ٹرمپ صدارت کے آخری ایام

0

عباس دھالیوال

یوں تو امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پوری مدت کار ہی دنیا میں بحث کا موضوع بنی رہی ہے لیکن مدت کار کے آخری دنوں کے دوران انہوں نے جو گل کھلائے، اسے اہل امریکہ اور عالمی برادری چاہتے ہوئے بھی بھلا نہیں پائے گی۔ ٹرمپ صدارتی دور کے دوران بہت سے تنازعات میں گھرے رہے۔ اب اس ضمن میں ایک سنسنی خیز رپورٹ آئی ہے۔ اس میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے عہد صدارت کے آخری ایام کے بارے میں کچھ الگ ہی قسم کا انکشاف کیا گیا ہے۔ دراصل یہ انکشاف ایک نئی کتاب میں کیا گیا ہے کہ سابق امریکی صدر کی جانب سے کسی بھی غیر دانشمندانہ فیصلے کے اندیشے کے پیش نظر امریکی جنرل مارک ملی نے اپنے طور پر چین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔ حالانکہ اس کتاب کے آئندہ ہفتے تک منظر عام پر آنے کا امکان ہے لیکن دریں اثنا اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘، نشریاتی ادارے ’سی این این‘ اور دیگر اداروں نے کتاب کا کچھ مواد شائع اور نشر کر کے ایک سنسنی پھیلا دی ہے۔
سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے وہائٹ ہاؤس میں آخری ایام کے حوالے سے لکھی گئی اس کتاب کا عنوان ’پیرل‘(Peril) ہے جبکہ اس کے مصنف امریکی اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کے تحقیقاتی صحافی باب ووڈورڈ اور اسی اخبار کے سینئر پولیٹکل رپورٹر رابرٹ کوسٹا ہیں۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے دو بار خفیہ ٹیلی فون کالس کے ذریعے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف لی زواچینگ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ اس پر حملہ نہیں کرے گا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ جنرل مارک ملی نے پہلی ٹیلی فون کال 30 اکتوبر 2020 کو کی تھی جس کے 4 روز بعد صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو موجودہ صدر جو بائیڈن نے شکست دی تھی جبکہ دوسری کال 8 جنوری 2021 کو اس وقت کی تھی جب اس سے دو روز قبل ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کرکے امریکہ میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ جب ٹرمپ حامیوں نے مذکورہ عمارت پر چڑھائی کی تھی تو اس وقت کانگریس میں جو بائیڈن کے انتخابات میں کامیابی کی توثیق کے لیے کارروائی جاری تھی۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جب سے امریکہ میں کورونا وائرس پھیلا ہے، اس وقت سے ڈونالڈ ٹرمپ واشنگٹن میں تقریباً ہر نئی پریس کانفرنس میں اس وبا کے پھیلاؤ کے لیے چین کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف آئے دن کارروائی کرنے کی بات کہہ رہے تھے۔ ان دنوں چین کے حوالے سے وہ انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کیا کر تے تھے، چنانچہ اسی دوران جنرل مارک ملی نے کتاب کے مصنّفین کو بتایا تھا کہ انہوں نے چین کے اعلیٰ فوجی جنرل کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ چین پر حملے کی تیاری نہیں کر رہا ہے۔

ایک سنسنی خیز رپورٹ آئی ہے۔ اس میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے عہد صدارت کے آخری ایام کے بارے میں کچھ الگ ہی قسم کا انکشاف کیا گیا ہے۔ دراصل یہ انکشاف ایک نئی کتاب میں کیا گیا ہے کہ سابق امریکی صدر کی جانب سے کسی بھی غیر دانشمندانہ فیصلے کے اندیشے کے پیش نظر امریکی جنرل مارک ملی نے اپنے طور پر چین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔

کتاب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنرل مارک ملی نے جنرل لی کو کہا تھا کہ وہ ان کو یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ امریکہ میں حکومت مستحکم ہے اور سب کچھ بالکل ٹھیک ہو گا۔ انہوں نے چین کے جنرل کو یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ چین کے خلاف کوئی حملہ نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی کسی آپریشن کا آغاز کیا جا رہا ہے جبکہ اپنی طرف سے کی جانے والی دوسری کال میں جنرل مارک ملی نے جنرل لی کو کہا تھا کہ امریکہ صد فی صد مستحکم ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہے، البتہ جمہوریت میں بعض اوقات ایسے مواقع آتے ہیں۔ کتاب میں یہ بات بھی درج کی گئی ہے کہ جنرل ملی نے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دوسری کال اس لیے کی تھی، کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ انتخابات میں شکست کی وجہ سے خوش نہیں تھے۔ بقول ان کے 3 نومبر کے انتخابات کے نتائج سے ٹرمپ کو ذہنی پریشانی کا سامنا تھا۔
کتاب کے مصنّفین نے نینسی پلوسی اور جنرل مارک ملی کی ٹیلی فون پر گفتگو کا جو مسودہ حاصل کیا تھا، اس کے مطابق نینسی پلوسی نے جنرل مارک ملی سے کہا تھا کہ ان کے الفاظ میں ’وہ پاگل ہے۔ آپ جانتے ہیں، وہ پاگل ہے۔‘ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔ کتاب کے مطابق، جنرل مارک ملی نے اپنے سینئر اسٹاف کو بھی کہا تھا کہ ’آپ نہیں جانتے کہ صدر کس بات پر بھڑک سکتے ہیں۔‘
جنرل مارک ملی نے فوج کے اعلیٰ حکام کو بھی طلب کیا تھا تا کہ وہ کسی بھی جوہری حملے کے طریق کار کا جائزہ لے سکیں۔ جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ صرف امریکہ کے صدر جو کمانڈر اِن چیف بھی ہیں، جوہری حملے کا حکم دے سکتے ہیں، البتہ وہ یعنی جنرل مارک ملی، بھی اس میں شامل ہوں گے۔ مصنّفین ووڈورڈ اور کوسٹا کے مطابق، جنرل مارک ملی کے ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخابات میں شکست کے بعد رویے پر خدشات کے حوالے سے امریکہ میں حکومت میں شامل افراد نے بھی تبادلۂ خیال کیا تھا۔ ادھر ایک نیوز رپورٹ کے مطابق، مذکورہ بالا کتاب کے حوالے سے جب سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جو بائیڈن سے انٹرویو دینے کے لیے کہا گیا تو دونوں ہی صدور نے مذکورہ کتاب کے لیے انٹرویو دینے سے معذرت کی تھی۔
دراصل اپنی قیادت کے دوران خصوصاً آخری دنوں میں ٹرمپ نے جس طرح کی ذہنیت کا مظاہرہ کیا تھا، اس سے پوری دنیا کے لوگ خوب اچھی طرح سے واقف ہیں۔ ایسے میں اس کتاب میں جو انکشافات کیے گئے ہیں اور حقائق پر جو تبصرے ٹرمپ کی سوچ اور ان کے نظریہ کو لے کر کیے گئے ہیں، ان کی صداقت سے کسی کے لیے بھی انکار کر پانا مشکل ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS