دارالعلوم فیض محمدی ہتھیاگڈھ کے بانی قاری محمد طیب قاسمی کی چھوٹی صاحبزادی کا انتقال
جمعہ کا دن تھا، صبح کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے،اچانک موبائل کی گھنٹی بجی،جلدی سے موبائل کی طرف بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں،لکھنو پی جی آئ میں تقریبا ایک مہینہ سے اپنی سب سے چھوٹی ہمشیرہ عظمی وافیہ کی تیمارداری کررہے دارالعلوم فیض محمدی کے ناظم اور ہمارے محسن جناب مولاناسعد رشید ندوی کا فون ہے،میرادل گھبرایا،پریشان ہوا۔ اللہ! وہ خبر ناگہانی تو نہیں جسکو نہ سننے کے لیے شب وروز رب کعبہ کے حضور گریہ وزاری کیا کرتا تھا،دل تھام کرمیں نے سلام کیا مگر جواب میں اداسی چھائ ہوئ تھی،آواز دبی دبی سی تھی، آپ کہ رہے تھے کہ میری ہمشیرہ عظمی وافیہ اپنی زندگی کی جنگ ہار گئ ہے، ایمبولینس تیار ہے اپنے لکھنو میں مقیم دو شاگردوں کو گاڑی میں بٹھادیں،میرے سامنے اندھیرا چھاگیا،نمناک آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا اور زبان پر اناللہ واناالیہ راجعون جاری ہوا اور قلب اس بوڑھے اور مجموعة الامراض باپ کی طرف متوجہ ہوا جو بذات خود عرصہ دراز سے بیمار چل رہے ہیں،جو باپ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی عظمی وافیہ کی بیماری اور اسکے درد الم کو دیکھ کراپنی ذاتی بیماری کو فراموش کرتے ہوۓ لکھنو پی جی آئ میں اسکی تیمارداری میں لگے ہوۓ تھے،جنھیں نہ آرام کی پرواہ اور نہ کھانے کی فکر تھی۔ مگر تقدیر الہی کےسامنےکس کی چلتی ہے قل لکم میعاد یوم لاتستاخرون عنہ ساعة ولاتستقدمون (سبا٣٠)
اس عظیم باپ اور اولوالعزم کے پیکر نے جس صبر واستقلال کا مظاہرہ کیا قسم بخدا ناظرین بھی رشک کررہے تھے،
شاید آپ کو معلوم چل ہی گیا ہوگا کہ وہ بوڑھا باپ کوئ اور نہیں بلکہ ہمارے کرم فرما اور ہمارے محبوب ادارہ دارالعلوم فیض محمدی ہتھیاگڈھ مہراج گنج کے بانی،جمعیة علماء مہراج گنج اور ملی علماء علماء مشرقی اتر پردیش کے سرپرست حضرت مولاناقاری محمد طیب قاسمی ہیں۔جو میرے مشفق،مربی،معلم، اورمخدوم ہیں جو راقم الحروف نیز اپنے دیگر اساتذہ کو عملی میدان میں رواں دواں اور سدا جواں رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں،اپنی نجی نششتوں میں علمی فکری ادبی اور دعوتی لعل وگہر بکھیرتے رہتے ہیں،
بہرکیف!راقم الحروف اپنے نبیﷺ کے حکم کی پیروی کرتے ہوۓ ان للہ ماأخذ ولہ ماأعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی پڑھتےہوۓ دعاگو ہے کہ اللہ تعالی آپ کو اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطافرماۓ اور اس شجرسایہ دارکو ہمیشہ قائم ودائم رکھے۔