رکمنی بنرجی
کئی برس قبل کی بات ہے۔ لکھنؤ سے کچھ دور ’بخشی کا تالاب‘ علاقہ میں ایک پرائمری اسکول ہے۔ دوسری کلاس کے بچوں کے ساتھ کچھ سرگرمیاں چل رہی تھیں۔ میں نے ان کی درسی کتاب کھولی اور صفحات پلٹنے لگی۔ ’راج کمار سدھارتھ‘ کے بارے میں ایک سبق ملا۔ ایک صفحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کئی بچوں سے پڑھ کر سنانے کو کہا۔ ایک دو بچوں نے کوشش کی لیکن انہیں سبق پڑھنے میں مشکل ہوئی۔ میں نے کتاب لے کر بچوں کو پاس بلا لیا۔ سبھی زمین پر دائرہ بناکر بیٹھ گئے۔ ’چلو، آج ہم ’راج کمار سدھارتھ‘ کے بارے میں کہانی پڑھتے ہیں۔‘ بچے غور سے سننے لگے۔ ایک بچی نے آہستہ سے ’سدھارتھ‘ بولنے کی کوشش کی۔ مرکب حروف کے تلفظ میں تھوڑی دقت ہورہی تھی۔ ایک ایک کرکے سبھی بچے ’سدھارتھ‘ کو صحیح طریقہ سے بولنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں حیران تھی۔ ایک لفظ کے تلفظ میں اتنا مزہ آسکتا ہے، کبھی سوچا نہیں تھا۔ میں نے دل ہی دل میں طے کیا، نئے، ناواقف، مرکب لفظ(ligature words)کو نئے نظریہ سے دیکھنا پڑے گا۔
’راج کمار سدھارتھ‘ کے سبق کا پہلا جملہ کچھ ایسا تھا، ’ایک دن راج کمار سدھارتھ باغ میں ٹہل رہے تھے۔‘ ’ٹہل کا کیا مطلب ہوتا ہے؟‘ میں نے بچوں سے پوچھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک چھوٹے لڑکے نے کہا، ’بتا نہیں سکتے، لیکن کرکے دکھائیں؟‘ بچے اپنی جگہ سے تھوڑا پیچھے کھسکے اور بیچ میں جگہ بنا دی گئی۔ لڑکا کھڑا ہوکر آرام سے چلنے لگا۔ اس کی چال سے لگ رہا تھا،جیسے کوئی وزنی شخص شام میں گھومنے جارہا ہے۔
درسی کتاب کے سبق کے ساتھ کیا کرنا ہے، اب بچے بھی سمجھ گئے تھے۔ بیشک ابھی تک انہیں ٹھیک سے پڑھنا نہ آیا ہو لیکن سبق سے متعلق سرگرمیاں آسانی سے وہ کرپارہے تھے۔ ایک بچہ کچھ جملے پڑھتا ہے۔ پھر رک کر بات چیت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بحث بھی ہوتی ہے۔ ضرورت پڑے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اداکاری بھی کرنی پڑتی ہے۔
’سبق، پڑھنا اور پڑھائی‘، ان تینوں کو کلاس اور عمر کے ساتھ ایک ڈور میں باندھ دیا جاتا ہے۔ لیکن کیوں؟ بچوں سے پوچھتے ہیں، آپ کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں؟ یہ نہیں پوچھتے کہ آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟ کیا پڑھنے کا دل کرتا ہے، پڑھنے میں تبھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے جب دلچسپی کی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ سبق یا کہانی میں تبھی مزہ آتا ہے جب پڑھی ہوئی یا پڑھ کر سنائی ہوئی چیزوں پر گہرائی سے بات چیت ہو۔
’سبق، پڑھنا اور پڑھائی‘، ان تینوں کو کلاس اور عمر کے ساتھ ایک ڈور میں باندھ دیا جاتا ہے۔ لیکن کیوں؟ بچوں سے پوچھتے ہیں، آپ کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں؟ یہ نہیں پوچھتے کہ آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟ کیا پڑھنے کا دل کرتا ہے، پڑھنے میں تبھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے جب دلچسپی کی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ سبق یا کہانی میں تبھی مزہ آتا ہے جب پڑھی ہوئی یا پڑھ کر سنائی ہوئی چیزوں پر گہرائی سے بات چیت ہو۔ ہوسکتا ہے گھر میں بچہ اکیلا ہو یا آس پاس اور بچے نہ ہوں۔ لیکن اسکول میں ہمیشہ بہت بچے ہوتے ہیں، جن کے ساتھ ایسی سرگرمیاں کی جاسکتی ہیں۔ کتاب اور کہانیوں پر جتنی گہرائی سے بات چیت ہوتی ہے، اتنی ہی سمجھ آتی ہے اور اپنے آس پاس کی زندگی سے جوڑ سکتے ہیں۔ جب بچے پڑھنے لگتے ہیں تو اپنی عمر یا کلاس کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح جب بچے پڑھ نہیں پاتے، تب کلاس یا عمر انہیں پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اعتماد کم ہونے لگتا ہے۔ سبھی بچوں کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے بات چیت اور گپ شپ کا راستہ سب سے عمدہ ہے۔ باتوں میں سبھی شامل ہوسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خیالات کو سن کر اپنی سوچ بھی بدلتے ہیں۔ بحث کے ذریعہ سے ترقی یقینی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی2020کی بنیاد پر ہنرمند ہندوستان مہم پورے ہندوستان میں پھیل رہی ہے۔ کتاب پڑھنے کے ساتھ کہانی پر بحث و الگ الگ موضوعات پر بات چیت کا موقع ملنا بہت ضروری ہے، جو انہیں اسکول، گھر اور محلے میں ملنا چاہیے۔
کلاس میں سبھی بچے چپ چاپ اپنی اپنی کاپی میں کچھ کرنے لگے تھے۔ جب گھنٹی بجی، چاروں طرف راج کمار سدھارتھ موجود تھے۔ کاغذ پر، تحریر میں، تصاویر میں جھانک رہے تھے۔ ’بخشی کا تالاب‘ کے اسکول میں اس دن ہر بچہ کے ساتھ راج کمار کے باغیچہ میں ٹہلنے کی کہانی گھروں تک ضرور پہنچ گئی ہوگی۔
(مضمون نگار ’پرتھم‘ ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے وابستہ ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)