گزشتہ چند برسوں میں کم ہی ریاستوں میں کانگریس خاصی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے، زیادہ تر ریاستوں میں وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی لیکن جن ریاستوں میں اس کی پوزیشن اس لائق تھی کہ وہ تنہا یا کچھ پارٹیوں کے اتحاد سے حکومت بناسکے اور حکومت بنانے میں وہ کامیاب بھی ہوگئی تو اسے مستحکم رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس سلسلے میں ایک سے زیادہ مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ کرناٹک میں اس کی اتحادی حکومت 5 سال پورے نہیں کر سکی۔ یہی مدھیہ پردیش میں ہوا۔ وہاں بھی کانگریس حکومت 5 سال پورے نہیں کر سکی۔ ایک وقت ایسا لگا تھا کہ راجستھان میں بھی کانگریس اقتدار میں نہیں رہے گی مگر کسی طرح وہ حکومت بچانے میں کامیاب رہی۔ مہاراشٹر میں شیوسینا کے لیڈروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً جو اشارے دیے جاتے ہیں، ان سے مہاراشٹر کی اتحادی حکومت کا مستقبل اندیشوں میں نظر آنے لگتا ہے۔ 17 ستمبر کو ایک پروگرام میں شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے نے ریلوے کے وزیرمملکت راؤ صاحب دانوے کو جب یہ کہتے ہوئے مخاطب کیا کہ ’میرے سابق، موجودہ اور اگر ہم ساتھ میں آتے ہیں تو مستقبل کے اتحادی‘ تو سمجھنے کی کوشش یہ کی جانے لگی کہ کیا شیو سینا اور بی جے پی کا اتحاد پھر بننے کا امکان ہے۔
اصل میں سیاست میں کوئی بات مستقل نہیں ہوتی۔ نوجوت سنگھ سدھو بی جے پی میں تھے تو وہ اس کی تعریفیں کیا کرتے تھے اور کانگریس کے بارے میں ان کی جو رائے تھی، اس سے یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی کانگریس سے وابستہ ہوں گے۔ اس وقت سدھو کیبل مافیا، کان کنی مافیا اور بدعنوانی کے ایشوز پر بی جے پی کی اتحادی اکالی دل کے خلاف بولا کرتے تھے۔ وہ ایسا غالباً بی جے پی میں رہتے ہوئے اپنی لگ پہچان بنائے رکھنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ یہ پہچان ان کے کام بھی آئی۔ وہ کانگریس میں شامل ہو گئے۔ 2017 میں کانگریس پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی مگر دو چار سال گزرنے سے پہلے ہی سدھو کی ناراضگی ظاہر ہونے لگی۔ کیپٹن امریندر سنگھ سے ان کے پیچیدہ تعلقات کی خبریں آنے لگیں۔ یہ ظاہر ہونے لگا کہ سدھو اپنی پہچان ایک کانگریس لیڈر سے زیادہ رکھنا چاہتے ہیں۔ 2018 میںعمران خان نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ہندوستان سے سدھو کے ساتھ دیگر شخصیتوں کو بھی مدعو کیا مگر سدھو ہی پاکستان گئے، کوئی اور نہیں گیا۔ وہاں گئے تو کرتارپور کوری ڈور کھولنے کی پیش کش پر پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا سے گلے ملنے میں نہیں جھجکے۔ اس سے سدھو نے یہ دکھایا کہ اپنے لوگوں کے لیے وہ کس حد تک جا سکتے ہیں مگر سیاست شہ مات کا کھیل ہے، موقع ملتے ہی چوکا سیاست داں بھی لگاتے ہیں، البتہ ان کا انداز الگ ہوتا ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو کے کیپٹن امریندر سنگھ سے تعلقات کی پیچیدگی کا کچھ زیادہ اندازہ اس وقت ہوا جب 2019 میں کیپٹن نے کابینہ میں تبدیلی کی اور سدھو کو نئی وزارت کی ذمہ داری دے دی۔ سدھو نے ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل دباؤ کی سیاست کرتے رہے ہیں اور آج کیپٹن امریندر سنگھ کا استعفیٰ بظاہر یہ اشارہ ہے کہ سدھو جیت گئے مگر کیا یہ واقعی سدھو کی جیت ہے یا یہ کیپٹن امریندر سنگھ کی شکست ہے؟ کیا اس استعفیٰ کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے؟ کیا یہ پنجاب کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی وجہ بن جائے گا؟ ان سوالوں کے جواب کی متلاشی کانگریس ہی نہیں، دیگر پارٹیاں بھی ہوں گی، کیونکہ پنجاب اسمبلی انتخابات فروری یا مارچ، 2022 میں منعقد ہونے ہیں اور اس کے لیے زیادہ مہینے نہیں بچے ہیں کہ حالات کے بدلنے کی بات سوچی جاسکے۔ فی الوقت یہی لگتا ہے کہ کیپٹن امریندر سنگھ کا استعفیٰ کانگریس کے لیے مشکل پیدا کرنے والا ہے۔ کیپٹن نے یہ کہہ کر اپنی منشا ظاہر کر دی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے طور پر سدھو کے نام کی مخالفت کریں گے، کیونکہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ان کے دوست ہیں تو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا سے ان کا دوستانہ ہے۔
پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ پر فیصلہ لینا کانگریس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ اس کے لیے یہ بات نظر انداز کرنا مشکل ہوگا کہ 2017 میں 117 میں سے 77 سیٹیں اسے ضرور مل گئی تھیں مگر اسے 1.47 فیصد ووٹ کم ملے تھے۔ بی جے پی کے ووٹ فیصد میں 1.8 فیصد کی کمی آئی تھی تو شرومنی اکالی دل کو 9.4 فیصد ووٹ کم ملا تھا۔ سب سے زیادہ چونکانے والا مظاہرہ عام آدمی پارٹی کا تھا۔ اس نے پہلی بار پنجاب اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پہلی ہی بار میں وہ 23.7 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب رہی تھی، اس لیے فیصلے میں کانگریس کی ذرا سی چوک پنجاب کی سیاست بدل دے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 2019 میں ہی کانگریس صدر سے راہل گاندھی مستعفی ہوچکے ہیں اور لیڈر مسئلوں کے حل کے لیے انہی کے پاس جاتے ہیں، اس لیے ایک کنفیوژن سا ہے، کیونکہ کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی ہیں۔ ممکن ہے، پنجاب کا مسئلہ سلجھاتے وقت کانگریس کے سینئر لیڈران ایک بار پھر یہ محسوس کریں کہ کانگریس سربراہ کے معاملے میں پارٹی کی پوزیشن واضح ہونی چاہیے تاکہ اس کا مثبت اثر ریاستوں کے لیڈروں پر پڑے!
[email protected]
کیپٹن کا استعفیٰ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS