پاکستان میں فوجی چودھراہٹ

زیادہ تر سیاسی ماہرین متفق ہیں کہ سب ڈرامہ کے باوجود پاکستان میں فوج کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑے گا

0

وبھوتی نارائن رائے

اس مرتبہ پاکستان میں کون سا فارمولہ چلے گا، جہانگیر کرامت والا یا پرویز مشرف والا؟ جب پاکستان کے معروف صحافی، کالم نگار اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر نظم سیٹھی اپنے ایک پروگرام میں یہ سوال پوچھتے ہیں، تب ان کے سامنے پرانے تجربات پر مبنی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ پاکستان ملک بننے کے ساتھ ہی ملک کی سیاست میں فوج کی فیصلہ کن مداخلت کی روایت پڑگئی تھی اور اب تو یہ ادارہ جاتی ہوگئی ہے۔ جب مارشل لاء نہیں ہوتا ہے، تب بھی خارجہ اور دفاعی امور میں آخری فیصلہ تو فوج کا ہی ہوتا ہے۔
کئی مرتبہ عوام کے ذریعہ منتخب حکومتوں کے نمائندوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ دوسری جمہوریتوں کی طرح ان کے ملک میں بھی ’سول بالادستی‘ یا شہری برتری کا اصول کام کرتا ہے، جس میں فوج منتخب حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے۔ سارے فیصلے حکومت لیتی ہے اور فوج نوکرشاہی کے دوسرے اعضاکی طرح اسے نافذ کرتی ہے۔ اس غلط فہمی سے وہ مخمصہ پیدا ہوتا ہے، جس کا ذکر اوپر نظم سیٹھی کے انٹرویو میں آیا ہے۔ ایک زمانہ میں خود فوج کے ذریعہ بنائے گئے نوازشریف نے اپنے دوسری مدت کار کے دوران سول بالادستی کی بات شروع کردی تھی۔ فوجی سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے جب ایک ایسا بیان دے دیا جو وزیراعظم کو ناگوار گزرا تو انہیں طلب کرکے ان کا استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ باوجود اس کے کہ ان کے کئی جنرل حکومت کا تختہ پلٹنے کے حق میں تھے، جہانگیر کرامت استعفیٰ دے کر چپ چاپ گھر چلے گئے۔ لیکن یہی داؤ تب اُلٹا پڑگیا، جب1999میں نوازشریف نے اپنے ایک اور جنرل پرویز مشرف کو برخاست کیا تو فوج کے سینئر نے ان کا تختہ پلٹ کر مارشل لاء لگادیا۔
نظم سیٹھی یا دوسرے سیاسی تجزیہ کار گزشتہ دس دنوں سے سانس روکے قوم کو اس بحران سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو کور کمانڈروں کی ایک میٹنگ میں سینئر فوجی افسران کی نئی تقرریوں سے متعلق لیے گئے فیصلوں سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کی زمینی حقیقت جاننے والے جانتے ہیں کہ کورکمانڈروں کی کمیٹی معاملات میں مرکزی کابینہ سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ اس کمیٹی نے آدھے درجن سے زیادہ کورکمانڈروں کو اِدھر سے اُدھر کیا، تب تک تو ٹھیک تھا، لیکن انہوں نے عمران کے پسندیدہ آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو بھی بدل ڈالا اور وہ بھی بغیر وزیراعظم سے پوچھے۔ نومنتخب آئی ایس آئی چیف کو اپنا چارج سنبھالنے سے قبل وزیراعظم کی رضامندی درکار ہے اور یہیں پر پیچ پھنسا ہوا ہے۔
پاکستان میں جہاں چار مرتبہ اعلان شدہ اور کئی مرتبہ بغیر اعلان کے مارشل لاء لگ چکے ہیں، وہاں ایک غیرتحریری روایت ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم اپنی مرضی اور پسند سے لگاتے رہے ہیں۔ روایت کے مطابق، فوج ہیڈکوارٹر تین سے چار لیفٹیننٹ جنرلوں کے نام وزیراعظم کے پاس بھیجتا ہے اور ان میں سے کسی ایک نام پر اتفاق کے ساتھ فائل واپس آجاتی ہے۔ اس مرتبہ یہ روایت توڑ دی گئی اور کور کمانڈروں نے ہی موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ہٹا کر لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگادیا۔ پردے کے پیچھے کیا ہوا، پورا تو کسی کو نہیں معلوم، لیکن اتنا چھن چھن کر باہر آگیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض عمران خان کے بہت قریب ہوگئے تھے اور وہی فوجی قیادت کو کھٹک رہا تھا۔ جنرل فیض وہی افسر ہیں جن کی تصویر سابقہ حکومت میں ایک انتہاپسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کا دھرنا ختم کراتے وقت کرنسی تقسیم کرتے ہوئے میڈیا میں شائع ہوئی تھی۔
عوامی سطح پر تو فوجی قیادت کہہ رہی ہے کہ فیض حمید نے ابھی تک کوئی کورکمانڈ نہیں کی ہے اور اگلے سال جب وہ اگلے آرمی چیف کی دوڑ میں ہوں گے، تب یہ حقائق ان کے خلاف جاسکتے ہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فوجی سربراہ جنرل باجوا اور ان کے قریبی جنرل صاحبان فیض حمید اور عمران خان کی نزدیکی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو فوج اور عدالت کا بے شرم گٹھ بندھن ہی اقتدار میں لایا تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کے وزرا کو ہر دوسرے دن پریس کے سامنے دعویٰ کرنا پڑتا تھا کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں، لیکن ہمیں اس انسانی خواہش کو بھی یاد رکھنا ہوگا، جس میں کمزور سے کمزور شخص کا خواب ہوتا ہے کہ اسے خودمختار سمجھا جائے۔ مخالفین کھلے عام فقرہ کستے تھے کہ وہ ’سلیکٹڈ‘ پرائم منسٹر ہیں۔ عمران خان کی یہ خواہش غیرمناسب نہیں کہی جائے گی کہ ان کی کٹھ پتلی وزیراعظم کی شبیہ تبدیل ہو۔ کچھ ماہ قبل جنرل باجوا نے روزرہ افطار کے بہانے ملک کے چنندہ صحافیوں کے سامنے ایک لمبی فہرست رکھی، جب عمران خان نے ان کی باتیں نہیں مانی تھیں۔
پاکستان کا موجودہ بحران نیا ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرانے میں مصروف سرکاری ترجمانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اب طے شدہ فارمولہ کے مطابق، فوج ہیڈکوارٹر تین ناموں کا ایک پینل بھیجے گا اور وزیراعظم ان سبھی کا انٹرویو لے کر نیا ڈی جی آئی ایس آئی طے کریں گے۔ غیرمصدقہ خبروں کے مطابق فوج نے اس عمل سے انکار کردیا ہے۔ خاص طور سے وہ کسی شہری کے ذریعہ اپنے جنرلوں کا انٹرویو لینے کے محض امکان کو ہی توہین آمیز سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد عمران خان کے پاس متبادل کیا ہیں-پہلا یہ کہ وہ جنرل باجوا کو برخاست کردیں اور اپنی پسند کا دوسرا جنرل ان کی جگہ لگادیں۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ برخاستگی پر اونٹ جہانگیر کرامت یا پرویز مشرف، کس کروٹ بیٹھے گا۔ دوسرا متبادل ہے کہ کوئی قابل احترام بہانہ تلاش کرکے وہ فوج کے دیے نام پر مہر لگادیں۔ زیادہ تر سیاسی ماہرین متفق ہیں کہ سارے ڈرامہ کے باوجود عمران ہی آخرمیں جھکیں گے۔
بدقسمتی سے نوازشریف سمیت سارا اپوزیشن عمران کا مذاق اڑاتے ہوئے فوج کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ فوج نے اسی نااتفاقی کا فائدہ اٹھاکر سول حکومتوں کو ہمیشہ کمزور رکھا ہے۔ بین الاقوامی حالات اور سابقہ تاناشاہ پرویز مشرف کی حالت زار کی یاد شاید جنرل باجوا کو کسی جرأت سے روک دے، لیکن جھکنے کے بعد عمران مزید کمزور ہوں گے اور تب فوج بغیر تختہ پلٹے ہی وہ سب حاصل کرلے گی، جس کی خواہش پاکستانی معاشرہ میں وہ کرتی رہتی ہے۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS