نئی دہلی (ایجنسی):رات کا وقت ہے، شور بہت زیادہ ہے۔ پولیس کے ساتھ کسی شخص کی بحث ہو رہی جسے ایک جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ پھر اچانک ان کے ارد گرد لگی بھیڑ کو چیڑتی ہوئی ایک خاتون آگے بڑھتی ہیں اور پولیس سے کہتی ہیں ‘آرڈر دکھاؤ۔’ان کی پیٹھ کیمرے کے طرف ہے لیکن آواز اور لہجے سے ان کی شناخت فوراً ظاہر ہو جاتی ہے۔
‘مجھے وجہ بتاؤ۔ مجھے آرڈر دکھاؤ۔ مجھے وارنٹ دکھاؤ اور اگر یہ نہیں ہے تو تمہیں ہمیں روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
پھر وہ خاتون پولیس افسر کو مخاطب کر کے للکارتی ہیں: ’آپ کیا سمجھتے ہیں؟ اگر آپ لوگوں کو مار سکتے ہیں، کسانوں کو کچل سکتے ہیں، تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی روکیں گے؟’
یہ کوئی اور نہیں بلکہ انڈیا کی کانگریس جماعت کی رہنما اور راجیو گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی ہیں جنھیں اترپردیش کی پولیس نے لکھیم پور کھیری جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ یہاں اتوار کے روز ہونے والے ایک پرتشدد واقعے میں چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور تقریبا ایک درجن افراد زخمی بھی ہوئے۔کانگریس رہنما اور اترپردیش میں کانگریس کی ذمہ دار پرینکا گاندھی کے اس وائرل ویڈیو کے ساتھ دیگر کلپ بھی وائرل ہیں۔
ایک دوسری ویڈیو میں وہ پولیس کو متنبہ کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ زور زبردستی نہ کی جائے۔ انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے: ‘یہ مجرمانہ حملہ ہے، اغوا کرنے کی کوشش ہے، اغوا ہے، چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش ہے، نقصان پہنچانے کی کوشش ہے، سمجھے، سمجھ گئے نہ سب کچھ، چھو کے دیکھو مجھے؟۔۔۔ خواتین سے بات کرنا سیکھو۔’
بہر حال، وہ دو دنوں سے انڈیا میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔ اترپردیش پولیس کے سامنے ان کی بے خوف ویڈیو اگر اتوار سے گردش کر رہی ہے تو سیتا پور کے گیسٹ ہاؤس میں حراست کے دوران اپنے کمرے میں جھاڑو دینے والی ویڈیو سوموار سے مستقل گردش کر رہی ہے اور لوگ اس پر اپنے اپنے سیاسی نقطۂ نظر سے تبصرہ بھی کر رہے ہیں۔ایک سال میں کچھ نہیں بدلا ہے، پرینکا کا تیور اور نہ ہی اترپردیش حکومت کا رویہ۔
پولیس کے ساتھ مباحثے والی ویڈیو دیکھ کر گذشتہ سال اسی زمانے کی ایک ویڈیو یاد آتی ہے جس میں وہ بدنام زمانہ ہاتھرس ریپ کیس کے متاثرہ خاندان سے ملنے جا رہی تھیں اور انھیں اور ان کے بھائی راہل گاندھی کو وہاں جانے سے روکا گیا تھا۔
اس وقت بھی پولیس پر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی سے زور زبردستی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جس کے بعد راہل گاندھی نے کہا تھا کہ ‘سارے ملک کو دھکیلا اور پیٹا جا رہا ہے تو مجھے دھکیلا جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔’
انڈیا میں بہت سے لوگوں کو پرینکا گاندھی میں ان کی دادی اور سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جھلک نظر آتی ہے اور اس قسم کے مواقع پر لوگ پرینکا میں ہندوستان کا مستقبل دیکھنے لگتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ دلی کا راستہ لکھنؤ سے گزرتا ہے، یعنی ملک میں اقتدار اسی کو ملتا ہے جسے اترپردیش میں زیادہ سیٹیں ملتی ہیں کیونکہ اترپردیش میں سب سے زیادہ پارلیمانی سیٹیں ہیں اور یہ ملک کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے۔
انھوں نے اپنے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیے گئے متواتر ٹویٹس میں کہا: ‘جس طرح کسانوں کو کچلا جا رہا ہے اس کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ کئی مہینوں سے کسان آواز اٹھا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ غلط ہو رہا ہے، لیکن حکومت سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کسانوں کو کچلنے اور تباہ کرنے کی سیاست کر رہی ہے۔’
انھوں نے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کی اور پوچھا کہ انھیں 28 گھنٹوں تک بغیر کسی آرڈر اور ایف آئی آر کے حراست میں کیوں رکھا گیا اور ‘کسانوں کو کچلنے والا یہ شخص ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوا؟’
انھوں نے مزید کہا: ‘یہ ملک کسانوں کا ہے اور یہ بی جے پی کے نظریے کی جاگیر نہیں ہے۔ اسے کسانوں نے بنایا اور سیراب کیا ہے۔ جب طاقت کا استعمال کرنا ہوتا ہے تو پولیس اخلاقی بنیاد کھو دیتی ہے۔ میں اپنے گھر سے نکل کر کوئی جرم کرنے نہیں جا رہی ہوں۔ میں صرف متاثرین کے خاندانوں سے ملنے جا رہی ہوں۔ میں آنسو پونچھنے جا رہی ہوں۔ کیا میں غلط کر رہی ہوں؟’
واضح رہے کہ کسان پارلیمان سے منظور ہونے والے تین قوانین کی تقریبا ایک سال سے مخالفت کر رہے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔پرینکا گذشتہ کئی برسوں سے اترپردیش کی سیاست میں پیش پیش رہی ہیں، خواہ وہ سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کے خاندان سے ملنے کا واقعہ ہو یا یا پھر کووڈ 19 وبا کے دوران مہاجر مزدوروں کو بس فراہم کرانے کا معاملہ ہو یا کہ سون بھدر اراضی کے تنازعے میں قبائلیوں کے قتل کا۔
ہندوستان ٹائمز کے ساتھ فون پر ایک انٹرویو کے دوران پرینکا گاندھی نے حالیہ واقعے کے تناظر میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے بتایا: ’اگر آپ گذشتہ دو سال پر نظر ڈالیں تو آپ نے کب دیکھا کہ مسٹر اکھیلیش یادو (سابق وزیر اعلی) سڑکوں پر نظر آئے یا کسی احتجاج میں شریک ہوئے؟ کیا آپ نے انھیں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں یا ہاتھرس کے واقعے میں کہیں دیکھا؟ کیا آپ نے ان کو سڑکوں پر کسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھا؟ کیا آپ نے مایاوتی جی (ان سے پہلے ریاست کی کئی مرتبہ بننے والی وزیر اعلی) کو دیکھا؟ آپ نے نہیں دیکھا۔ کیا آپ نے کانگریس پارٹی کو دیکھا؟ تو ہاں آپ نے دیکھا۔ بطور خاص گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران، کورونا کے زمانے میں بھی کانگریس پارٹی نے زمین پر سب سے زیادہ کام کیا، سب سے زیادہ مسائل پر کام کیا، کورونا کے لیے سب سے زیادہ ریلیف پر کام کیا۔ ہم مسائل کو اجاگر کر رہے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنی تنظیم کو بنا رہے ہیں۔’
بہر حال گذشتہ روز اکھلیش یادو نے بھی ایک ٹویٹ اپنے گھر کے باہر کا منظر پیش کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں ان کے گھر میں نظر بند کردیا گیا ہے اور انھیں لکھیم پور جانے سے روکا گیا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ 32 سال سے اس ریاست میں کانگریس اقتدار میں نہیں ہے اور وہ مستقل ختم ہوتی جا رہی تھی کہ گذشتہ انتخابات میں پرینکا گاندھی کو ریاست میں کانگریس کی احیا کا کام سونپا گیا جو کہ موجودہ منقسم سماج میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن کانگریس اور ان کے حامیوں کو یہ امید ہے کہ وہ کانگریس کو پھر سے زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
چنانچہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے پولیس کے ساتھ اپنی بہن کی وائرل ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ ‘کیا حکومت پرینکا کی ہمت سے خوفزدہ ہے؟’انھوں نے ٹویٹ کیا: ‘پرینکا، میں جانتا ہوں کہ آپ پیچھے نہیں ہٹیں گی- وہ آپ کی ہمت سے ڈر گئے ہیں۔ ہم انصاف کی اس عدم تشدد والی لڑائی میں ملک کے کسان کو جیت دلا کر رہیں گے۔’اسی طرح کانگریس کے ایک دوسرے رہمنا سنجے جھا نے ٹویٹ کیا: ‘پرینکا ایک جنگجو ہیں۔ ان میں ان کی دادی کا مستحکم کردار ہے۔ وہ کبھی ہار نہیں مانیں گی۔’
پرینکا اترپردیش میں پارٹی کا چہرہ یا وزیر اعلی کا چہرہ بنیں کہ نہیں اس پر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس کی امید ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ وہ کارکنوں میں بہت غیر مقبول ہیں کیونکہ ‘وہ خود پسند اور گھمنڈی ہیں۔’
کانگریس کے سینیئر لیڈر سنجے جھا نے بی بی سی کی سوشیلا سنگھ سے بات چیت میں کہا: ‘یہ میری ذاتی رائے ہے کہ پرینکا گاندھی نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دہلی کی سڑک لکھنؤ سے گزرتی ہے ، لیکن کئی سالوں سے کانگریس ریاست کی دوسری پارٹیوں پر انحصار کرتی رہی ہے، کمزور رہی ہے۔ کیا یہ اچانک بدل جائے گی، صرف مستقبل بتائے گا۔’وہ مزید کہتے ہیں: ‘جس طرح کا ماحول ہے اس دوران یہ دیکھا جا رہا ہے کہ بی جے پی کئی محاذوں پر ناکام ہو گئی ہے۔ جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کورونا، خراب معیشت، بے روزگاری، بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں پرینکا گاندھی کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ کانگریس پارٹی کی صدر بنیں اور نہ صرف کانگریس پارٹی بلکہ ملک کو ایک نئی سمت دکھائیں۔’
سنجے جھا کہتے ہیں: ‘پرینکا گاندھی کے پاس ایک وژن ہے۔ وہ لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کے پاس صلاحیت ہے، وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اچھی مقرر ہیں۔ ان کا رویہ اور لوگوں کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں۔ پبلسٹی بھی وہ اچھا کرتی ہیں۔ اس لیے پارٹی کو چاہیے انتخابات کے ذریعے صدر کے طور پر انھیں مقرر کیا جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ پرینکا گاندھی ایک امید افزا امیدوار ہوں گی۔ اور وہ پارٹی کے لیے ٹرمپ کارڈ ثابت ہو سکتی ہیں۔’
دوسری جانب صحافی سمیتا گپتا جو کئی سالوں سے کانگریس پارٹی کو کوور کر رہی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پرینکا گاندھی اسے سیاسی سٹیج پر زور شور سے اٹھاتی ہیں، لیکن ہاتھرس یا لکھیم پور کھیری جیسے واقعات ہر روز نہیں ہوتے۔
سمیتا گپتا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘طویل عرصے تک پارٹی بنانے کی بات آتی ہے تو نہ تو پریانکا اور نہ ہی ان کے بھائی راہل نے بہت جوہر دکھایا ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات ایک دن ہوں گے، بیان بازی ہوگی۔ وہ تقریر کرنے میں راہل سے زیادہ موثر ہیں، لیکن صرف اتنے سے کام نہیں چلے گا۔’
سمیتا گپتا کا ماننا ہے کہ اگر راہل یا پرینکا کو یوپی میں چہرہ بنایا گیا تو کانگریس کی کارکردگی میں بہتری ضرور ہوگی کیونکہ وہ ایک جانا پہنچانا چہرہ ہیں اور پارٹی کارکن بھی ان کی حمایت کریں گے، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کانگریس پارٹی جیت درج کر سکے گی یا نہیں۔
پرینکا گاندھی کو ریاست میں وزیراعلیٰ کا چہرہ بنانے یا پارٹی صدر بنانے پر وہ واضح طور پر کہتی ہیں: ‘وہ پارٹی کارکنوں میں کافی غیر مقبول ہیں۔ اگر آپ کہیں بھی جائیں اور کارکنوں سے بات کریں اور راہل اور پرینکا گاندھی کے درمیان انتخابات کے بارے میں بات کریں، تو وہ راہل کے حق میں بات کریں گے۔ کیونکہ وہ (پریانکا) بہت خود پسند یا گھمنڈی ہیں۔ اسٹیج پر ان کا جارحانہ انداز ہے، جلدی جواب دینے کی صلاحیت ہے جو راہل میں نظر نہیں آتی۔’
سمیتا گپتا کہتی ہیں: ‘پرینکا اندرا گاندھی نہیں ہیں جو الیکشن جیت رہی ہوں۔ جب کوئی الیکشن نہیں جیت رہا ہے تو کوئی اس کا غرور کیوں برداشت کرے گا؟ سنہ 2014 اور 2019 میں الیکشن ہارنے کے بعد کوئی بھی آپ کے ساتھ کیوں شامل ہونا چاہے گا؟ جو زمینی سطح پر کام کر رہا ہے اسے بھی احترام کی توقع ہے۔’جبکہ کانگریس کے سینیئر لیڈر اکھلیش پرتاپ سنگھ مطابق عوام پرینکا گاندھی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ‘وہ واحد لیڈر ہیں جو عوامی مسائل پر سڑک پر آئی ہیں۔ ان کی آواز بن گئی ہیں۔ انہیں چھ بار حراست میں لیا گیا۔ انھیں درجنوں بار پکڑا گیا۔ انھیں کئی بار پیٹا گیا۔ یہ کسانوں کا معاملہ ہو، مرزا پور، الہ آباد میں ماہی گیروں کا مسئلہ ہو، ہاتھرس کی بیٹی کا مسئلہ ہو یا کسانوں کا مسئلہ ہو وہ ایسے تمام معاملات میں عوام کے ساتھ کھڑی تھیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ کانگریس کے سامنے ابھی بہت سارے مسائل ہیں، کانگریس کو پنجاب میں مسائل کا سامنا ہے۔ کانگریس کے سامنے کرسی صدارت سنبھالنے کا معاملہ ہے، ایسے میں پرینکا کا اپنا کردار ہو سکتا ہے۔ کانگریس کے سینیئر رہنما سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ سے کہیں بہتر تو پرینکا کا چہر ہوگا۔
جب سلمان خورشید سے پوچھا گیا کہ کیا پرینکا گاندھی ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو مقابلہ دے سکتی ہیں تو انھوں نے کہا: ‘یہ تو مستقبل ہی بتائے گا کہ الیکشن میں کون جیتے گا۔ پرینکا گاندھی کا چہرہ ان کے (آدتیہ ناتھ) چہرے سے بہتر ہے اور یہی سچ ہے۔’
پرینکا گاندھی نے ایک بار اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے اپنی دادی کو اپنا رول ماڈل بنایا ہے کیونکہ وہ نہ صرف سیاسی طور پر طاقتور تھیں بلکہ وہ بطور ایک انسان بھی بہت طاقتور شخصیت کی مالک تھیں۔
سونیا گاندھی کے سوانح نگار رشید قدوائی سے جب ہم نے پرینکا گاندھی اور اندرا گاندھی کے درمیان مماثلت پر پہلے بات کی تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ ‘جن لوگوں نے اندرا گاندھی کو دیکھا تھا انھیں یہ خیال آ سکتا ہے کہ ان میں کافی مماثلت ہے لیکن اب جبکہ ان کی موت کے بعد دوسری نسل ووٹ دینے کے لائق ہو رہی ہے ایسے میں نوجوانوں کا ان کے اور اندرا گاندھی کے درمیان کوئی ربط قائم کرنا مشکل نظر آتا ہے۔’
پرینکا گاندھی کی ’جھاڑو مہم ‘سیاسی حقیقت میں بھی تبدیلی ہوگی ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS