ڈاکٹر ایم۔ صلاح الدین
سروقد، سراپا شکیل، خوش وضع، خلیق و خوش گفتار، بے تکلفوں میں باغ و بہار، پر تکلف مجلسوں میں متین و پروقار، طالب علموں کے گرویدہ، مقتدر شخصیات کے پسندیدہ، ماہر لسانیات، ماہر تعلیمات، ماہر تراجم، نئی نسلوں کے خیر خواہ، قوم کے بہی خواہ، لگن کے سچے، دُھن کے پکے شخص کا نام ہے پروفیسر محمد جہانگیر وارثی جنہوں نے کوردہ دیہاتی ماحول سے اٹھ کر وطن عزیز سے امریکہ تک اپنی کارکردگی کی بدولت قدر و منزلت حاصل کی اور انسپائرشنل شخصیت بن کر سامنے آئے۔
پروفیسرمحمد جہانگیر وارثی ضلع دربھنگہ، بلاک کوشیشور استھان کے سیلاب زدہ چھوٹے سے گائوں ’’بَرّا‘‘ میں متوسط کاشتکار اور پرائمری ٹیچر الحاج محمد اظہار الحق کے یہاں پیدا ہوئے۔ گائوں میں رہ کر ہی اسکولی تعلیم ۱۹۸۵ء میں مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ غیر معروف علم اللسان میں دلچسپی لی۔ بیچلر کورس تک امتیازی پوزیشن اور ماسٹر ڈگری میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ۱۹۹۶ء میں سنٹر فار ڈیولپمنٹ آف اڈوانس کمپیوٹنگ، پونے کے مشین ٹرانسلیشن پروجیکٹ پر کام کرکے اپنے تجربے کو صیقل کیا۔ ۱۹۹۸ء میں ’’سائیکو لنگوئسٹک‘‘ کے موضوع پر پی ایچ۔ڈی مکمل کی اور بطور ماہر لسانیات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی سے باقاعدہ وابستہ ہو گئے۔ بعہدہ ریسرچ اسسٹنٹ/ کوآرڈنیٹر، مدارس کے لئے کمپیوٹر کورس کا نصاب تیار کرنے میں اپنی استعداد کا نمایاں مظاہرہ کیا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی سے اردو زبان کو مربوط کرنے میں بھی اہم خدمات انجام دیں۔ اس موضوع پر ۱۹۹۹ء میں ’’ڈپلوما اِن کمپیوٹر اپیلی کیشن اینڈ ملٹی لنگول ڈی۔ ٹی۔پی‘‘ اور ۲۰۰۰ء میں ’’اردو سافٹ ویئر‘‘ نامی دو کتابیں لکھیں۔ اول الذکر کتاب کو مغربی بنگال اردو اکادمی نے ایوارڈ سے نوازا۔ مدارس اسلامیہ اور اردو اکادمیوں کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے کمپیوٹر سنٹرس سے جوڑ نے میں اہم کردار ادا کیا اور اس واسطے سے ملک بھر میں اپنی سرگرمیوں کی بدولت مقتدر حلقے میں پہچان بنائی۔ یہی پہچان اُن کے مستقبل کی راہ نما بنی۔
خوب سے خوب ترکی جستجو جذبہ و عمل میں پیدا ہو جائے تو عملی زندگی کی جدوجہد کے آغاز میں ’’پرِ پرواز‘‘ کھل ہی جایا کرتا ہے مگر بقول راحت اندوری:
پائوں پتھر کر کے چھوڑے گی اگر رک جایئے
چلتے رہئے تو زمیں بھی ہم سفر ہو جائے گی
سو ڈاکٹر وارثی گائوں سے پُر عزم چلے تو چلتے رہے، راستے بنتے گئے اور زمین بھی ان کی ہم سفر ہو گئی، کیونکہ انہیں جو مل گیا اسی کو اپنی جستجو کا حاصل مان کر ’’پرواز میں کوتاہی‘‘ نہیں کی، اپنے بازو نہیں سمیٹے۔ لہٰذا ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکہ پرواز کر گئے۔ وہاں مشیگن یونیورسٹی کے شعبہ ایشین لینگویجز اینڈ کلچر میںلکچرر کی جگہ مل گئی۔ کچھ ہی عرصے میں ان کا تدریسی عمل، لسانیاتی علم، تراجم کی مہارت، طلبا کو اپنی طرف متوجہ کرلینے کا ہنر اور ان کی فعالیت رنگ لائی۔ ان کی پوچھ ہونے لگی۔ ۲۰۰۲ء میں ایک پروجیکٹ کے لئے یونیورسٹی سے ’’فری مین فائونڈیشن گرانٹ‘‘مل گئی۔ امریکی اور یوروپی رسائل میں تحقیقی مضامین آنے لگے۔ واشنگٹن ڈی۔سی کے نیشنل فارن لینگویج سنٹر نے بطور ’’سبجکٹ ایکسپرٹ ‘‘ ان کی عارضی خدمت حاصل کی۔ ۲۰۰۳ء میں ان کی کتاب ’’لینگویج اینڈ کمیونیکیشن‘‘ منظر عام پر آگئی، جو خاصے چرچے میں رہی۔ ان کی پرواز کو اوراڑان ملی۔ اگست ۲۰۰۳ء میں مشیگن یونیورسٹی سے کیلفورنیا یونیورسٹی، برکلے چلے گئے۔ اسی سال اپنے ملک ہندوستان کی انڈین اکیڈمی آف سوشل سائنس نے بھی ان کی تحقیقی اور لسانیاتی مہارت کا فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی ریسرچ کمیٹی برائے لسانیات کا سہ سالہ ممبر بنا لیا۔ انہیں دیش، بدیش میں خصوصی لکچرس کے لئے مدعو کیا جانے لگا۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں امریکیوں کو اردو سیکھنے کی طرف راغب کرنے کی کاوشیں کئی سطوں پر کیں اور اردو کے سفیر بن کر ابھرے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی نے انہیں قابل تحسین تدریسی خدمات کے لئے ۲۰۰۵ء میں ’’Unsung Hero‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔
پروفیسر موصوف ۲۰۰۶ء میں واشنگٹن یونیورسٹی، سینٹ لوئیس کے شعبہ ’’ایشین لینگویجز اینڈ کلچر‘‘ سے وابستہ ہو گئے اور یہاں ۲۰۱۶ء تک رہے۔ اس دور میں ان کی جہد مسلسل خوب رنگ لائی۔ موصوف لیاقت پر مبنی استفادہ کا موقع جس حال میں ملے چھوڑتے نہیں اور اس کی ترغیب نئی نسل کو بھی دینے سے کبھی نہیں چوکے۔ اسی روش نے انہیں انسپائریشنل شخصیت بنایا اور ان کی قدر بڑھائی۔ انڈین انٹرنیشنل فرینڈشپ سوسائٹی نے انہیں ۲۰۰۷ء کے ’’گلوری آف انڈیا ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ ان کی درج ذیل تحقیقی کتابیں اور کئی مقالات نے خوب توجہ بٹوری:
