آلوک جوشی
مہنگائی ایک ایسی چیز ہے جو کبھی خبروں سے باہر نہیں ہوتی۔ کبھی اس میں اضافہ کی خبر ہے تو کبھی کم ہونے کی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہنگائی نے اس ملک میں کئی مرتبہ حکومتیں بھی گرا دی ہیں۔ حالاں کہ آج کل کے حالات دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ ایسا بھی ہوتا ہوگا۔
مہنگائی کے محاذ پر گزشتہ کچھ دنوں میں آئی خبروں پر نظر ڈالیں تو کیا نظر آتا ہے؟ ستمبر میں خردہ مہنگائی کی شرح پانچ ماہ میں سب سے نیچے آگئی ہے جو تہواری سیزن میں اچھی خبر سمجھی جارہی ہے۔ دوسری طرف کھانے کے تیلوں کی مہنگائی سے پریشان مرکزی حکومت نے ان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے اور سیس کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سبزیوں کی اٹھاپٹخ تو موسمی خبر ہوتی ہے، لیکن اس وقت ٹماٹر کی مہنگائی چوطرفہ مار کررہی ہے۔اس کے باوجود ستمبر کی تھوک مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار مسلسل چوتھے ماہ کم ہوئے ہیں اور اب وہ 10.66فیصد ہوگئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی میں نہیں، بلکہ قیمتوں میں زبردست کمی۔ واضح رہے کہ مہنگائی میں کمی کا مطلب قیمتوں کا کم ہونا نہیں ہے، بس قیمتوں میں اضافہ کی رفتار میں کمی آتی ہے۔ جب کہ ستمبر کے اعدادو شمار میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں 4.69فیصد کی کمی آئی ہے۔ یعنی یہاں قیمتوں میں اضافہ ہونے کے بجائے قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ دوسری طرف، مینوفیکچرڈ پروڈکٹس یا فیکٹری میں بننے والی چیزوں کی مہنگائی کی شرح میں معمولی اضافہ ہوا ہے اور کچے تیل کی قیمتوں کی وجہ سے ایندھن کی مہنگائی کی شرح کچھ کم ہونے کے بعد بھی تقریباً25فیصد پر تھی۔ یہ ستمبر کے اعداد و شمار ہیں۔ اکتوبر کی شروعات سے اب تک ڈیژل-پٹرول کا حال بتارہا ہے کہ آگے بھی یہاں کوئی راحت کے آثارنہیں ہیں۔
تو اب حساب جوڑئیے کہ مہنگائی کم ہورہی ہے یا اس میں اضافہ ہورہا ہے؟ حکومت اور سرکاری پیروکاروں کی مانیں گے تو یہ کم ہوتی نظر آئے گی اور اس کی حمایت میں دلیلیں بھی مل جائیں گی اور ثبوت بھی۔ لیکن تھوڑی گہرائی میں جائیں تو بات کچھ اور ہی ہے۔ ابھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف نے دنیا کی معاشی ترقی کے جو تخمینے جاری کیے ہیں، انہیں دکھاکر بہت سے لوگ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ ہندوستان کی ترقی دنیا میں سب سے تیز ہونے والی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ مالیاتی فنڈ نے ان اعداد وشمار کے ساتھ ہلکے سے ایک انتباہ بھی دیا ہے اور وہ انتباہ مہنگائی کا ہی خطرہ دکھا رہا ہے۔
بیشک ہندوستان کا ریزرو بینک اپنی مانیٹری پالیسی میں کہہ چکا ہے کہ اگلے تین ماہ میں مہنگائی قابو میں رہنے کے ہی آثار نظر آرہے ہیں۔ لیکن مالیاتی فنڈ کا انتباہ تین ماہ سے آگے کا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگلے سال کے وسط تک پوری دنیا میں مہنگائی کی شرح کورونا سے پہلے کی سطحوں پر پہنچ جائے گی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جلد ہی احتیاطی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہی نہیں، آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہنگے پٹرول اور ڈیژل کا باقی ہر چیز کی مہنگائی پر تھوڑا اثر پڑتا ہے، لیکن وہی کافی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، کچے تیل کی قیمتوں میں آرہی تیزی اور اس سے ہندوستان میں مہنگائی بڑھنے کے خدشہ کو نظرانداز کرنا ڈھٹائی ہی کہا جاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے اپریل میں کہا تھا کہ رواں سال میں ہندوستان کی مہنگائی کی شرح 4.9فیصد رہ سکتی ہے، لیکن اب اس نے اسے بڑھا کر 5.6فیصد کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ایک تشویشناک بات یہ بھی نظر آتی ہے کہ کورونا بحران کے دوران جہاں امیر ممالک میں مہنگائی کی شرح کافی تیزی سے اور ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک یا ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کچھ کم رفتار سے کم ہوئی تھی، وہیں غریب ممالک میں یہ بڑھتی ہی رہی، اور اس وقت جب پوری دنیا کی معیشت میں بہتری کی بات ہورہی ہے تب بھی وہاں کی مہنگائی سب سے تیز بڑھ رہی ہے۔ ابھرتے بازار اب اس کے ساتھ مقابلہ میں آگئے ہیں اور امیر ممالک میں بھی مہنگائی کا ایک نیا دور شروع ہوتا نظر آرہا ہے۔
امریکہ کے اخباروں پر نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ اس وقت وہاں مہنگائی بہت بڑی تشویش بن چکی ہے۔ پانچ ساڑھے پانچ فیصد مہنگائی کے اعداد و شمار ہندوستان سے دیکھنے پر کم نظر آتے ہیں، لیکن امریکہ میں یہ 10سال کی سب سے اعلیٰ سطح پر ہے۔ اب سینٹرل بینک فیڈرل ریزرو کے اندر بھی اس سے نمٹنے کے مسئلہ پر سنجیدہ مشاورت ہورہی ہے۔ سب سے بڑا دباؤ تو یہی ہے کہ ڈیڑھ سال سے مسلسل نوٹ چھاپ رہا امریکہ اب کیسے ان نوٹوں کو سسٹم سے باہر کھینچنے کا کام کرے گا، تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
فیڈرل ریزرو پر پوری دنیا کی نظر ہے، کیوں کہ سب کو خدشہ ہے کہ جیسے ہی نقدی کی سپلائی کم ہوگی، ویسے ہی شیئربازاروں میں دیوالی کا ماحول بھی ختم ہوجائے گا۔ اور ایسا کوئی نہیں چاہتا۔ یہ مہنگائی کچھ وقت کی بات ہے، ایسا ماننے والا تو اب شاید ہی کوئی بچا ہو۔ لیکن دانشوروں کا ایک طبقہ کھڑا ہوچکا ہے، جس کا کہنا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں معیشت کی جو حالت ہے، اس میں سبھی کو تھوڑی اور مہنگائی جھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کورونا بحران اور اس کے ساتھ لگے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری دنیا میں سپلائی چین بکھر چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر صنعتوں میں کچا مال یا پرزے نہیں پہنچ پائے۔ قیمتیں بڑھنے کی وجہ یہی ہے کہ کمپنیوں کا خرچ بڑھ گیا ہے۔ اور یہ بھی تب، جب کہ وہ کفایت کے سارے راستے آزما چکی ہیں۔ ایسے میں، قیمتیں کنٹرول کرنے کا دباؤ شاید بہت سے کاروباروں کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن یہ ایک جواز ہے۔ دوسری طرف ان غریب ممالک میں کروڑوں کی آبادی کو دیکھئے جو امریکہ یا یوروپ کے مقابلہ تین گنا رفتار سے چڑھتی مہنگائی کی مار جھیل رہی ہے۔ مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک جیسے اداروں کو ان سب کی بھی فکر کرنی ہے۔ شاید اسی لیے وہ ترقی کی بات کرنے کے ساتھ ہی مہنگائی کے خطرے کی طرف بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھ رہی ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)