محمد حنیف خان
بچے کسی بھی ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں،یہی ان کا مستقبل اور ان کے وجود کے ضامن ہوتے ہیں۔ملک و قوم کی ترقی اور تنزلی بھی ان ہی بچوں سے وابستہ ہے جبکہ ان بچوں کا مستقبل اسکول اور اساتذہ سے مربوط ہوتا ہے۔اگر اسکول اور اساتذہ نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بچوں کا مستقبل تاریکی کا شکا ر ہوگا۔دور رس قیادتیں وقتی کے بجائے طویل مدتی منصوبوں پر نظر رکھتی ہیں اور اسی کے مطابق منصوبے وضع کرتی ہیں،جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وقتی طور پر تو ملک و عوام کو دشواریوں کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن مستقبل میں ملک و قوم کو کسی بڑے بحران کا شکارنہیں ہونا پڑتا ہے۔اس کے برعکس بصیرت سے عاری قیادتیں وقتی فائدے پر توجہ مبذول رکھتی ہیں جس سے اس وقت تو آسانی ہوتی ہے لیکن بعد میں دشواریوں کا ایک لا متنا ہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔در اصل ملک اور قوم و ملت کا مقدر فرد واحد کے عمل سے وابستہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی ذمہ داری قیادتوں اور خصوصاً سیاسی قیادتوں کے کندھوں پر ہوتی ہے۔کیونکہ فرد واحد محدود دائرے میں ہی کام کر سکتا ہے خواہ وہ کتنا بھی بااثر ہی کیوں نہ ہو، سر سید احمد خاں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔انہوں نے تعلیم کا ایک بڑا خواب دیکھا جسے شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بڑے بڑے اقدام کیے، جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔اس کے باوجود ہندوستان کے سبھی عوام خصوصاً سبھی مسلمان تو اس سے فیضیاب نہیں ہوسکے، لیکن یہی عمل جب حکومتیں اور سیاسی قیادتیں کرتی ہیں تو اس کا وسیع پیمانے پر فائدہ ہوتا ہے۔
تعلیم بلا امتیاز مذہب و ملت ہندوستان کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے،آزادی کے بعد سے اب تک اس محاذ پر مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں،اس کے باوجود ابھی تک مکمل کامیابی نہیں مل سکی ہے۔شرح خواندگی آج بھی کم ہے،جس کے لیے صرف وہ لوگ ذمہ دار نہیں ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی یا جنہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ نہیں کیا بلکہ اس کے لیے وہ سیاسی قیادتیں بھی ذمہ دارہیں جن کے ہاتھوں میں زمام اقتدار آئی لیکن انہوں نے تعلیم کے محاذ کی اہمیت نہیں سمجھی اور اس شعبے میں اس طرح کام نہیں کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا۔اگر سیاسی قیادتوں نے ایسا کیا ہوتا تو آج ملک میں اساتذہ کی اتنی قلت نہ ہوتی۔میرے پیش نظر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی 166صفحات پر مشتمل رپورٹ ’نو ٹیچر نو کلاس‘ ہے۔در اصل عالمی منصوبہ 2030کے اہداف کے حصول کے لیے یونیسکوکو تعلیمی محاذ پر کامیابی کی مہم سونپی گئی ہے۔اقوام متحدہ نے 17ایسے اہداف مقرر کیے ہیں جنہیں2030 تک حاصل کرنا ہے، جن کے توسط سے دنیا سے غربت کا خاتمہ کرنا ہے۔تعلیم کو ان اہداف کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ قرار دیا گیا ہے جسے بغیر مساوی اور معیاری تعلیم کے نہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔لیکن اتفاق سے ہمارے ملک میں مساوی اور معیاری تعلیم کسی خواب سے کم نہیں ہے۔حکومت دعوے تو خوب کرتی ہے لیکن اس کے دعوؤں کی قلعی وقتاً فوقتاً کھلتی رہتی ہے،جس سے سیاسی قیادت کی دور اندیشی اور حصول اہداف کے لیے عزم و ارادوں سے بھی پردہ اٹھ جاتا ہے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ سیاسی قیادت میں کتنی بصیرت اور دور اندیشی ہے۔
یونیسکو کی اس رپورٹ کے مطابق 9.7ملین اساتذہ پرائمری اور ثانوی سطح کے مختلف اسکولوں میں تعلیم دے رہے ہیں،جبکہ 1.5ملین اسکول ہیں جن میںدرجہ اول سے بارہ تک کے 248ملین بچے زیر تعلیم ہیں۔ 69فیصد اسکول ریاستی حکومتوں کے ماتحت ہیں جن میں 51فیصد سرکاری اساتذہ درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔22فیصد اسکول نجی ہاتھوں میں ہیں جو بچوں سے موٹی فیس وصول کر کے اس رقم سے اسکول کا انتظام و انصرام چلا رہے ہیں،جس میں اساتذہ کی تنخواہ، انفرااسٹرکچر اور انتظامیہ کا منافع بھی شامل ہو تا ہے۔ان میں 37فیصد اساتذہ درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ 84فیصد اسکول دیہی علاقوں میں ہیں،ان میں 54فیصد اسکولوں میں درجہ ایک سے پانچ تک تعلیم دی جا تی ہے۔
یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن 2009(آر ٹی ای 2009) کے تحت مفت تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے جس کی ذمہ داری ریاست پر ہے۔اسی طرح آئین کی دفعہ 21کے تحت تعلیم کو زندگی کا بنیادی حق مانا گیا ہے،پانچ برس کی عمر سے لے کر 15برس کی عمر تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔اس کے باوجود ملک میں ناخواندگی اپنے منحوس پاؤں پسارے ہوئے ہے۔
مساوی اورمعیاری تعلیم صرف اس عالمی تنظیم کا ہی نعرہ نہیں ہے بلکہ بچوں کا بنیادی حق بھی ہے لیکن اگر ہندوستان میں رائج نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا جائے تو ان دونوں محاذوں پر بطور نیشن ہم ناکام نظر آتے ہیں۔ بچوں کو نہ تو معیاری تعلیم مل پارہی ہے اور نہ ہی مساوی تعلیم کا یہاں کوئی نظم ہے۔اس ملک میں معیاری تعلیم کیسے ممکن ہوسکتی ہے جہاں سرکاری اسکولوں میں خالی اسامیوں کی تعداد لاکھوں میں ہو۔ یونیسکو کی رپورٹ ’نو ٹیچر نو کلاس‘کے مطابق اس وقت ملک میں 11.16لاکھ اساتذہ کے عہدے خالی پڑے ہیں،یہ کل تعداد کا 19فیصد ہے۔یہ کسی ایک ریاست کا معاملہ نہیں ہے اس میں ملک کی سبھی ریاستیں شامل ہیں،ان میں اتر پردیش سر فہرست ہے۔3.3لاکھ عہدے صرف اترپردیش میں خالی پڑے ہیں،2.2لاکھ بہار میں جبکہ 1.1لاکھ عہدے بنگال میں خالی پڑے ہیں۔اسی طرح سے 1.1لاکھ اسکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ہی استاد کے سہارے بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ایسے میں بھلا معیاری تعلیم کا انتظام کیسے ہو سکتا ہے؟اگر ان عہدوں پر بر وقت تقرری ہوجائے تو اس سے کئی مسئلے حل ہوسکتے ہیں،اول بچے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہونے سے بچ جائیں، دوم بے روزگاری کے شکار نوجوانوں کی بے روزگاری دور ہوجائے جو اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، سوم ملک کا مستقبل تعلیمی سطح پر تابناک ہو جائے گا،جس کا فائدہ ملک و قوم کو مستقبل میں یقینا ملے گا۔
اسکولوں میں اساتذہ کے نہ ہونے یا ان کی تعداد کم ہونے کا سب سے برا اثر بچوں پر پڑتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل پاتی ہے۔ کسی بھی سر کاری اسکول میں چلے جائیے وہاں کا نظام تعلیم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں تعلیم کے بجائے صرف وقت کاٹا جاتا ہے۔اول اساتذہ کی کمی ہوتی ہے اور دوم وہ اساتذہ بھی بچوں کو محنت اور لگن سے نہیں پڑھانا چاہتے ہیں،جس کی وجہ سے لوگ سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکولوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، یہیں سے تعلیم کے میدان میں عدم مساوات کو راہ ملتی ہے اور پھر سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے مابین ایک ایسی لکیر کھنچ جاتی ہے جو حین حیات قائم رہتی ہے۔چونکہ پرائیویٹ اسکول کا سسٹم ایک ایسی انڈسٹری میں تبدیل ہوچکا ہے جس سے زیادہ منافع بخش کاروبار شاید اس وقت کوئی نہیں ہے،چونکہ اس سے بچوں کا مستقل وابستہ ہوتا ہے اس لیے لوگ بے دریغ روپیہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔یہ پرائیویٹ اسکول بہتر سہولیات اور اعلیٰ تعلیم کے نام پر سرپرستوں سے موٹی رقم وصول کرتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ خود حکومت میں شامل افراد اس طرح کے اسکولوں کی چین چلاتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ نہایت منافع بخش کاروبار ہے۔
ہر شہر اور علاقہ میں ایسے کچھ اسکول ضرور ہوتے ہیں جو اسٹیٹس سمبل بن جاتے ہیں، جہاں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ احساس برتری جبکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والا احساس کمتری کا شکار ہوجا تا ہے۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے لیے اپنی ماتحتی میں معیاری اور مساوی تعلیم کا انتظام کرے۔اس سے پرائیوٹ اسکول انتظامیہ کی لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ بھی ہوگا اور تربیت میں یکسانیت بھی آئے گی۔اس رپورٹ کے تناظر میں ہندوستان معیاری اور مساوی تعلیم سے دور ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ملک سے غریبی اور عدم مساوات کے خاتمہ کے لیے تعلیمی محاذ پر مضبوطی سے کام کیا جاتا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بچے اپنے بنیادی حقو ق سے محروم کیے جا رہے ہیں،جس کے لیے ان کے علاوہ کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں ہے۔اگر حکومت مساوی اور معیاری تعلیم کے محاذ پر عملی اقدام نہیں کر رہی ہے تو وہ حقیقت میں ملک و قوم کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہی ہے خواہ وہ محب وطن ہونے کا کتنا بھی دعویٰ کرے۔
[email protected]