1. Linguistic Dynamism in South Asia, Gyan Publications, New Delhi-2008
2. Evaluation of Media Reach and Effectiveness: A Linguistic Exercise, Lincom Europa, Germany, 2009.
3. Mithlanchal Urdu: The Newly Discovered Dialect of Bihar, Lincom Europa, Germany, 2014.
4. Zaban-o-Tarseel, New Delhi, 2015.
امیریکیوں کو سہل اسلوب میں ثانوی سطح تک اردو سیکھانے کے لئے اپنے شعبہ سے خط نستعلیق فونٹ پر مبنی ویب سائٹ http://urdu.wustl.edu ، ۱۳؍ اپریل ۲۰۱۱ء کو جاری کیا ۔ جو اپنی نوعیت کی پہلی اردو ویب سائٹ قرار پائی اور جلد مقبولیت کو چھو گئی۔واشنگٹن یونیورسٹی نے ۱۲-۲۰۱۱ء کے گراں قدر ’’جیمس ای۔ میکلیاڈ فیکلٹی ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا۔ پھر تو بطور ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات ان کی منفرد شناخت اور شہرت کو پَر لگ گئے۔ ۲۰۱۲ء میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، نئی دہلی نے چیف الیکشن کمیشنر ایچ۔ایس برہما اور کرکٹ اسٹار شری کانت کے ہاتھوں ’’انسپائریشنل لیڈر شپ ایوارڈ‘‘ عطا کیا اسی سال بہار سرکار نے ’’ریاستی تعلیمی مشاورتی کمیٹی‘‘ کا رکن نامزد کیا اور ۹؍ اگست ۲۰۱۵ء کو وزیر اعلیٰ نیش کمار نے انہیں ’’پرواسی بہاری سمان پرسکار‘‘ سے نوازا۔ گویا بقول جگن ناتھ آزاد:
چلتے رہے ہم تند ہوائوں کے مقابل
آزادؔ، چراغِ تہہ داماں نہ رہے ہم
کے مصداق پروفیسر وارثی بھی ٹھہرے اور ’’مثلِ خورشید‘‘ ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے، سرگر مِ عمل رہے۔ پندرہ برسوں کے امریکہ قیام نے مہارت، تجربات، مشاہدات اور ترقیات کی شکلوں میں جو کچھ انہیں دیا انہوں نے اپنے ہی تک محدود نہ رکھا بلکہ اُن سے اپنے وطن کے ذرے کو بھی ضیا بار کرنے کی کئی سطحوں پر کاوشیں کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔
بہار ریاستی اسکول تعلیمی مشاورتی کمیٹی میں رہتے ہوئے انہوں نے جہاں بہار سرکار کی تعلیمی پالیسی کو مثبت رخ دینے میں اہم کردار ادا کیا، وہیں نالندہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ’’سنٹر فار لنگوئسٹک اینڈ کلچرل اسٹڈیز‘‘ کھولنے کی پرزور وقالت کی۔ موصوف مغربی ملکوں کی طرح یہاں کی یونیورسٹیوں میں بھی باقاعدہ لسانیات کی تدریس کے بڑے وکیل ہیں کیونکہ یہاں کے ماہرین لسانیات کی مغربی ممالک میں کافی ڈیمانڈ ہے اور اس طرف یہاں کے طلبا کو آگے بڑھانے کے متمنی ہیں۔
انہوں نے اپنی اسکولی تعلیم جن مشکلوں سے جوجھ کر مکمل کی، اپنے علاقہ کی نئی نسلوں کے ان مشکلوں کو دور کرنے کا عزم کیا تو ۲۰۰۵ء میں والدہ مرحومہ کے نام پر ’’اکبری بیگم میموریل ٹرسٹ‘‘ بنایا۔ اس کے تحت اداروں کے قیام کے لئے اپنے گائوں برّا میں لب سڑک اراضیاں حاصل کیں جس کا سلسلہ اداروں کے پھیلاؤ کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔ ابھی ان پر لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ دوثانوی سطح کے افیلی ایٹڈ تعلیمی ادارے چل رہے ہیں سرٹیفیکٹ کورسوں تک کمپیوٹر کی تعلیم کا معقول کمپیوٹر سنٹر ہے اور ہسپتال کے منصوبہ پر کام چل رہا ہے۔ اس ٹرسٹ کے ذریعہ مالی مشکلات کے سبب اعلیٰ تعلیم کے مرحلہ میں پیچھے راہ جانے والے طلبا کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں ’’چمن میں گل ہے، گل میں ’بو‘ ہے ’بو‘ میں فرحتِ دل ہے‘‘۔
۲۰۱۶ء میں مادرعلمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اپنی علمی خدمات سپرد کردی۔ فی الوقت یہاں شعبہ لسانیات کے چیرمین ہیں۔ ’’علی گڑھ جرنل آف لنگویسٹک‘‘ اور ’’اے۔ایم۔یو۔ جرنل آف لینگوئج اینڈ میڈیا ڈسکورس‘‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ ’’لینگویج آف ایڈورٹائزنگ، میڈیا مارکیٹ‘‘ اور ’’گلوبل اینی شیئیٹیو آف اکیڈمک ورکس (GIAN)‘‘ کے کورڈینیٹر ہیں۔یونیورسٹی کی کئی دیگر ذمہ داریاں بھی سنبھال رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مرکزی وزارت داخلہ کے محکمہ BPRD کے کمیونٹی پولیسنگ، نیشنل پولیس مشن کے ممبر اور ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی کی ایڈوائزری بورڈ برائے اردو کے ممبر ہیں۔۲۰۱۸ء میں ان کی تحقیقی اور لسانیاتی مبحث پر مبنی کتاب ’’میتھلی اردو‘‘قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی نے شائع کی اور عنقریب ساہتیہ اکیڈمی ایورڈ یافتہ کتابیں، بیگ احساس کے اردو فکشن ’’دخمہ‘‘ کا میتھلی میں اور اوشا کرن خاں کے میتھلی فکشن ’’بھامتی‘‘ کا اردو ترجمہ ساہتیہ اکیڈمی کے توسط منظر عام پر آنے والی ہیں۔
پروفیسر وارثی کا سب سے بڑا کارنامہ شمالی ایشیائی لسانیات میں تحقیق کا نیا باب کھولنا ہے۔ انہوں نے شمالی بہار کے متھلانچل میں میتھلی زبان اور اردو کے الفاظ و لہجے کی آمیزش سے وجود پذیر ’’بولی‘‘ کی شناخت کی اور اسے ’’میتھلی اردو‘‘ سے موسوم کیا۔ اس پر پہلے انگریزی میں Mithilanchal Urdu: The Newly Discovered Dialect of Bihar” پھر اردو میں ’’میتھلی اردو‘‘ نامی کتابیں لکھیں۔ ان میں تاریخ و تعریف لسانیات کے تناظر میں مدلل گفتگو کی ہے اور اس ’’بولی‘‘ کو ملکی و غیر ملکی سطح پر پہلے پہل روشناس کرایا ہے۔ اب بھی اس ’’بولی‘‘ پر قومی و بین الاقوامی رسائل میں ان کے تحقیقی آرٹیکلس کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پر اہل نظر کی بھی خامہ فرسائی ہونے لگی ہے، یہ بڑی بات ہے۔
ستمبر ۲۰۰۶ء میں مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ ’’نو گیارہ کے بعد امیریکہ میں اردو‘‘پر دیئے لکچر کی بابت صدارتی خطاب میں چیئرمین اکیڈمی ممتاز شاعر پدم شری ڈاکٹر بشیر بدر نے کہا تھا:
’’ڈاکٹر وارثی نے اپنے لکچر میں تنقیدی سچائی کا ایماندارانہ اظہار اس طرح کیا ہے کہ حقائق واضح ہو جائیں اور کسی کے دل آزاری بھی نہ ہو، بہت کم لوگوں کو یہ ہنر آتا ہے۔‘‘
اس ہنر کی نظیریں ہر تحریر و تقریر میں ملیں گی۔ ان کی تصانیف پڑھیں، انگریزی، اردو، ہندی کے لکھے مقالات، مضامین اور کالمس دیکھیں، ان کے خطبات یا لکچرس سنیں، زبان میں فصاحت، بیان میں سلاست، افکار و نظریات اور تجربات و مشاہدات کی پیشکش میں استدلال و توازن ملیں گے اور لہجہ و اسلوب ایسا کہ قاری و سامع متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ اوصاف بھی ان کی مقبولیت کے موجب بنے ہیں اور ایوراڈس بٹورنے میں معاون۔ ۲۰۱۸ء میں ’’عبدالقادر میموریل ایوارڈ‘‘ ملا اور ۲۰۲۱ء میں ’’انٹرنیشنل بوتھ ایوارڈ‘‘ بھی مل چکا ہے۔ ابھی خوب سے خوب ترکی جستجو کا سفر جاری ہے اور کمالات کا ظہور متوقع ہے۔
ان کی شخصیت اور کمالات کے اور بھی کئی گوشے ہیں، ابھی ان پر باتیں کرنے کی راہ میں مضمون کی تنگ دامانی مانع ہے۔ لہٰذا آخری بات یہ کہ پروفیسرمحمد جہانگیر وارثی فی الوقت ایسی اثر آفریں شخصیت ہیں جن کے طرزِ عمل میں، کارنامے میں، محصلہ ایوارڈس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ:
سنورتے ہیں ہمارے دن تو مثبت کام کرنے سے
نہ سمجھو صرف، اپنی سوچ و فکر و نظریہ سب کچھ
رام نگر، نہرا،ضلع دربھنگہ (بہار)