مبینہ تبدیلی مذہب کے الزام میں اترپردیش کے میرٹھ میں معروف اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو اترپردیش اے ٹی ایس نے گرفتار کرلیا ہے۔آفیشیل ذرائع نے بدھ کو بتایا کہ مولانا کلیم بالی ووڈ اداکارہ ثناءخان کا نکاح کرانے میں سرخیوںمیں تھے۔ منگل کی رات وہ یہاں لساڑی گیٹ علاقے کےہمایوں نگر میں ایک تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ رات نماز کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس جانے کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ اسی دوران اے ٹی ایس ٹیم نے انہیں گرفتار کرلیا۔ بتایا گیا ہے کہ میرتھ سے جب انہیں فون کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا فون بند تھا۔آج ان کی گرفتاری کا پتہ چلا ہے۔ اس
اس موقع پر مولاناکا وہ قدیم انٹرویو پیش کیا جارہا ہے،جو مولوی عمر ناصحی ندوی نے لیا تھا۔ اس کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنے سے پہلے’پنجند ڈاٹ کام ‘کا بھی شکریہ لازمی ہے۔ کیوں کہ ان کے حوالے سے یہ انٹرویو ہمیں حاصل ہوا۔
سوال :بہت عرصہ سے رفقاء کا اصرار ہے کہ آپ سے، آپ کے بچپن کے حالات، بزرگوں سے تعلق، اور پھر دعوت سے وابستگی کے بارے میں معلومات قلم بند کی جائیں، اگر آپ اجازت عطا فرما دیں تو ہم سب کو فائدہ ہو؟
جوا ب :مجھ جیسے ناکارہ انسان کے حالات سے تم لوگوں کو کیا فائدہ ہو گا،اکثر حالات تو سناتا ہی رہا ہوں، تم تو گھر کے ایک فرد ہو اس لئے تمہارے سامنے تو یہ حالات آئے ہی ہوں گے۔
سوال :یاد داشت کے مقابلہ میں آپ کی زبان سے سنیں گے تو زیادہ اچھا لگے گا، اپنی پیدائش، بچپن کے حالات اور خاندان کے بارے میں پہلے کچھ فرما دیں ؟
جواب : جی ہاں بڑا اچھا لگتا ہے، کہ جب اپنے رب کریم کے ان بے حد وحساب انعامات کا ذکر کرتا ہوں، جو میرے اللہ نے اس عاصی اور کمینے بندہ پر پیدائش بلکہ پیدائش کے پہلے سے بارش کی طرح برسانے شروع کر دئیے تھے، یہ حقیر اپنے اکابر کی خدمت میں جب بھی پہلا عریضہ لکھتا تھا تو اردو کے مشہور شاعر چکبست کا یہ شعر اپنے حسب حال ہو
نے کی وجہ سے لکھتا تھا:
لکھا ہے داور محشر نے میری فرد عصیاں پر
یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا
ان انعامات میں جو اس حقیر پر اللہ تعالی نے بلا طلب اور بلا اہلیت عطا فرمائے ان میں ایک بڑا قابل رشک بلکہ قابل فخر انعام یہ ہے کہ اس حقیر کی پیدائش ۹/ ربیع الاول ۱۳۷۷ھ بروز دو شنبہ صبح کے وقت ہوئی، یعنی پیدائش کے لحاظ سے پیارے رسول کی تاریخ، دن اور وقت کے لحاظ سے اتباع نصیب ہوئی، پھلت اس حقیر کا جائے پیدائش ہے، جسے مولانا مناظر احسن گیلانی نے ہندوستان کا’’البدو‘‘کہا ہے، یہ پھلت ایسی بستی ہے، کہ جس کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ۸۶۲ھ میں عارف ربانی حضرت قاضی یوسف ناصحیؒ (شیخ و استاذ و مربی بادشاہ سکندر لودھی، و مرشد شاہ بہلول لودھی ) نے ایک ببول کے پیڑ کے نیچے دو رکعت نفل پڑھ کر اپنے شاگردوں کے درس سے اس کی اساس رکھی، اور ۸۶۲ھ سے آج تک وہ درس کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے، جو ایک ادارہ بن کر اب مرشدی وسیدی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نوراللہ مرقدہ کے حکم سے جامعہ امام ولی اللہ کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے، جس کو نہ صرف حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہؒ کا معنوی مادر علمی ہونے کا شرف حاصل ہے، بلکہ اس درس کے تواتر تاریخی سے استفادہ کرنے والوں میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ، ان کے شیخ و مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ، مشہور محدث شیخ علی متقی برہان پوریؒ(جو پوتے ہیں قاضی یوسف ناصحیؒ کے )شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، شاہ ولی اللہؒ کے والد ماجد شاہ عبد الرحیم، اور داداشیخ وجیہ الدین شہیدؒ (جو اپنے شیخ و مرشد شاہ ابو الفتحؒ، خلیفہ و جانشین حضرت نظام نارنولویؒسے تعلق اور آپ کی ایما پر رہتک سے ہجرت کر کے پھلت آ کر رہنے لگے تھے )جیسے علماء کرام اور مقتدایان زمانہ شامل ہیں،
اس بستی کو امیر المومنین حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا مرکز آغاز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اس بستی کے
صدیقی شیوخ کے خاندان( جو قاضی یوسف ناصحیؒ کی اولاد ہے، اور جسے شاہ ولی اللہؒ کے نانیہالی اندان ہو نے کا شرف حاصل ہے )سے بدنام کرنے کے لئے اس حقیر کا نسبی تعلق ہے۔
والد ماجد جناب حاجی محمد امین صاحبؒ تھے، جو ابتدا میں حضرت شیخ بہاء الدین چنڈیرویؒ سے بچپن میں دادا کے ساتھ جا کر بیعت ہو گئے تھے جو حضرت سید احمد شہیدؒ کے سلسلہ کے بزرگوں میں سے تھے، اور بعد میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ سے بیعت ہوئے، حضرت تھانویؒ سے فکری مناسبت رکھتے تھے، حضرت مولانا اسعد اللہؒ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور حضرت مولا ناقاری محمد طیبؒ سے بہت بے تکلفی کا تعلق تھا، علاقہ کے مشہور زمین داروں میں ان کا شمار تھا، بہت سادہ زندگی گذارتے تھے، مگر سوچ اور فکر بہت اعلیٰ تھی، کھیتی بھی بہت ہی معیاری کرتے تھے، مغربی یوپی میں سب سے پہلے انگلینڈ سے دو ٹریکٹر ہمارے والد صاحب نے ہی منگوائے تھے، جن کے
ساتھ کئی ماہ تک دو انگریز انجینئر رہنمائی کے لئے ہمارے یہاں رہے تھے، لوگ ان کو میانجی کہتے تھے، غیر مسلم لوگ ان کی سخاوت اور ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے نہ جانے کیا کیا القاب بولتے تھے، معمولات اور اصول کے حد درجہ پابند، زندگی کے آخری ساٹھ سالوں میں شاید تہجد اور معمولات کی کبھی ناغہ نہ ہوئی ہو، انسانوں کے کام آتے، عفو و درگذر اور زندگی کی سادگی کی نہ جانے کتنی حکایات عوام و خواص میں والد صاحبؒ کی مشہور تھیں، معاملات کی صفائی کی وجہ سے بڑے بڑے لوگوں میں بڑی ساکھ تھی، ہمارے دادا حاجی ظہور اللہ صاحب حضرت گنگوہیؒ کے مسترشدین میں بہت زاہدانہ مزاج رکھنے والے صوفی تھے۔
اس حقیر کی والدہ ماجدہ محترمہ زبیدہ خاتون، سادات بارہہ میں سے نصیر پور رتھیڑی ضلع مظفر نگرسے تعلق رکھتی تھیں، وہ والد صاحب کی تیسری اہلیہ تھیں، والد صاحب نے پہلی شادی اپنی بیوہ ممانی سے کی تھی جو عمر میں والد سے بہت بڑی تھیں، ان کے انتقال کے بعد ایک شادی پھلت میں ہوئی، ان کا بھی جلد انتقال ہو گیا، تیسری شادی ہماری والدہ سے ہوئی، جو عمر میں والد صاحب سے کم تھیں، والدہ حد درجہ عالی اخلاق اور غریب پرور مزاج رکھتی تھیں، زندگی بھر :
صَلِّ مَنْ قَطَعْکَ، وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ، وَآتِ عَنْ مَّنْ حَرَمَکَ، وَاَحْسِنْ عَمَّنْ اَسَائَ اِلَیْکَ(حدیث نبوی)
قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ تعلق جوڑو، ظالم کو معاف کر دو، جو تم کو محروم کرے اسے عطا کرو، اور بدسلوکی کرنے والے کے ساتھ احسان کا سلوک کرو، کا بالکل مظہر ان کی زندگی تھی، والدہ ماجدہ اکثر اس حقیر کا شفقت کے ساتھ بھائی بہنوں اور گھر والوں کے سامنے ذکر کرتیں تو بڑا اچھا لگتا، میرے کلیم نے بچپن میں مجھے بالکل پریشان نہیں کیا، یہ بھی اس حقیر پر اللہ کی بڑی نعمت تھی۔مجھ سے دو بڑے بھائی، تین بہنیں، اور ایک بھائی اور دو بہنیں چھوٹی ہیں۔ ابتدائی تعلیم اسی تاریخی مدرسہ میں ہوئی جس پر پھلت کی اساس رکھی گئی، جس کا نام قطب عالم حضرت گنگوہیؒ نے اپنے
ایک مرشد حضرت مولانا فیض احمد پھلتیؒ کے نام پر فیض الاسلام رکھ دیا تھا اور اب جامعہ امام ولی اللہ کے نام سے موسوم ہے، گاندھی جی ۱۹۲۹ء میں یہاں آئے، تو معائنہ میں بڑے اچھے کلمات لکھے، پہلی کلاس میں داخلے کیلئے بھائی صاحب لے کر گئے تو عمر چار سال سے کم تھی، قانون آیا تھا کہ پانچ سال سے کم پہلی کلاس میں داخلہ نہ ہو، تو بھائی صاحب نے ایک سال عمر زیادہ لکھوا کر داخلہ کروایا، قاعدہ اور عم کا پارہ ایک ماہ میں پڑھا، اور پھر قرآن مجید پڑھنے کا شوق ہوا، چار روز میں پورا ناظرہ کلام مجید پڑھا اور پانچویں روز استاذ کو جگہ جگہ سے سنایا اور بتاشے خوشی میں تقسیم ہوئے، پانچویں کلاس میں حفظ شروع کیا، سات پارے حفظ کئے تھے کہ چھٹی کلاس میں کھتولی داخلہ لیا، پکیٹ انٹر کالج میں سائنس سے بارہویں کلاس پاس کی، چھٹی کلاس میں تھا کہ ایک عرب جماعت پھلت آئی، اس کے ساتھ امیر صاحب
کی اجازت سے جو افریقہ کے گجراتی تھے تین دن لگائے، اور پھر تبلیغی جماعت سے فطری مناسبت کی وجہ سے اس میں شامل ہو گیا۔
ہماری والدہ کے شیخ و مرشد اور ہمارے والد صاحب کے دینی مشیر اور دوست، حضرت مولانا علاؤالدین صاحبؒ ایک بزرگ پھلت میں تھے جنھوں نے میرا اور ہمارے سبھی بھائی بہنوں کا نام رکھا، حضرت مولانا ا لیاسؒ نے جب تبلیغ کا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ فرمایا تو تین بار ان سے مشورہ کے لئے پھلت تشریف لائے، حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کے یہاں بھی حضرت مولانا علاؤالدینؒ کی بڑی قدر و منزلت تھی، جن کو علاقہ کے لوگ بڑے مولوی صاحب کہتے تھے، ان کے اکرام میں تبلیغ کے ابتدائی ضابطوں کی وجہ سے جماعت والے پھلت آ کر تشکیل نہیں کرتے تھے، جس کی وجہ سے پھلت والوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ پھلت والوں کو جماعت میں جانے کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے یہاں
جماعت کا کام بالکل نہ کے برابر تھا، اس حقیر کو بہت تکلیف تھی، اس حقیر نے بچوں کی ایک جماعت نائی، اور کام شروع کیا، کبھی ایک دو بوڑھے بھی ہم پر ترس کھا کر گشت وغیرہ کرا دیتے تھے، جماعت کے کام سے دل چسپی کی وجہ سے اس حقیر کی حاضری اسکول میں متاثر ہوتی تھی، جس کی وجہ سے اساتذہ کو شروع میں بدگمانی رہی، مگر الحمد للہ امتحانات کے نمبرات دیکھ کر سارے اساتذہ حد درجہ اعتماد کرنے لگے۔انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد میرٹھ کالج سے بی ایس سی کیا، اور پی ایم ٹی( ایم بی بی ایس کے داخلہ کا جو امتحان اس وقت پورے ملک کا ہو تا تھا ) اس میں بیٹھا، اور الحمد للہ اس میں پورے ملک میں میرا ستاون واں نمبر آیا، بہت سے میڈیکل کالجوں نے مجھے مبارک باد کے خطوط لکھے اور اپنے یہاں
داخلہ کی پیش کش کی، مگر میرے اللہ کو اپنے بندے پر ترس آ رہا تھا، اللہ کے نیک بندوں کی زیارت، اور نیک بندوں سے خاندانی تعلق، خصوصاً والدین کی نیکی کام آئی، اس گندے اور گنوار کو میرے کریم اللہ نے شیخ العرب و العجم سیدی وسندی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس اللہ سرہ ونور اللہ مرقدہ کے قدموں میں پہنچا دیا، اس حقیر نے حضرت والا سے تعلق کی برکت سے ندوہ کے خصوصی درجات میں داخلہ بھی لے لیا، ایم بی بی ایس کا ارادہ ترک کر دیا، شروع میں گھر والوں کو بتایا بھی نہیں کہ میں نے پی ایم ٹی کوالیفائی کر لیا ہے، بعد میں بھائیوں کو معلوم ہوا تو ناراض بھی ہوئے کہ ہمیں ایسا دنیا دار سمجھا، ہم تو خود بھی خوش ہوتے کہ دین کا انتخاب کیا، میرے حضرت والا نے حضرت مولانا عارف
سنبھلیؒ، حضرت مولانا شہباز اصلاحی کو اس حقیر کے لئے خصوصی طور پر نظر عنایت رکھنے کا حکم فرمایا جو ندوۃ العلماء کی مسجد میں اس حقیر کو خاص وقت دیتے تھے، ندوہ میں رہ کر اس حقیر نے بس ندوہ کی روٹیاں کھائیں اور مظفر نگر کا ایک دیہاتی گنوار کر بھی کیا سکتا تھا، بہر حال کچھ حالات رہے، حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ نے ہریانہ کے ارتداد سے متاثرہ علاقہ میں کام کے لئے بھیج دیا اور یہ حقیر ندوہ میں رہ کر نصاب کی تکمیل سے محروم واپس لوٹا، لوگ مولانا کہنے لگے، شروع میں لوگوں کو منع کرتا رہا، مگر بعد میں بے حس ہو کر عادت ہو گئی۔
سوال :آپ ایک بار حضرت مولانا کے مولوی کہنے کا واقعہ بیان فرما رہے تھے وہ کیا تھا؟
جواب : پھلت میں تھا تو محلہ کے لوگ خصوصاً کھیتی کرنے والے ملازم سب بھائی صاحب کہتے تھے، ندوہ میں داخلہ سے پہلے ایک بار تکیہ شاہ علم اللہؒ اپنے حضرت والا کی خدمت میں تھا، مسجد سے بنگلہ آیا، حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ تشریف فرما تھے، فرمایا آئیے مولوی کلیم صدیقی صاحب، واپس پھلت آیا جو ملتا وہی کہتا، مولانا صاحب، مولوی صاحب، شروع شروع میں بہت شرمندگی ہوئی، منع کرتا رہا مگر کب تک، آخر ہار مان لی، میرے حضرت والا کی زبان مبارک سے نکلا ہوا لفظ اللہ نے سب کی زبانوں پر جاری کر دیا۔
سوال :آپ کی شادی کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے، کس طرح ہوئی تھی؟
جواب :۱۹۸۰میں حضرت والا کی عنایت سے شاہی دعوت کے ساتھ اس حقیر کو حرمین شریفین حج بیت اللہ کے لئے حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، ۱۳/ روز میں واپسی ہو گئی، شاہ خالد سعودی عرب کے فرمانروا تھے، انھوں نے بڑا اکرام فرمایا، اس حقیر نے شکریہ کا خط لکھا، جلدی واپسی پر اظہار افسوس بھی کیا، اس پر انھوں نے اس حقیر کے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کا نظم کر دیا، بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ وہاں کے شاہی خاندان میں شادی کی بھی کسی نے خواہش کی، اس دوران میوات کی ایک جماعت جو اپنے امیر کے علیل ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھی اس کو لے جا کر چلہ پورا کروانے کے لئے یہ حقیر جھنجھانہ گیا، اور وہاں بس شادی کا پروگرام بن گیا، ایک دین دار خاندان کے مسائل کا ایک
عزیزہ نے ذکر کیا، اس حقیر نے کسی کے کام آنے کی نیت سے ارادہ کر لیا، اور الحمد للہ نہایت سادگی سے شادی ہو گئی، محض اللہ کے لئے کسی کام کا اس عاجز بندہ نے ارادہ کیا کریم آقا نے اس لائن کی ہر نعمت سے نوازا، الحمد للہ ایک پاکیزہ صفت مثالی حافظہ، ماہر قاریہ، اور حفظ کی مثالی استادکو گھر کے کونے کونے اور خاندان کے بچے تک قرآن کے شوق و برکات پیدا ہونے کا اللہ نے ذریعہ بنایا، جو دینی اور دعوتی کاموں میں اللہ کا اس حقیر پر کتنا بڑا احسان ہے۔فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِکْ۔
سوال :آپ نے ایک دو بار حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کاندھلویؒ سے تعلق اور ان کی خدمت میں حاضری کا ذکر فرمایا ہے، کچھ اس کی تفصیل بھی ارشاد ہو؟
جواب : بچپن سے خط و کتابت کا بہت شوق تھا، بلکہ اگر میں کہوں کہ اللہ تعالی نے ساری دنیا کی چیزوں میں لگا کر اور ان سے نکال کر اپنے نیک بندوں کے قدموں میں لا ڈالا، تو یہ بالکل سچ ہے، شروع میں مشاعروں کو سننے کا شوق تھا، آواز بہت اچھی تھی، پچاس سے زیادہ شعراء کے کلام ان کی آواز اور لہجہ میں پڑھ لیتا تھا، گھر میں کوئی خاص مہمان آتا، رات کو مجھے اٹھایا جاتا کہ مشاعرہ ہو گا اور میں انور جلال پوری، کنور مہندر سنگھ بیدی وغیرہ کے انداز میں مشاعرہ کی نظامت کرتا اور پھر شعراء کا کلام سناتا، بعد میں شاعری بھی کرنا شروع کر دی، اور افسانے لکھنے شروع کئے، خاتون مشرق، بیسویں صدی میں میرے بہت سے افسانے شائع ہوئے، ڈرامے بھی لکھے، آل انڈیا ریڈیو سے بعض ڈرامے ریلے
ہوئے، گانے بھی گائے، بعض میوزک بھی سرسری کوشش سے آ گئے، ہاتھ سے فوٹو بنانے بھی ذرا سی کوشش سے آ گئے، کئی مقابلوں میں صوبائی انعام بھی ملے، اور علامہ شمس نوید عثمانیؒ کی کتاب’’کیا ہم مسلمان ہیں ؟‘‘ نے بہت متاثر کیا، تو تاریخی واقعات کو افسانوی انداز میں لکھنا شروع کیا، جو خصوصیت سے رام پور کے’’نور‘‘،’’بتول‘‘ اور’’ذکریٰ‘‘رسالوں میں شائع ہوئے، نور میں اس زمانہ میں میرا ایک انٹرویو بھی شائع ہوا تھا بحیثیت قلم کار۔
بزرگوں سے تعلق کا شوق تھا، ایک خط میں نے حضرت شیخ الحدیثؒ کو لکھا، تعارف میں لکھا کہ میری عمر سترہ سال ہے، وغیرہ وغیرہ۔حضرت شیخ الحدیثؒ مدینہ منورہ تشریف لے جا رہے تھے، کسی خادم کو رسید جوابی لکھنے کی ذمہ داری سونپی، تو انھوں نے عمر کا خیال کر کے جوابی خط میں پسند کے مطابق شادی کرنے کا ایک تعویذ بھیج دیا، اس عمر میں بھائی بہنوں میں خط وغیرہ محفوظ کہاں ہوتے ؟ میری چھوٹی بہن زینب نے وہ خط کھولا، بس وہ تو مجھے چمٹ گئی، بھائی میاں آپ کس سے شادی کرنا چاہتے ہے ؟ آپ کو تعویذ کی کیا ضرورت ہے، آپ مجھے بتائیے میں امی سے کہوں گی، مجھے حد درجہ شرمندگی ہوئی، اب صفائی بھی کیسے پیش کرتا، بہت ہی دل ٹوٹا، اور کافی عرصہ تک میں دوبارہ خط لکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
اس کے بعد جب میں میرٹھ کالج سے گریجویشن کر رہا تھا، حضرت شیخ مدینہ منورہ سے سہارن پور تشریف لائے، ہمارے بڑے بہنوئی سید محمد سردار صاحب مرحوم جو بڑے رحم دل اور متواضع آدمی تھے، انھوں نے کہا :کلیم !حضرت شیخ سہارن پور آئے ہوئے ہیں، چلو ملنے چلتے ہیں، میں نے کہا بہت اچھا، میں نے ایک نیا جوڑا بیل باٹم اور نئے فیشن کی شرٹ بنوائی تھی، وہ نئے کپڑے پہنے، اور بھائی صاحب کے ساتھ عصر سے پہلے ہم لوگ سہارن پور پہنچے نماز عصر کے بعد مظاہر علوم کی مسجد قدیم میں عصر کی نماز پڑھی، عصر کے بعد فوراًمجلس ہوئی، سب لوگوں نے جگہ لے لی، اور ہمیں باہر جوتوں کے پاس کھڑے ہونے کی جگہ ملی، کوئی کتاب پڑھی جا رہی تھی، کتاب کے بعد صحن میں ایک صاحب نے اعلان کیا، کہ جانے والے اس وقت مصافحہ ملا لیں اور آنے والے صبح مصافحہ ملائیں گے، بھائی صاحب
مرحوم پر حد درجہ تواضع کا غلبہ تھا، وہ بولے میں گناہگار کہاں ایسے بزرگ سے مصافحہ ملانے کے لائق ہوں بس میں تو یہیں سے زیارت کر لوں گا، تم جاؤ مصافحہ ملالو، میں نے بھائی صاحب سے کہا کہ میں جانے والوں میں بھی مصافحہ ملاؤں گا اور آنے والوں میں بھی، لائن لگ گئی، جب میرا نمبر حضرت شیخ سے مصافحہ ملانے کا آیا تو حضرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہت محبت سے دبایا اور ذرا ہنس کر کڑک آواز میں فرمایا، آ پیارے آج تجھ سے میں مصافحہ ملانے بیٹھا ہوں تو آنے والوں میں بھی ملا لے اور جانے والوں میں بھی ملا لے، بس آج پیٹ بھر کے مصافحہ ملا لے، یہ فرماتے رہے اور مسکراتے رہے، دیر تک میرا ہاتھ دباتے رہے، لائن تقریباً پانچ منٹ یا اس سے بھی زیادہ رکی رہی، مولانا نصیر صاحبؒ جن کو بعد میں میں نے جانا وہ میرا ہاتھ چھڑوانے کے لئے سفارش سی فرماتے رہے، مجھے ان کی سفارش اچھی نہیں لگ رہی تھی، کہ جتنی دیر مصافحہ ملتا رہے اچھا ہے۔
سوال :حضرت شیخ ؒکا آپ سے یہ کہنا کہ آنے والوں میں بھی اور جانے والوں میں بھی مصافحہ ملاؤں گا، کیا انھوں نے سن لیا تھا؟
جواب :اس وقت تو مجھے ایسا لگا تھا کہ سن لیا، مگر اب سوچتا ہوں کہ اتنی دور سے سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حضرت کو کشف وغیرہ ہوا ہو گا۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب :کچھ دیر کے بعد حضرت نے ہاتھ چھوڑ دیا، اس مصافحہ کی لذت آج تک محسوس کرتا ہوں، عشاء کی نماز کے کچھ دیر بعد بھائی صاحب مرحوم فرمانے لگے، اس وقت کھتولی کے لئے ٹرین ہے، حضرت کی زیارت بھی ہو گئی اور ہمارا مصافحہ بھی، اس لئے چلیں بس ابھی چلتے ہیں، صبح کی ٹرین میں بہت بھیڑ ہوتی ہے، اور ہم چلے آئے، اس کے بعد ایک دو خط میں نے لکھے، جن کا جواب آیا، اس دوران میرٹھ کے ایک قاری صاحب جو پھلت کے رہنے والے تھے، اپنےمقتدیوں اور میرٹھ کے معزز لوگوں کے ساتھ ایک بس میں سہارن پور پہنچے، پھلت سے حضرت کو والہانہ تعلق تھا، پھلت والوں کو فوراً ملاقات کے لئے بلا لیتے، اس لئے فوراً بلا لیا، حضرت شیخ نے ان سے فرمایا، کہ پھلت میں تو ہمارا ایک دوست رہتا ہے، انھوں نے معلوم کیا حضرت میں تو ایک زمانے سے میرٹھ میں رہتا ہوں، پھلت میں کون ہے ؟ حضرت نے
فرمایا کلیم !! وہ میرٹھ واپس آ گئے، تو بڑے بھائی محمد علیم صدیقی ایڈوکیٹ جو اس وقت وکالت کرتے تھے، ان سے معلوم کیا، کہ پھلت میں کلیم صاحب کون صاحب ہیں، حضرت شیخ ان کا ذکر کر رہے تھے، بھائی صاحب نے بتایا کہ پھلت میں تو کلیم میرا چھوٹا بھائی ہے جو میرٹھ پڑھنے آتا تھا، انھوں نے کہا وہ لڑکا نہیں کوئی بزرگ آدمی حضرت فرما رہے تھے کہ پھلت میں ہمارا ایک دوست رہتا ہے، حضرت شیخ کے اس مشفقانہ مصافحہ کویہ حقیر اپنی زندگی کے موڑ کا باعث سمجھتا ہے، ہمارے یہاں پھلت میں ایک صاحب حافظ عبد اللطیف قاسم پوری مدرسہ میں پڑھاتے تھے، وہ حضرت شیخ سے بہت نو عمری کے زمانے میں بیعت ہوئے تھے، جب حضرت کے یہاں بھیڑ وغیرہ نہیں ہوتی تھی، انھوں نے مدینہ منورہ
حضرت شیخ کو خط لکھا، تو جواب میں حضرت شیخ نے ان کو لکھا کہ پھلت میں ہمارا ایک دوست رہتا ہے اس کے پاس ملنے جایا کرو، انھوں نے جواب لکھا پھلت میں تو کلیم نام کا ایک لڑکا رہتا ہے جو کالج میں پڑھتا ہے، حضرت نے پھر اس حقیر سے تعلق کا حکم فرمایا، اس حقیر کو حیرت ہے کہ اس زمانہ میں حقہ اور بیڑی کی بو سے اس حقیر کو حد درجہ متلی آتی تھی، حافظ صاحب نے مجھے خط دکھایا، حضرت نے لکھا تھا کہ اس کو حقہ اور بیڑی کی بو سے بہت تکلیف ہو تی ہے اس کا خیال رکھنا، حافظ صاحب بیڑی اور حقہ کا بہت شوق رکھتے تھے۔
بعد میں شیخ سے تعلق بڑھتا گیا، اس کے بعد مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحبؒ اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحبؒ ناظم مدرسہ مظاہر علوم کی خدمت میں جاتا رہا، اور خط و کتابت بھی ہو نے لگی، حضرت شیخ الحدیثؒ کے یہاں حاضری ہوتی تو شروع میں حضرت لوگوں سے تعارف کراتے، یہ حقیر نفسیاتی طور پر کم زور ایک طرح سے احساس کمتری کا شکار رہا ہے، حضرت کے اس طرح نوازنے سے بہت ہی بوجھ سا پڑھتا تھا، حضرت سے میں نے عرض بھی کیا کہ حضرت حاضری کو دل چاہتا ہے مگر لوگ انگلیاں سی اٹھاتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔اگر زیارت اور لائن میں لگ کر مصافحہ ملانے پر اکتفا ہو جائے تو بار بار حاضری کی ہمت ہو سکتی ہے، حضرت نے منظور فرما لیا، مگر ایک بار
فرمایا:کہ پیارے کام آتا، یہ تعارف کام آتا۔
سوال :حضرت مولانا سے بیعت کا تعلق کس طرح ہوا؟
جواب :یہ حقیر حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی کتابیں پڑھتا تھا، ہمارے چھوٹے بہنوئی سید سعید اختر صاحب نے ایک صاحب سے ایک گھریلو لائبریری خریدی تھی، اس میں حضرت مولانا کی کتابیں ملیں، تاریخ دعوت و عزیمت، سیرت سید احمد شہید، تقویت الایمان، تذکرہ شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی وغیرہ۔۔۔، مگر بحیثیت بزرگ ہمارے علاقہ میں حضرت مولانا کا تعارف نہیں تھا، پھلت حضرت سید احمد شہیدؒ کے واقعات تو گھروں میں بوڑھی عورتیں بچوں کو بطور تبرک سناتی تھیں، ایک روز ایک واقعہ سے دل بہت شکستہ تھا، ’’نقوش اقبال‘‘ زیر مطالعہ تھی، ’’اقبال درِ دولت پر‘‘ عنوان کے تحت اقبال کی روضہ اطہر پر دردمندانہ گذارشات اور حضرت مولانا کی دل کی زبان سے اس حقیر کا عجیب حال ہو گیا، اور ایسا لگا یہ حقیر بھی سب کے ساتھ حاضر ہے، اس زمانہ میں حضور ﷺ کی زیارت کا شوق حد درجہ غالب تھا، نہ جانے کتنے نسخے اس کے لئے استعمال کئے، پیاس بڑھتی گئی، میرے کریم اللہ کو پیار آیا، اتنے بزرگوں سے تعارف اور قریبی تعلق کے باوجود میرے اللہ نے اس حقیر کو حضرت مولانا کے قدموں میں لے جا ڈالا۔
سوال :یہ بات بڑی حیرت کی ہے کہ یہاں ایسی ایسی بڑی شخصیات علاقہ میں موجود تھیں، سب سے تعلق وتعارف بھی تھا، اور حضرت مولانا کا تعارف بھی نہیں تھا، پھرآپ وہاں کیسے پہنچے ؟
جواب :اصل میں ایک خواب میں حضرت مولانا علی میاںؒ کا شہد چاٹنے کا حکم ہمارے نبی ﷺ کی طرف سے ملا، میں حضرت مولانا کو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے نام سے جانتا تھا، مولانا علی میاں کون ہیں، اس کے لئے ہفتوں تڑپتا رہا، بعد میں نعیم بھائی نے بتایا کہ وہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی جن کی کتابیں ہیں مولانا علی میاں ہیں، تو حضرت مولانا کو عریضہ لکھا، حضرت نے بڑی شفقت سے جواب تحریر فرمایا، جواب میں یہ شعر بھی لکھا:
بہر تسکیں دل نے رکھ لی ہے غنیمت جان کر
جو بوقت ناز کچھ جنبش ترے ابرو میں تھی
اور کرایہ کے لئے منی آرڈر بھیجا، الحمد للہ تکیہ میں حاضری اس وقت ہوئی جس روز اندرا گاندھی حضرت سے ملنے کے لئے تکیہ آئی تھیں، بنگلہ کے باہر گاڑیاں ہی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں، حضرت نے تعارف کے بعد گلے لگایا، اور پھر زندگی بھر اس گنوا رکو قدموں سے چمٹا لیا، میں سوچتاہوں سارے بزرگوں کی عقیدت دل میں ہے، حضرت مفتی محمود صاحبؒ، حضرت مولانا ابرارالحق صاحبؒ، حضرت قاری صدیق احمد صاحبؒ، حضرت مولانا عبد الحلیم جون پوریؒ، حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ، حضرت مولانا افتخارالحسن کاندھلوی مدظلہ العالی، حضرت مولانا مکرم حسین سنسارپوری مدظلہ العالی وغیرہ سبھی بزرگوں سے عقیدت کا، خاص حد تک حاضری، مکاتبت کا تعلق رہا، مگر میرے اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ
اپنی طرف سے اتری ہوئی بندوں کی ہدایت کو اس سیاہ کار کے حصہ میں کچھ دینا تھا، اس لئے حضرت مولانا کے قدموں سے وابستہ فرما دیا، کیسی مبارک گھڑی تھی، جب میرے اللہ نے ایک نا اہل بندے پر کرم فرمایا۔
سوال :حضرت مولانا سے آپ بیعت کس سن میں ہوئے اور اجازت کب عطا فرمائی؟اور حضرت شیخ سے بھی بیعت کے لئے آپ نے درخواست کی تھی، حضرت نے اجازت دی، اس کا واقعہ کیا ہے ؟
جواب :اصل میں اجازت بزرگوں کی طرف سے تین طرح کی ہو تی ہے، ایک تو کسی پر اعتماد کر کے، اس کو اہل سمجھ کر بندگانِ خدا کی اصلاح و تربیت کے لئے اجازت ہو تی ہے، یہ اجازت اصل ہے، یہ تو بہت خاص اور اہل لوگوں کو ملتی ہے، دوسری کسی خاص علاقہ کی پس ماندگی دیکھ کر اس علاقہ میں کام کرنے کے لئے، نسبتاً دین سے جڑے کسی آدمی کو شیخ اجازت دے کر دعوت و اصلاح کے لئے لگا دیتے ہیں، اور تیسری اجازت ہوتی ہے ہم جیسے لوگوں کی، کہ اجازت کے نام پر گناہوں سے بچا رہے گا، چلو اپنے کو مجاز و خلیفہ سمجھ کر ہی برائی سے بچ جائے گا، آپ نے سنا ہو گا حضرت گنگوہیؒ نے ایک بنگالی کو حدیث کی سند دی، سند عربی میں لکھ کر دی، اس میں اس کے نام کے ساتھ بنگالی کو
عربی میں بنجالی لکھا، بنجالی بنگالی میں کوئی گالی ہو تی ہے، اس کے ساتھی نے طالب علمانہ شرارت میں اسے بتایا کہ حضرت نے تجھے گالی لکھی ہے، وہ طالب علم حضرت پر بہت ناراض ہوا، آپ نے ہمیں گالی لکھ دی، حضرت نے اسے سمجھایا کہ عربی میں بنگالی لکھا ہے، وہ چلا گیا تو حضرت مولانا یحییٰؒ نے عرض کیا کہ ایسے بے وقوف کو محدث ہونے کی سند آپ نے عنایت فرما دی، حضرت نے فرمایا یہ خود کو مولوی سمجھ کر مسجد میں پڑا رہے گا، ورنہ چور ڈاکو بن کر دین والوں کو بدنام کرتا، بس میرے حضرت نے بھی شاید اسی لئے حکم فرما دیا تھا، کہ کچھ تو اس نسبت کی لاج رکھے گا۔
سوال :پھر بھی، آپ نے شیخ الحدیثؒ سے بھی بیعت کی درخواست کی تھی؟
جواب :بات اصل میں یہ ہے کہ وہ خواب دیکھ کر میں بہت بے چین تھا، میں جلال آباد حضرت کے یہاں مجلس میں جایا کرتا تھا میں نے جا کر پہلے حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحبؒ سے بیعت کی درخواست کی تھی، حضرت نے فرمایا، کہ بیعت آپ حضرت مولانا علی میاں سے ہونا، جلال آباد سے خیال ہوا کہ حضرت شیخ الحدیثؒ مدینہ منورہ جانے والے ہیں، چلوسہارن پور حضرت کی خدمت میں چلیں، جس وقت ہم پہنچے ملاقاتیں بند ہو چکی تھیں، خدام نے ملاقات سے منع کر دیا، اس حقیر نے کم ظرفی میں اپنا حق جتایا کہ حضرت سے کہہ تو دو کہ پھلت سے کلیم آیا ہے، حضرت شیخ نے گھر میں بلایا، بڑی شفقت سے چھیل کر کیلا اپنے دست مبارک سے مجھے دیا، میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھے بیعت کر لیجئے، حضرت نے فرمایا پیارے بیعت تو تم مولانا علی میاں سے ہونا اور اجازت میں دیتا ہوں، حضرت مولانا
محمد ثانی حسنیؒ حضرت کے پاس تشریف رکھتے تھے، حضرت نے فرمایا دیکھو ثانی کوئی بیعت ہونا چاہے تو کلیم سے بیعت ہو جائے، یہ حقیر پہلے ہی احساس کم تری میں تھا، خیال ہوا کہ بیعت کو کہنے کا کوئی ادب ہو گا، کوئی خاص طریقہ ہو گا، میرے گنوار پن پر حضرت میرا مذاق اڑا رہے ہیں، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، حضرت جب ہمیں آداب آتے نہیں تو آپ سے کس طرح کہیں ؟حضرت نے فرمایا نہیں پیارے تمھارے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں، بیعت تم علی میاں سے ہونا، اجازت میں دیتا ہوں۔
سوال :کیا آپ نے انھیں اپنا خواب سنا دیا تھا، ؟
جواب :نہیں، یہ ہی تو حیرت ہوئی کہ دونوں بزرگوں نے کہاں سے یہ بات کہی کہ بیعت تو تم مولانا علی میاں سے ہونا۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب :یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے، اس کے بعد ماموں سید محمد عارف مجھے حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کی خدمت میں لے گئے، حضرت سے بہت ہی مبارک یادگار ملاقات ہوئی، اس ملاقات کی بعض باتوں کی برکات یہ حقیر پوری زندگی میں محسوس کرتا ہے اور حیرت کرتا ہے۔
سوال :اس کے بعد حضرت مولانا کی خدمت میں بیعت وغیرہ کس طرح ہوئے ؟
جواب :میں تکیہ حاضر ہوا، حضرت والا نے بہت شفقت سے ملاقات فرمائی، حضرت مولانا محمد ثانی صاحب سے تعارف کرایا یہ ہیں کلیم میاں، جن کا ہم ذکر کر رہے تھے، حضرت مولانا ثانی صاحب نے حضرت سے بتایا کہ ان سے ابھی چند روز پہلے حضرت شیخ کے یہاں ملاقات ہو چکی ہے، اور مجھ سے فرمایا کہ آپ ہی تھے وہ جن کو کچے گھر میں حضرت نے بلایا تھا، میں نے سر ہلایا، حضرت والا سے بیعت کی درخواست کی، حضرت نے تکیہ کی مسجد میں بیعت فرما لیا، عصر کے بعد مجلس میں بڑی امید افزا باتیں فرمائیں، اور فرمایا کہ اللہ کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں، بس اللہ نے نبوت کا دروازہ بھی حکمتاً بند کیا ہے، ورنہ قطبیت، ولایت، معرفت اور محبوبیت کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا، بس
بندہ اس کے لئے کوشش کرے اور اللہ کے حضور مجسم سوال بنا رہے، اور یہ آیت شریفہ پڑھی:
وَمَاکَانَ عَطَآئَ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔اور اس کا ترجمہ حضرت نے فرمایا، کہ آپ کے رب کی عطا میں کوئی راشننگ نہیں ہے، اس کے بعد ندوہ میں داخلہ ہو گیا، گنوار دیہاتی تھا کچھ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، خصوصاً اکابرین دیوبند اور خانوادہ ولی اللہی کے حالات خوب پڑھے تھے یاد اشت اچھی تھی، حضرت والا کچھ فرماتے تھے، ہر بات میں میں بولتا تھا، لوگ دیکھتے کہ کون بد تمیز لڑکا ہے کہ ہر بات میں لقمہ دیتا ہے مگر اپنے حضرت والا کی شفقت کے قربان کبھی نہ خاموش کرتے، نہ ٹوکتے بلکہ حوصلہ افزائی فرماتے، بعض جملے جو اپنے تجاہل میں اپنے کو جاننے والا سمجھ کراس حقیر نے حضرت
کے سامنے کہے تو یاد کر کے کہیں منھ چھپانے کو دل چاہتا ہے، بعد میں حضرت والا کے قدموں میں رہ کر حضرت والا کا کچھ تعارف سا ہوا، تو یہ حال ہو گیا کہ ہفتوں ہفتوں حاضری رہتی مگر دو سلاموں کے علاوہ جو حاضری اور رخصتی کے وقت ہوتے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہو تی تھی۔
سوال :حضرت نے آپ کو اجازت کب دی؟
جواب :بار بار اجازت کا ذکر ہی شرمندگی کا باعث ہے، اصل میں مارچ کی ۲۷/ تاریخ میں حضرت سے بیعت ہوا اور اسی سال ۱۲/ اگست کو حضرت والا نے مسجدمیں نماز فجر سے پہلے طلب فرمایا اور فرمایا کہ اللہ کے بھروسہ پر تم سے ایک بات کہتے ہیں، کوئی اللہ کا بندہ تم سے ہمارے سلسلہ میں بیعت کے لئے کہے تو بیعت کر لیا کرو، ہم تمھیں اجازت دیتے ہیں۔
یہ حقیر بڑے ارمانوں سے بیعت ہوا تھا خیال تھا کہ اس طرح نیک ہو جائے گا، صحابہ کی سی نمازیں جس طرح سید احمد شہیدؒ سے تعلق کے بعد لوگوں کو نصیب ہوئی تھیں ہمیں بھی پڑھنا آ جائے گی، رذائل سے پاک ہو جائیں گے، حضرت کے اس فرمانے سے بجلی سی گری، اور دل میں خیال آیا، جس طرح کسی لا علاج مریض سے مایوس ہو کر ڈاکٹر یہ کہہ دیتا ہے کہ اب آپ آزاد ہو سب کچھ کھاؤ علاج کی ضرورت نہیں، اس طرح حضرت نے مایوس ہو کرکیس ریفر کر دیا ہے، بہت صدمہ ہوا اور میں حضرت کے قدموں سے چمٹ گیا اور خوب رویا، حضرت ایسے مت فرمائیے، حضرت ایسے مت فرمائیے، یہاں سے مایوس جاؤں گا تو کہاں میری اصلاح ہو سکتی ہے، حضرت والا نے تسلی دی، مگر وہ گھڑیاں مجھ پر
بہت سخت گذریں، تین روز تکیہ پر رہا، طرح طرح کے خیال ذہن میں آتے رہے، حضرت والا کو احساس ہو گیا، حضرت نے فرمایا کہ حضرت مولانا محمد احمد کے پاس جاتے ہو، میں نے کہا حضرت جاتا تو ہوں، حضرت نے فرمایا جانا چاہیئے ہمارے بزرگ ہیں، میں نے اپنے حال کو بے تکلف عرض کرنے کی نیت سے الٰہ آباد کا سفر کیا، کہ حضرت سے حضرت والا کے لئے ایک سفارشی خط لکھوا لاؤں گا، حضرت الٰہ آباد میں نہیں تھے، پرتاپ گڑھ میں تھے، پرتاب گڑھ گیا، وہاں سے بھی دو روز پہلے جا چکے تھے، رانی گنج ایک قصبہ ہے، وہاں کی خبر تھی، وہاں سے بھی اپنے اصل وطن ایک روز پہلے پھول پور جا چکے تھے، مغرب کے بعد کا وقت، برسات کا موسم، سواری کا کوئی نظم نہیں۔۔۔۔۔۔مگر قدم یہ خود نہیں اٹھتے اٹھائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ پیدل پگڈنڈیوں سے ہوتا ہوا عشاء کے وقت پھول پور پہنچا، حضرت ضعف اور
علالت کی وجہ سے گھر پر نماز پڑھ رہے تھے، مسجد میں موذن سے معلوم کر کے حضرت کے گھر پر پہنچا، حضرت کو جیسے پہلے سے خبر ہو، حضرت اس طرح الٰہ آباد، پرتاپ گڑھ، رانی گنج اور پیدل پھول پور کے سفر سے بہت خوش ہوئے، بعد میں خطوط میں بھی اس کا محبت اور بڑی شفقت سے ذکر فرمایا، اور کس قدر عنایت اور کرم کا معاملہ فرمایا بس بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔تکیہ اور حضرت مولاناؒ کا نام ہی حضرت کے لئے مزے کی چیز تھا، پھر گرمی میں ذرا مشقت کے سفر نے اور بھی حضرت پر مامتا غالب کر دی، کھانے اور نماز وغیرہ کے بعد جلدی حضرت نے آرام کا حکم دیا، اور صبح بات کرنے کو کہا۔
سوال :اس سفر میں حضرت نے بھی آپ کو اجازت دی تھی؟
جواب :بس اجازت کیا میں عرض کر رہا ہوں، چھپر کا حضرت کا گھر تھا، اس میں بہت سادہ سا تخت پڑا تھا، میں نے حضرت سے اپنی بیعت کی تفصیل عرض کی، اور بتایا کہ اصلاح کی بڑی امید سے حضرت سے وابستہ ہوا تھا مگر حضرت نے مایوس ہو کر مسجد میں بلا کر یہ بات فرمائی، حضرت مولانا محمد احمدؒ نے فرمایا بزرگوں کے فیصلے تائید غیبی کے ساتھ ہو تے ہیں، پھر فرمایا حضرت علی میاں کو لوگ جانتے نہیں ہیں، کچھ دیر بعد فرمایا اپنے محبوب کو سب چھپاتے ہیں، علی میاں کو ان کے علم کے پردہ میں چھپایا گیا ہے، کچھ توقف کے بعد فرمایا اگر وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیں تو پیروں کو مرید نہ ملیں، اس حقیر نے اپنے حال اور مایوسی کا ذکر کیا تو فرمایا کہ ’اچھا کتنی گواہی کسی سلسلہ میں معتبر ہو تی ہیں، میں نے عرض کیا عام حالات میں دو، اور بعض حالات میں چار، حضرت نے فرمایا میری رائے معتبر ہے
؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت اگر آپ کی رائے معتبر نہیں تو پھر کسی کی گواہی معتبر نہیں، حضرت نے فرمایا میںبھی آپ کو اجازت دیتا ہوں، کوئی اللہ کا بندہ آپ کے یہاں آئے تو ہمارے سلسلہ میں بیعت کر لیا کرو، حضرت سے یہ بات سن کر یہ حقیر حد درجہ مایوس ہوا، پھلت تک نہ جانے کیا خیال آتے رہے، عمر میاں انسان اپنے معیار سے سوچتا ہے، چھوٹا آدمی سوچ بھی چھوٹی ہو تی ہے، بار بار یہ خیال آتا، ہمارے علاقہ میں ہمارے حضرت کا تعارف بھی بہت کم ہے، اگر لوگوں کو معلوم ہو گا کہ کلیم حضرت مولانا کا مجاز ہے، تو لوگوں کے دلوں میں میرے حضرت کی کیسی قدر گھٹے گی، کہ مولانا علی میاں کے خلیفہ ایسے ہوتے ہیں، بہت سوچا تو پھر پروگرام بنایا کہ حاجی عبد الرزاق صاحب اور شرافت خاں صاحب کے علاوہ توکسی کو خبر نہیں، ان دونوں کے پاؤں پکڑ کر عہد کرالوں گا کہ کسی کو خبر نہ کریں، کم
از کم ہمارے حضرت تو بدنامی سے بچ جائیں گے، اس طرح کے احساسات کے ساتھ پھلت پہنچا، بڑی باجی جنھوں نے مجھے پالا ہے، عشاء کے بعد میرے پاس آئیں اور بولیں، کلیم میں مرید ہونا چاہتی ہوں، میں نے کہا باجی آپ حضرت کی خدمت میں خط لکھ دیں اور خط کے ذریعہ سے بیعت ہو جانا اور پھر کسی وقت تجدید کر لینا، وہ بولیں نہیں، میں تو تم سے مرید ہوں گی، میں نے حیرت بھی کی اور ان کا مذاق سا بنایا کہ بزرگوں سے مرید ہو تے ہیں، کسی کے سامنے مت کہہ دینا لوگ مذاق اڑائیں گے، کلیم کی بہن کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ مرید کس سے ہوا جا تا ہے، وہ ضد کرنے لگیں، مجھے بہت حیرت بھی ہوئی۔ بہت زیادہ پریشان ہوا تو پوری کیفیت اور سفر کی روداد حضرت والا کو لکھی، حضرت کا جواب آیا، جس میں اس شعر کے ساتھ کہ:
داد اور ا قابلیت شرط نیست
بلکہ شرط قابلیت داد او ست
تحریر فرمایا تھا کہ ہم تو اپنے شیخ کے اتباع میں آنے والے لوگوں کو اس لئے بیعت کر لیتے ہیں کہ شاید اس آنے والےکا دست گرفتہ ہونا ہمارے لئے باعث نجات بن جائے۔تم بھی اس خیال کے ساتھ بیعت کر لیا کرو، کچھ تو اطمینان ہوا، مگر درمیان میں وساوس آتے رہے، کوئی صاحب مدینہ منورہ جا رہے تھے تو حضرت شیح الحدیثؒ کو مفصل خط لکھا اور اپنی بد حالی کے لئے دعا کی درخواست کی، تو حضرت نے جواب لکھا کہ یہ ناکارہ تو پہلے ہی تمھیں اجازت دے چکا ہے، شاید تمھیں اپنے حال کی وجہ سے یہ پریشانی ہو رہی ہے، اس کے لئے یہ سمجھنا کافی ہے کہ یہ طب کی سند ہے نہ
کہ صحت کی، اپنا بھی علاج کرو دوسروں کا بھی، حضرت کے اس جملہ سے بہت اطمینان ہوا، پھر جب بہت سے منکرات سے اس اجازت کی لاج سے رکنے کی توفیق ہوئی تو سمجھ میں آیا کہ اس اجازت میں کیا مصلحت تھی، اور یہ اجازت گناہ سے بچانے کے لئے تیسرے درجہ کی اجازت ہی ہو گی۔
سوال : اس کے علاوہ مدینہ اور شام کے دو مشائخ نے جو آپ کو اجازت دی ہے، وہ کون ہیں ؟
جواب :بھائی یہ بات ہوئی تھی کہ دعوت کے سلسلہ میں باتیں ہوں گی، یہ اجازت اجازت کب تک رٹ لگاؤ گے۔
سوال :غلط معلومات سے اچھا ہے کہ صحیح معلومات محفوظ ہو جائیں ؟
جواب :اچھا تو یہ تم محفوظ بھی کرو گے۔
سوال :ابھی اپنے پاس محفوظ رہے گی، کسی وقت کام آ جائے گی، وہ دو لوگ کون تھے ؟
جواب : ان میں سے ایک شیخ احمد مجتبیٰ علوی مالکی قادری، جو شیخ علوی مالکی کے عزیز تھے، یہ اصل میں شیخ ابو طاہر کر دی مدنی کے شاگرد و خلیفہ شیخ محسن مقبل علوی، شریک درس حضرت شاہ ولی اللہؒ کی چھٹی پشت میں سلسلہ قادریہ کے بزرگ تھے، جنھوں نے سلسلہ کی اجازت ایک خاندانی عمامہ جس کے بارے میں بہت سی خبریں مشہور ہیں مجھے عنایت فرمایا تھا، وہ عمامہ شیخ علوی مالکی نے اس کی مشہور برکات کی وجہ سے مجھ سے چند روز کے لئے لیا تھا، میں نے مستقل ان کو ہدیہ کر دیا تھا کہ وہ وہی اس کے زیادہ اہل ہیں۔
دوسرے صاحب حزب البحر شیخ ابو الحسن شاذلی کے سلسلہ کی اجازت شامی بزرگ شیخ صالح حمودی شاذلی نے سلسلہ شاذلیہ میں حرم شریف کے رکن یمانی کے سامنے مطاف میں دی تھی، مگر یہ سب وہی تیسرے نمبر کی اجازت و خلافت تھیں۔
سوال :حضرت مولانا سے آپ نے استفادہ کیا اس کے سلسلہ میں کوئی خاص بات فرمائیں ؟
جواب :اس کے لئے محبت اور مناسبت دو چیزیں ضروری ہیں، میرے اللہ نے مجھے دونوں چیزوں سے نوازا، محبت کا تو یہ حال تھا کہ ایک خط میں حضرت کے یہاں لکھ کر رکھ کر آتا، اور پھر آتے ہی خط لکھتا، ۲۳/ سالہ تعلق میں ایک تہائی وقت اس حقیر کا حضرت کی خدمت میں آنے جانے میں ضرور گذرا ہو گا۔چار سو بتیس خطوط حضرت والا کے الحمد للہ میرے پاس ہیں اس کے باوجود بھی یاد میں بے قرار رہتا تھا، مناسبت کا یہ حال تھا کہ حضرت کی طرف سے عام اصول اصلاح کے خلاف مختلف بزرگوں کے یہاں جانے کا حکم ہو تا تھا، کسی بھی اللہ والے کے یہاں حاضر ہوتا تو اس بزرگ کی عقیدت کم ہونے کے بجائے کچھ نہ کچھ بڑھتی تھی، مگر ساتھ ساتھ زبان حال سے یہ کہتا ہو ا نکلتا:
آفاقہا گردیدہ ام، مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
حضرت والا کی صحبت بابرکت سے جو چیز اس حقیر کو ملی وہ اپنی ناکارگی کا احساس، بعض مرتبہ تو حد درجہ یہ احساس مغلوب کر دیتا تھا کہ حضرت والا اکثر خطوط میں تحریر فرماتے، زبانی بھی فرماتے، تمھارے حالات پڑھ کر اپنے حال پر شرمندگی ہو تی ہے، اللہ نے کیسے احوال سے نوازا ہے، مگر اس طرح کے جملوں کو پڑھ کر حد درجہ شرمندگی ہوتی، کہ اس مقام اور منصب پر فائز ہو کر یہ شیخ العرب والعجم اپنے کو کیا سمجھتے ہیں اور ہماری کیا حیثیت ہے، اور شرم سے پانی پانی ہو نے کو جی چاہتا، محسنین کے لئے جذبہ احسان مندی سیکھنے کی حسرت بھی دل میں بہت بڑھی۔
سوال :حضرت شیخ نے آپ کو پھلت کے مدرسہ کی خدمت پر بھی لگایا تھا؟
جواب :ہاں اصل میں شیخ الحدیثؒ کو پھلت سے بہت گہرا تعلق تھا، حضرت مولانا احتشام الحسن کاندھلوی کے صاحب زادے حضرت مولانا احترام الحسن پھلت میں رہتے تھے، حضرت بہت خوش تھے، مگر بعض عوارض کی وجہ سے وہ یہاں سے چلے گئے، تو یہ شیخ فرمایا کرتے تھے، احترام تو نے اچھا نہیں کیا، پھلت سے مجھے بڑی امیدیں ہیں، اور بعد میں میری حاضری ہو نا شروع ہوئی، دارالعلوم دیوبند میں صدسالہ کے بعد انتشار ہوا، میں اپنے حضرت والا سے ملنے مجلس شوریٰ کے موقع پر دیوبند حاضر ہوتا تھا، چونکہ اس حقیر کے ذہن میں تھا کہ علماء تو معصوم ہو تے ہیں، انتشار، ایک دوسرے سے اختلاف اور پھر مخالفت کی بات سامنے آتی تو حد درجہ حیرت اور افسوس ہوتا تھا، ان حالات میں اپنے حضرت والا کو ماہی بے آب کی طرح تڑپتا دیکھتا تھا، میں نے ایک مرتبہ شیخ سے عرض کیا، شیخ نے فرمایا کہ جڑ کو
سینچو، میں نے عرض کیا کہ حضرت سمجھ میں نہیں آیا، فرمایا جڑ تو پھلت ہے یہ تو سب شاخیں ہیں، اس طرح کئی بار ہوا، ایک بار حضرت مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھیؒ نے بھی ہدایت فرمائی، اس حقیر نے مدرسہ کے لئے کوشش شروع کی مگر جب دارالعلوم کا انتشار حد درجہ بڑھا تو اس حقیر کو خیال آیا کہ ایسے مخلص اور اولیاء کے قائم کردہ ادارے میں اتنے فتنے ہیں، مجھ جیسا ظاہر و باطن کا کالا کوئی کام کرے گا تو اس میں شر کے علاوہ کچھ ہو گا ہی نہیں، اس لئے شیخ کو مدینہ منورہ فروری میں معذرت کا خط لکھا، شیخ نے فوراً جواب دیا، جس میں یہ بھی لکھا، فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہیں بندہ تو سعی کر کے اجر کا مستحق ہوتا ہے، عمر کی ان آخری گھڑیوں میں جب بالکل پا برکاب ہوں اپنے اکابر بزرگوں کی
محبت دل میں زیادہ ہی ہو تی جا رہی ہے، اور اکابرین پھلت تو گویا اس گروہ کے سر خیل تھے، دلی تمنا ہے کہ قریۃ الصالحین کی علمی مرکز کی حیثیت بحال ہو، اس سلسلہ میں رب کریم سے بڑی امیدیں ہیں۔۔۔۔۔یہ ناکارہ تو یہاں تک سمجھتا ہے کہ اس مبارک بستی کی اس دینی خدمت میں کوئی غیر مسلم بھی سعی کرے گا تو انشاء اللہ محروم نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس خط کے باوجود احساس کم تری کی وجہ سے یہ حقیر ہمت نہ کر سکا لیکن جب اسی سال اپریل میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تواس حقیر کو حد درجہ صدمہ تھا، یاد بہت آتی تھی، حضرت کے خطوط تلاش کئے پڑھے، اور خط کو پڑھ کر بلک گیا اور پھر مدرسے کے لئے کوشش شروع کی، ہمارے حضرت بہت خوش ہوئے، اور بہت ہی حوصلہ
افزائی فرمائی، اور مدرسہ کا نام بھی بدل کر جامعۃ الامام ولی اللہ رکھا گیا، جس کا ایک شعبہ فیض الاسلام کے نام سے حضرت گنگوہیؒ کے نام رکھنے کی وجہ سے باقی رکھا۔
سوال :دعوت کے سلسلہ میں کام کی شروعات کس طرح ہوئی؟پہلے ایک زمانہ تک ارتداد زدہ علاقہ میں آپ نے کام کیا پھرکس طرح عام غیر مسلموں میں آپ نے کام شروع کیا؟
جواب :اب تم صحیح موضوع پر آئے ہو، میرے حضرت والا کو کسی طرح خبر ہوئی کہ سونی پت کے قریب تقسیم ملک اور تبادلہ آبادی کے وقت فسادات سے متاثر ہو کر خاصے لوگ مرتد ہو گئے تھے، حضرت والا نے کام کرنے والوں کا تعاون بھی کیا، اور مجھے حکم فرمایا کہ صحیح صورت حال معلوم کرو، سونی پت ہم سے قریب تھا ہم نے کچھ رفقاء کولے کر سفر کیا، دل و دماغ مندروں اور گرودواروں، اور جانوروں کی رہائش گاہوں میں بدلی ہوئی مسجدوں کو دیکھ کر نیم پاگل ہو گیا، حضرت سے صورت حال عرض کی، حضرت نے کام کا حکم فرمایا، دوسال تک ہم لوگ سروے کرتے رہے اور کوشش کرتے رہے، ۹۰ء میں ایڈوانی جی کی رتھ یاترا کے دوران ہمارے دو ساتھی ماسٹر ضیاء الدین بجنوری اور حافظ نسیم
دیناج پوری کو علاقہ کے ایک بڑے ڈاکوؤں کے سردار نے ایک مسجد میں شہید کر دیا، اور دریا میں ڈال دیا، بعد میں ان چار قاتلوں میں سے تین لوگ گویا خواب میں جناب ضیاء الدین کی دعوت پر مشرف باسلام ہوئے، ان دونوں کی شہادت کے بعد الحمد للہ ارتداد سے متاثر علاقہ میں فتوحات کے دروازے کھلے، میرے حضرت والا اس علاقہ میں کام کی بڑی حوصلہ افزائی فرماتے، دو مرتبہ فرمایا کہ سونی پت میں جنت اور اللہ کی رضا بڑے سستے داموں مل رہی ہے، بے حد دعائیں فرماتے، اللہ نے ہریانہ پھر پنجاب، راجستھان، متھرا، آگرہ، دہلی اور ہماچل وغیرہ میں کام کی شکلیں بنائیں، اسکول کے نام پر مدارس قائم کرنا، اس علاقہ میں کام کے لئے سب سے مناسب راستہ تھا، اللہ کا شکر ہے کہ بستیاں کی بستیاں تائب ہو
کر میرے حضرت والا کی برکت سے واپس اسلام میں آئیں، اصل میں جب شروع میں حضرت نے مجھے حکم دیا تھا تو میں خود حیرت میں تھا، مجھ جیسے گنوار کو ایسا حکم کیوں دے رہے ہیں، مگر حضرت رائے پوریؒ کا ایک ملفوظ سنا تھا کہ ارادت کا مزا فٹ بال بن جانے میں ہے، اس ملفوظ نے رہنمائی کی اور ہمت بندھائی، اور پھر فٹ بال بن جانے کی برکات کھلی آنکھوں دیکھنے کو ملیں۔
سوال :غیر مسلموں میں دعوت کا کام کس طرح شروع کیا؟ اور اس کام میں کس طرح اللہ نے لگایا؟
جواب : اصل میں اس کام میں لگنے کے دو اسباب ہیں، ایک ظاہری سبب اور ایک حقیقی سبب، حقیقی سبب تو یہ ہے کہ میرے حضرت والا کی والدہ ماجدہ حضرت خیر النساء بہتر صاحبہ ایک بڑی مستجاب الدعوات ولیہ خاتون تھیں، انھوں نے میرے حضرت والا کے لئے بہت دعائیں مانگیں، جس میں یہ دعا سب سے زیادہ مانگی کہ علی تمھارے ہاتھوں پر جوق در جوق لوگ اسلام قبول کریں، یہ دعا حضرت کے لئے قبول ہوئی، اور یہ بیک واسطہ اس حقیر کے حصہ میں آئی، میرے حضرت والا نے چھ سات خطوط میں اس حقیر کو لکھا بھی، دو بار زبانی بھی فرمایا، ایک بار بوانہ دہلی میں چار ہزار میراثی مرتد مردوں، عورتوں نے رات کے ایک بجے اجتماعی طور پر ارتداد سے توبہ کر کے تجدید ایمان کی تھی، اور ڈھائی بجے رات تک نام بدلوانے آئے، یہ حقیر بہت خوش تھا، اس بڑی تعداد میں تجدید ایمان کا یہ پہلا موقع تھا، خواب دیکھا کہ
حضرت کی والدہ ماجدہ ایک تخت پر تشریف فرما ہیں، جیسے کوئی ملکہ تاج پہنے ہوئے ہو، اس حقیر نے سر پر ہاتھ رکھنے اور دعا کی درخواست کی، تو کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا، کیا سمجھتے ہو یہ سب دعوتی فتوحات میری دعا کی قبولیت ہیں، اس حقیر نے خواب حضرت والا کو لکھا، تو حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا، ہماری والدہ ماجدہ ہمارے لئے سب سے زیادہ یہ دعا کرتی تھیں کہ علی میاں تمھارے ہاتھوں پر لوگ جوق در جوق اسلام قبول کریں، یہ دعا الحمد للہ بیک واسطہ تمھارے لئے قبول ہوئی ہے، اس حقیر کا تجربہ ہے کہ کئی حضرات دعوت سیکھنے اور جڑنے کے لئے آئے، کئی لوگ تو سالوں رہے، مگر کوئی آدمی ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام نہیں ہوا، بلکہ بعض لوگوں کے ساتھ تو یہ بھی ہوا کہ لوگ از خود اسلام قبول کرنے آئے، مگر انھوں نے کلمہ نہیں پڑھایا۔اور حضرت مولانا کے سلسلہ میں شامل ہوئے، تو لوگ مشرف
باسلام ہونے لگے، تو اصل وجہ اس کام کی میرے حضرت والا اور حضرت کی والدہ ماجدہ کی دعائیں ہیں، میرے حضرت والا نے بھی اس حقیر کے لئے بہت دعائیں کی ہیں، ایک سال پورے رمضان اجتماعی دعاؤں میں نام لے کر دعائیں کیں، اور حضرت فرماتے تھے کہ بلا ناغہ وظیفہ سمجھ کر نام لے کر تمھارے لئے دعا کرتا ہوں۔
دوسرے کام سے لگنے کا ایک ظاہری سبب بھی ہوا ہے، یوں تو جس لائن میں جانا ہو تا ہے، کچھ نہ کچھ آثار پہلے سے آنے لگتے ہیں، بچپن سے لے کر کئی لوگ، ایک کمھار کا لڑکا، ایک کلاس فیلو ارم اور چند اور لوگ ایسے ہیں اس حقیر کو ذریعہ بنا کر مسلمان ہوئے، مگر اس کام کی طرف توجہ کا ذریعہ اس حقیر کی بچی اسماء ہوئی، اور اس واقعہ کو میرے حضرت والا نے بھی کئی بار تقریروں میں بیان کیا۔ ہوا یہ کہ ۰ ۳/ اکتوبر۱۹۹۰ء کو جب ایڈوانی کی رتھ یاترا رام مندر کی تحریک چل رہی تھی چاروں طرف دردناک فسادات ہونے شروع ہو گئے، ستمبر کے مہینہ میں ہمارے یہاں ایک صفائی کرنے والی آتی تھی، بالا اس کا نام ہے، صاف ستھری رہتی ہے، بچے اس سے مانوس رہتے ہیں، میں ایک کمرے میں کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، میری بچی جس کی عمر اس وقت آٹھ سال رہی ہو گی، وہ اس گیلری میں جہاں وہ بارش کی وجہ سے کچرے کا ٹوکرا رکھ کر بارش کے رکنے کا انتظار کر رہی تھی، اس سے رازدارانہ انداز میں بات کرنے لگی، مجھے خیال ہوا کہ ماحول خراب ہے نہ جانے کیا بات کہہ دے، اور یہ کیا لگا دے، میں سننے لگا، اسماء نے بالا سے کہا:بالا تم کتنی اچھی ہو، اور اچھی ہو جاؤ نا، بالا نے کہا:کس طرح سے ؟ اسماء نے کہا:بالا تم کس کی پوجا کرتی ہو؟اس نے کہا بھگوان کی مورتی کی، اسماء نے کہا:بالا یہ
مورتی تمھیں کچھ دے دیگی کیا؟ یا نفع و نقصان پہنچا دے گی، مجھے تو یہ ڈر ہے کہ بالا تم ہندو رہ کر مر گئی تو تم دوزخ میں جلو گی، بالا تم کس طرح دوزخ کی آگ برداشت کرو گی، میں تصور نہیں کر سکتا تھا کہ ایسی چھوٹی بچی قرآنی انداز میں اس کو دعوت دے سکتی ہے، میں بے اختیار باہر نکل آیا، بالا مجھے دیکھ کر چلی گئی، میں نے دیکھا اسماء کی آنکھوں میں آنسو ہیں، میں نے محبت سے ا س سے سوال کیا، اسماء بالا سے تم کیا بات کر رہی تھیں، وہ بولی یہ کتنی اچھی ہے، بالا ہم سے کتنی محبت کرتی ہے، یہ دوزخ میں جلے گی، ابی جی کتنی تکلیف ہو گی، یہ کہہ کر میرے سینہ سے لگ کر بلک بلک کر رونے لگی، قرآن مجید ایک زمانے سے پڑھتا تھا، فوراً جیسے کسی نے اندر سے کہا ہو:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَo(سورہ الشعراء، آیت۳)
ترجمہ :شاید آپ خود کو ہلاک کر لیں گے اس غم میں کہ یہ لوگ مومن کیوں نہیں ہوتے پوری سیرت پاک ایک ویڈیو کی طرح دل و دماغ کے سامنے آ گئی، کہ ہم صرف جوتا داہنے پاؤں میں پہن کر، میٹھا اور کدو کھا کر متبع سنت ہو نے کا دعوی کرتے ہیں، اصل سنت تو یہ نبوی درد ہے، جو ایک لمحہ پیارے نبی سے وصال تک غائب نہیں ہوا اس کے بغیرکیسے ہم رسول اللہ ﷺ کے پیرو ہو سکتے ہیں، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا ایک ملفوظ بارہا پڑھا تھا یاد آیا، حضرت تھانوی راوی ہیں کہ حضرات علما ء کی موجودگی میں ایک بار فرمایا :بھائیو قطب بننا چاہتے ہو؟ لوگوں نے کہا ضرور، حضرت نے فرمایا قطب بننے کا ایک آسان نسخہ بتاتا ہوں، جب کوئی غیر مسلم مر جایا کرے تو تھوڑی دیر تنہائی میں بیٹھ کر رو لیا کرو، کہ
ہمارا بھائی ہمیشہ کی دوزخ میں چلا گیا ہم نے کچھ فکر نہ کی، قطب بن جاؤ گے۔خیال ہو اکہ قطبیت وراثت نبوت ہے، وارث نبی وہ ہو سکتا ہے جو وارث درد نبی ہو، دل و دماغ پر سکتہ طاری ہو گیا، اگلے روز ہریانہ سونی پت جانا تھا، ایک نوجوان بہت محبت کرتا تھا، فوراً آ گیا، ایک پجاری کا بیٹا راج کمار میں نے اس سے کہا بیٹا راج کمار، تم اتنی محبت کرتے ہو، یہ محبت کچھ کام نہیں آئے گی، جب تک کلمہ نہ پڑھ لو، آٹھ نو منٹ اسے اسلام و ایمان بتایا، وہ کلمہ پڑھنے کے لئے تیار ہو گیا، اور کلمہ پڑھ لیا، ایک شرما جی آنے تھے، وہ آ گئے، وہ بھی تھوڑی دیر میں ایمان کے لئے تیار ہو گئے، شام کو ایک گاؤں میں پروگرام تھا، وہاں ایک گاڑی میں تیسرا آدمی پھونک لگوانے کے لئے آیا، اس کو سمجھایا، وہ بھی مسلمان ہو گیا، ذرا
سی دیر میں تین لوگ جہنم کی آگ سے بچ گئے، اس نے اور بھی جھنجھوڑ دیا، اور پھر قرآن وسیرت پڑھنا شروع کیا، اور کہنا شروع کیا تو لوگ کھڑے ہو تے گئے۔
اس کے بعد بھی کئی بار جذبہ میں تحریک پیدا کرنے کے لئے ا للہ نے اسماء کو ذریعہ بنایا، دو تین سال کے بعد شعبان میں کچھ مدرسے والوں کو تصدیقات دینے کے لئے گھر میں لیٹرپیڈ لینے کے لئے آیا، اسماء آئی، بولی، ابی جی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے، اور چھ مہینہ ہو گئے، آپ کے پاس ہمارے لئے وقت ہی نہیں ہے، اسماء کی یہ بات دل کو بہت ہی لگی، میں نے جذباتی انداز میں اس سے کہا بیٹا بات کر لو، ابھی کر لو، وہ بولی مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے، میں بہت پریشان ہوں، مجھے اطمینان کا وقت چاہئے، میں نے کہا ابھی بات کر لو، اس نے کہا اب تو آپ باہر مہمانوں کے پاس جا رہے ہیں، میں نے کہا کہ نہیں، تم خوب اطمینان سے بات کرو ایک دو دن میں تمھارے پاس ہی رہوں گا، وہ بولی، ابی بتائیے، یہ کافر، مشرک اور سارے غیر مسلم ہمیشہ دوزخ میں جلیں گے ؟میں نے کہا ہاں ہمیشہ جلیں گے، وہ
بولی، ابی ہمیشہ نہیں جلیں گے، دوسال، تین سال، سوسال، دوسوسال، اللہ میاں کہہ دیں گے چلو جاؤ بس معاف کر دیا، میں نے کہا: نہیں وہ ہمیشہ جلیں گے، اللہ نے اپنے کلام میں فرما دیا ہے، وہ بولی فرما دیا ہو، یا نہ فرما دیا ہو، مگر اللہ ان کو ہمیشہ نہیں جلائیں گے، اللہ کا نام رحمن و رحیم ہے، ماں سے ستر گنا مامتا رکھتے ہیں، اللہ تعالی فرمائیں گے کہ چلو چلو بس میں نے معاف کیا، سو سال، دوسوسال، پانچ سو سال میں اللہ میاں سب کو نکال دیں گے، میں نے کہا اللہ تعالیٰ جھوٹ تھوڑی بولتے ہیں، اللہ نے اپنے کلام میں صاف صاف فرما دیا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ (سورہ النسآء، آیت ۴۸)
ترجمہ :بلا شبہ اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا اس کے علاوہ جسے چاہیں گے ہر گناہ کو معاف کر دیں گے۔
اب اسے عربی کی شد بد ہو گئی تھی، بہت مایوس ہوئی اور بولی، ابی اس میں ان کی کیا خطا ہے، ہمارے اللہ میاں نے ہی تو ان کو ہدایت نہیں دی۔تقدیر کے معاملے میں اتنی ننھی بچی سے کیا بات کرتا، بات کے رخ کو پھیرنے کے لئے میں نے اس سے کہا کہ بیٹا تمھیں اللہ کا شکر کرنا چاہئے، کہ اللہ نے تمھیں تو ہدایت دی ہے، وہ بہت غمگین ہوئی، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، ابی میرے دل میں آتا ہے اور میں اللہ سے بہت دیر تک دعا کرتی ہوں، رات دیر تک نیند نہیں آتی ’میرے اللہ کسی کو دوزخ کی آگ میں نہ جلائیو، بس سب کے بدلہ مجھ اکیلی کو جلالی جیو، اس حقیر کے پورے وجود کو اس معصوم کی کیفیت نے جھنجھوڑ دیا، اور مجھے بار بار یہ خیال آتا ہے۔’’ مجھ اکیلی کو جلا لیجئے ‘‘یہ تو اس بچی کی ناسمجھی ہے، مگر کوئی دوزخ میں نہ جلے، یہ ہمارے نبی ﷺ کا سب سے بڑا درد ہے، جس کے بغیر کوئی مومن رحمۃ
للعالمین نبی کا پیرو ہر گز نہیں ہو سکتا، اس کے بعد بھی اس بچی نے دعوتی جذبہ کو تحریک دی۔اس طرح ظاہری اسباب کے طور پروہ بچی میری استاذ ہے۔