دنیا کا ہر معاشرہ، ہر ملک اور ہر ادارہ و تنظیم اختلاف رائے کو تسلیم کرنے کے قائل ہیں۔اختلاف ا ور تنقیدکے آئینہ میں اپنی اصلاح و تطہیر کاکام کرتے ہیں۔مہذب معاشروں اور اداروں میں اختلاف رائے کو زندگی کی علامت سمجھاجاتا ہے اور بعض اوقات اس کیلئے حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے لیکن ہندوستان میں یہ اختلاف رائے اور تنقید ملک دشمنی ٹھہر گئی ہے، خاص کر حکمراں جماعت اوراس سے وابستہ رہنمائوں کے کام کاج پر تنقید کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جارہاہے۔حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولنا گویا ملک کے خلاف بولناہوگیا ہے۔ مرکزی حکومت ہو یامختلف ریاستوں میں قائم بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومتیں یہ اپنی پالیسیوں اور رویوں کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتی ہیں۔ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اول تو کوئی اختلاف کی جرأت ہی نہ کرے اور اگر کسی نے یہ ہمت کربھی لی تو ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اسے نشان عبرت بنادیا جائے۔پارٹی کے اندرونی افراد ہوں یا باہرکے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے لیڈران اختلاف رائے کے معاملے میں حکومت سبھی کو ایک لکڑی سے ہانکتی ہے۔جن کے خلاف سی بی آئی اورا ی ڈی کا استعمال بوجوہ ممکن نہیں ہوپاتاہے، انہیں حاشیہ پرپھینک کر ان کی سیاسی موت کا سامان کردیاجاتا ہے۔ یہی کچھ مینکا گاندھی اور ان کے صاحب زادے ورون گاندھی کے ساتھ بھارتیہ جنتاپارٹی نے شروع کردیا ہے۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کے قومی صدر جے پرکاش نڈا نے جمعرات کو اپنی نئی ٹیم کا اعلان کیا۔ لیکن اس نئی ٹیم سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی اور ان کی والدہ سابق مرکزی وزیر مینکا گاندھی کو بیک بینی و دو گوش نکال باہر کردیاگیا ہے۔ جے پی نڈا کی نئی قومی مجلس عاملہ میں پارٹی کے ان دو بڑے لیڈروں کوشامل نہیں کیے جانے کی وجہ اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے کام کاج پر تنقیدا ور پارٹی لیڈروں سے اختلا ف رائے بتایا جارہا ہے۔مینکا گاندھی، مرکزکی مودی حکومت کے پہلے دور میں وزیر تھیں اور اس وقت وہ اترپردیش کے سلطان پور سے لوک سبھا کی رکن ہیں۔ان کے بیٹے ورون گاندھی اتر پردیش کے پیلی بھیت سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔
مینکاگاندھی اور ورون گاندھی دونوں ہی کسانوں سے بات چیت کے حامی رہے ہیں اور حالیہ دنوں لکھیم پور کھیری میں ہوئی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے بی جے پی کے ان لیڈروں نے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ورون گاندھی تو کسانوں کی تحریک کے حوالے سے مسلسل ٹوئٹ کر رہے تھے اور حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی انہوں نے اس سلسلے میں خط لکھا تھا۔ اپنے اس خط میں ورون گاندھی نے لکھیم پور میں کسانوں کے قتل کا الزام لگاتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹوئٹر پر ایک ویڈیوبھی شیئر کرتے ہوئے ورون گاندھی نے لکھا کہ مظاہرین کو قتل کے ذریعے خاموش نہیں کیا جاسکتا اور جوابدہی کو طے کیا جانا چاہیے۔
اترپردیش میں اگلے چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، کسان پہلے سے ہی بی جے پی کے خلاف بھر ے بیٹھے ہیں، اس پر لکھیم پور کھیری میں پارٹی لیڈر اور مرکزی وزیر مملکت اجے مشرا کے صاحب زادے آشیش مشرا کی گاڑی سے کچل کر کسانوں کی ہلاکت بی جے پی کیلئے سوہان روح بن گئی، ان سب کے درمیان ورون گاندھی نے بھی یوگی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے جو پارٹی کو کسی حال میں برداشت نہیں ہے۔پارٹی صدر جے پی نڈا ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت اوریوپی حکومت میں شامل بی جے پی کے کم و بیش اکثر لیڈران ماں بیٹے کی مسلسل تنقیدکی وجہ سے ناراض تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس بار دونوں کو ہی قومی مجلس عاملہ سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر بی جے پی کی ٹرول فورس اپنے ان لیڈروں کو اپنی پارٹی ہی نہیں بلکہ ملک کا دشمن بھی بتارہی ہے اور ان دونوں کی گاندھی خاندان سے وابستگی کو لعنت و ملامت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔
چند ہفتہ قبل تک یہی بھارتیہ جنتاپارٹی پنجاب کانگریس میں پیدا بحران کے حوالے سے کانگریس میں اندرونی جمہوریت کو نشانہ بنائے ہوئی تھی اور چرن جیت سنگھ چنی کو وزیراعلیٰ بنائے جانے پر طرح طرح کے سوال کررہی تھی لیکن خود اس کی مجلس عاملہ میں نہ صرف اندرونی جمہوریت کا گلا گھونٹتے ہوئے پارٹی کے دو پرانے لیڈروں کو نکال باہر کیا گیا بلکہ اتر پردیش اسمبلی انتخاب کے پیش نظر اس قومی مجلس عاملہ میں ذات پات کے توازن کا باقاعدہ خیال رکھاگیا ہے۔ بہرحال یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وزیراعلیٰ بدل بدل کر گجرات، اتراکھنڈ اور کرناٹک میں حکومت بچا لینے والی بھارتیہ جنتاپارٹی اترپردیش اسمبلی انتخاب میں کیا کارنامہ انجام دیتی ہے کیوں کہ کسانوں کی تحریک اورخود پارٹی کے اندر کسانوں کی حمایت میں آواز اٹھنا اسے مشکل میں ڈالے ہوئے ہے اورپارٹی اصلاح احوال کی بجائے ناقدین کو ہی باہر کا راستہ دکھارہی ہے۔
[email protected]
بی جے پی۔۔۔اختلاف رائے برداشت نہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS