاثر ہو گا۔
مایاوتی نے 2007میں اپنے دور اقتدار میں نہ جا نے کس سیاسی مفاد یا سیاسی مصلحت کی خاطر انگریز حکمرانوں کے دور سے چلے آ رہے عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد بورڈ کا نام بدل کر مدرسہ شکشا پریشد اتر پردیش /مدرسہ ایجوکشن بورڈ اتر پردیش کر دیا تھا ۔ 2007 تک عربی فارسی کے فروغ میں عربک بورڈ الٰہ آباد کو جو معتبریت حاصل تھی، وہ اس کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی رہی اور جب مدارس کی جدید کاری کا سلسہ شروع ہوا تو ریاضی، سائنس، انگریزی اور ہندی کو نصاب میں اختیاری مضمون کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ ان مضامین کو پڑھا نے کے لیے ماہا نہ اعزازیہ پر انٹر اور گریجوئٹس اساتذہ کی تقرریاں شروع ہو ئیں تو مدرسہ شکشا پریشد /مدرسہ ایجو کیشن بورڈ سے مدارس کے الحاق کی ہوڑ لگ گئی۔ 2007 تک عربک بورڈ سے الحاق شدہ مدارس کی تعداد محض 1458 تھی۔ اکھلیش سرکار کے قیام کے بعد قاضی زین الساجدین کو بورڈ کی چیئرمینی سونپی گئی تو 1458 الحاق شدہ مدارس کی تعدادبڑھ کر7 ہزار کے قریب ہو گئی تھی۔ اس میں صرف 500 مدارس ایسے تھے جو گرانٹ لسٹ میں شامل تھے اور ریاستی سرکار اعزازی اساتذہ کے ماہا نہ اعزازیہ کے علاوہ مستقل اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرتی تھی۔ اعزازی اساتذہ کی تقرریوں میں اضلاع کے مائنارٹی ویلفیئر دفاتر اور بورڈ کی ملی بھگت سے کاغذی تنظیموں کے ذریعے ایک ایک تنظیم نے اپنی فرنچائزی پر 100-100 مدارس کا ٹھیکہ اپنے نام چڑھوالیا تھا۔ اساتذہ کی تقرری سے لے کر ماہا نہ اعزازیہ میں بھی کاغذی تنظیموں کے کرتا دھرتائوں نے اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دی تھیں۔ اکھلیش سرکار میں 149 مدارس نے گرانٹ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں گزاریں۔ اکھلیش سرکار نے مائنارٹی ویلفیئر ڈائریکٹوریٹ کو اس کی جانچ کی ہدا یات بھی جا ری کی تھیں۔ معلوم نہیں اس جانچ کا کیا حشر ہوا۔
یہاں بات مدرسہ بورڈ ایجو کیشن اتر پردیش کی اردو دشمنی کی ہو رہی ہے تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عربک بورڈ کا قیام ہی عربی، فارسی اور اردو کے فروغ کے لیے کیا گیا تھا ۔ عربک بورڈ کا قیام اس وقت کے گورنر سر ولیم میور نے 1866 میں کیا تھا۔اس کے پس پشت ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص سرسید احمد خاں جیسے مسلم رہنمائوں کی ناراضگی کو دور کرنا تھا۔ اس وقت بنارس کی ایک تنظیم ہندی پر چارنی سبھا نے اردو، فارسی کی جگہ ہندی کو سرکاری کام کاج میں استعمال کرنے کی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ سرسید احمدکا خیال تھا کہ اس کے پیچھے ہندو-مسلمانوں کو لڑا نے کے لیے انگریزوں کا ہی ہاتھ تھا۔ اس تحریک کا مقصد عربی، فارسی ہی نہیں اردو کو بھی سرکاری دفتروں سے باہر کرنا تھا۔ مسلم رہنمائوں بشمول سر سیّدؒکے اس اندیشے کو دور کر نے کے لیے انگریز حکو مت نے عربک بورڈ الٰہ آباد کو باقاعدہ ایک ضابطے کا پابند بنا دیا تھا۔ اس وقت محکمۂ تعلیم نام کا کوئی محکمہ با قاعدہ طور پر نہیں تھا۔ تعلیمی امور کی ہدایات عامہ کے تحت انجام دیے جا تے تھے۔ عربک بورڈ کو ایک ضا بطے کا پابند بنا کر اس بورڈ کے تحت تحتانیہ ( پرائمری )، فو قیانہ ( سیکنڈری) اور عالیہ (گریجویشن) کے درجات قائم کیے گئے۔ اسی کے تحت منشی، مولوی، عالم اور کامل کی اسناد کامیاب طلبہ کو دی جا نے لگی تھیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جا ری ہے اور ان اسناد کو پرائمری ، سیکنڈری اور گریجویشن کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اردو اساتذہ کی تقرری میں بھی ان اسناد کو منظوری دی گئی تھی۔
جن مدارس میں ان درجات کی باقاعدہ کلاسز چلتی ہیں، اطلاعات کے مطابق ان میں مدرسہ مفتاح العلو م ( مئو)، دارالعلوم ( مئو)اور مرادآ باد کے دو مدارس ، جامعہ الہدایہ اور مدرسہ امداد الغربا کے علاوہ کچھ مدارس اعظم گڑھ میں ہیں جہاں باقاعدہ کلاسز میں مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کے نصاب کی کلاسز چلتی ہیں۔ اکثرالحاق شدہ مدارس میں ریگو لر کلاسز محض کاغذوںمیں چلتی ہیں۔ پرائیویٹ فارم بھر کر ہی طلبہ امتحان دیتے ہیں۔ اب لڑکیوں پر بھی اس مدرسہ تعلیم کے دروازے کھول دیے گئے تھے جس کے پس پشت اردو ٹیچر کی سرکاری ملازمت کی امید تھی جو 2017 میں بی جے پی کی سرکار کے بعدختم ہو کر رہ گئی، تاہم جو مدارس گرانٹ پر ہیں، ان کے اساتذہ کو تنخواہیں پے اسکیل کے مطابق مل رہی ہیں۔ اعزازی اساتذہ کا اعزازیہ کئی کئی ماہ بعد یا سال بعد ملتا ہے۔ اس میں بھی چور دروازے سے وہ مدرسہ مافیا ہاتھ صاف کر جا تے ہیں جو ایک سے زائد مدارس کسی ایک تنظیم کے نام پر چلا رہے ہیں جن کے ہاتھوں اعزازی اسا تذہ کا معاشی استحصال کیا جا تا رہا ہے لیکن یہ جو کچھ مل رہا ہے، وہ اردو کی لازمیت کا فیض ہے، ورنہ معاشی اعتبار سے اب اردو کی جو حالت ہے، وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اتر پردیش کے سائنس، ریاضی اور تاریخ کے اساتذہ کی تقرری سے اگر اردو کی لازمیت ختم کر دیے جانے کی مدرسہ بورڈ کی تجاویز کو حکو مت کو ماننے میں کیا عار ہو سکتا ہے، اس لیے اگر یہ کہا جا ئے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا یہ فیصلہ اردو دشمنی پر مبنی ہے تو کیا بیجا ہے۔ اب جبکہ معاشی طور پر اردو کے لیے سب دروازے تقریباً بند ہیں تو یہ ایک دروازہ اور بند ہو جائے گا اور یہ خدشات اسی وقت سے محسوس کیے جا نے لگے تھے جب بورڈ کا نام ہی نہیں شکل ہی بدل دی گئی تھی اور بورڈ پر وہ عناصر قابض ہوگئے یا قابض کرا دیے گئے تھے جو بقول ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے چیئرمین اور بورڈ کے ممبران مدرسہ بورڈ کے ایکٹ کے مطابق شرائط پر ہی کھرے نہیں اتر تے تو کس سے کیا گلہ کرے کوئی کہ یہ تو باڑھ ہی کھا گئی ۔
کتنے دور اندیش تھے اکابر اور بانیان دارالعلوم دیو بند اور کتنے کھرے تھے ان کے اصول ہشتگانہ، دارالعلوم دیو بند کی طرح ہی بانیان مظاہر علوم نے سرکاری امداد کو پہلے دن سے پرے رکھا اور ملت کے چندے سے کروڑوں کے سالانہ بجٹ کو پورا کیا بھی اور مدارس کو چلایا بھی اور چلابھی رہے ہیں۔ رہی بات مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کی تو کون جا نے آگے اس کی کیا درگت بنتی ہے۔
[email protected]