از: ایم افضل بٹ
سری نگر: (یو این آئی) وادی کشمیر میں اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنے کا سیزن ہے۔ اس سیزن کے دوران مزدوروں کو کام مل جاتا ہے لیکن یہ سیزن کئی مزدور گھرانوں کے لئے باعث مصیبت بھی بن جاتا ہے کیونکہ ہر سال اس سیزن کے دوران کئی مزدور درختوں سے گر کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے ناخیز ہو کر گھر والوں پر ہی بھاری بھرکم بوجھ بن جاتے ہیں۔ اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا جہاں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے وہیں ایک ایسا جوکھم بھرا کام ہے جس میں اس کام کے کرنے والے کو جان گنوانے کا خطرہ ہر آن لگا رہتا ہے۔ اخروٹ کے درخت دیگر پھل کے درختوں جیسے سیب، ناشپاتی، انار، وغیرہ سے قد و قامت میں بڑے ہوتے ہیں اور ان سے اخروٹ اتارنے کا عمل بھی مذکورہ پھل اتارنے کے کاموں سے بھی مختلف ہے۔ سیب، ناشپاتی وغیرہ جیسے درختوں سے ایک عام مزدور بھی میوے اتار سکتا ہے اور ان درختوں پر چڑھ کر گرنے کا بھی کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے لیکن اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اخروٹ اتارنے کے کام میں خال کوئی مزدور ہی مہارت رکھتا ہے اس کام میں مہارت کے ساتھ ساتھ مزدور کا ہوشیار، بیدار مغز اور بہادر ہونا بھی شرط اول ہے۔ اس کام کا ماہر ایک لمبا سا ڈندا اٹھائے درخت کی ایک مضبوط شاخ پر بیٹھ کر زور زور سے باقی شاخوں کو مارتا ہے جس سے ان پر لگے اخروٹ نیچے گر جاتے ہیں اور اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ توزان یا توجہ کھو جانے کے ساتھ ہی مزدور خود بھی اخروٹوں کے ساتھ نیچے گر جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سال اس سیزن کے دوران کئی مزدور یا تو لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے معذور ہو کر کچھ کمانے سے رہ جاتے ہیں۔سال رواں کے دوران بھی وادی کے قرب و جوار میں کچھ مزدور اخروٹ اتارنے کے دوران درختوں سے گر گئے جن میں سے بعض کی موت واقع ہوئی جبکہ بعض ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔اس کاروبار سے جڑے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس کام میں خطرے کے پیش نظر اب اخروٹ اتارنے والے مزدور نایاب ہو رہے ہیں۔ محمد صادق نامی ایک بیوپاری نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ ہم ایسے مزدروں کو زیادہ سے زیادہ مزدوری دیتے ہیں اور وہ بھی پیشگی ہی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر گزرتے سال ان مزدوروں کا ملنا محال بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسے مزدور بالکل نہیں ملیں گے جس سے یہ کاروبار ختم ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل اگر کوئی مزدور ملتا ہے وہ کسی مجبوری کے تحت ہی ایسا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ موصوف نے کہا کہ جس طرح فصل کٹائی اور دیگر کاموں کے لئے مشینوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اسی طرح اس کام کی انجام دہی کے لئے بھی کسی مشین کو متعارف کیا جانا چاہئے۔ محمد یوسف خان نامی ایک مزدور نے بتایا کہ میں درختوں سے اخروٹ اتارنے کا کام گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہوں لیکن میرے گھر والے مجھ سے کافی ناراض ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘شادی پر بیوپاری سے قرضہ لیا تھا اور اس نے یہی کام کرنے کی شرط پر قرضہ دیا تھا اب اس سال قرضے کی بھرپائی ہو گی اگلے سال سے یہ کام نہیں کروں گا’۔
ان کا کہنا تھا: ‘اس کام میں گھر والوں کو بھی یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ شام کو ہم واپس آئیں گے اور خود ہم کو بھی ہر آن درخت سے گرنے خطرہ لاحق رہتا ہے’۔ غلام محمد وانی نامی ایک مزدور نے بتایا کہ میں درخت سے اخروٹ اتارنے کے بجائے زمین پر پڑے اخروٹوں کو جمع کرنے کی مزدوری کرتا ہوں اس میں مزدوروی کم ملتی ہے لیکن جان گنوانے کا کوئی خطرہ نہیں رہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘متعلقہ محکمے کو مداخلت کر کے چھوٹے قد والے اخروٹ کے درخت لگوانا یقینی بنانا چاہیے تاکہ کم از کم انسانی جانوں کو بچایا جا سکے’۔ یو این آئی اردو نے معاملے پر سرکاری نقطہ نظر جاننے کے لئے محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر جنرل اعجاز احمد بٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔
اخروٹ اتارنے کا کام باعث روزگار بھی وہیں جان گنوانے کا خطرہ بھی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS