مرکزی وزارت داخلہ نے مغربی بنگال حکومت کو 61ایسے بی جے پی لیڈروں کی فہرست بھیجی ہے جن کے بارے میں اسے یہ تشویش ہے کہ انہیں مغربی بنگال میں خطرات لاحق ہیں۔ وزارت داخلہ نے ریاست کے چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو اس فہرست کے ساتھ ایک خط بھی بھیجا ہے جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ ان لیڈروں کو سکیورٹی فراہم کی جائے۔ فہرست میں جن لوگوں کے نام شامل ہیں،ان میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں جیل میں بند زعفرانی لیڈر سمیت کئی ایسے ہیں جنہیں عام حالات میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔اس فہرست میں ان بی جے پی لیڈروں، اداکاروں، ایم ایل اے اور ارکان پارلیمنٹ کا بھی نام ہے جو ریاستی اسمبلی کا انتخاب ہارنے کے بعد نہ صرف غیر فعال ہوگئے ہیں بلکہ اب وہ دوسری پارٹی میں جانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔
مرکزکی اس ہدایت پر سوال اٹھنے لگا ہے کہ ان لیڈروں کو سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے ریاستی حکومت کو کیوں کہاگیا ہے؟ مغربی بنگال میں امن و امان اور نظم و نسق کی صورتحال دوسری ریاستوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے تو پھر یہ بی جے پی لیڈران عدم تحفظ کے شکار کیوں ہیں؟کیا یہ امن و امان کی صورتحال کے معاملے میں ریاستی حکومت پر بالواسطہ دبائو ڈالنے کی کوشش نہیں ہے ؟ ترنمول کانگریس نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ مرکز ریاست کے اختیارات میں دخل اندازی کررہاہے۔ امن و امان اور نظم ونسق ریاست کا موضوع ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کسی ریاست کو اس طرح کی ہدایت جاری نہیں کرسکتی ہے۔ ریاستی پولیس حالات اور خطرات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ 61افراد کو ریاستی حکومت صرف اس بنیاد پر تحفظ نہیں فراہم کرسکتی ہے کہ ان کا تعلق مرکز میں حکمراں جماعت سے ہے۔
عام طور پر ایسے رہنمائوں اور وی وی آئی پی کوسکیورٹی فراہم کی جاتی ہے جو عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ میں ہوتے ہیں یا انہیں کسی منظم گروہ کی جانب سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ سکیورٹی دیے جانے سے قبل حکومت متعلقہ شخص کو درپیش خطرات کے بارے میں انٹلیجنس رپورٹ سے اس کی تصدیق کرتی ہے۔ لیکن مغربی بنگال حکومت کو مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی فہرست میں شامل بیشتر ناموں کے سلسلے میںایسی اطلاعات نہیں ہیں۔بی جے پی سے وابستہ جن 61افراد کیلئے مرکزی حکومت نے سکیورٹی کی ہدایت کی ہے، ان میں بنگلہ فلم کے کئی ایسے اداکارہیں جنہوں نے اسمبلی انتخاب سے قبل بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کچھ نام ایسے بھی ہیں جنہوں نے سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کردیا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھ رہاہے کہ ان اداکاروں اور سیاست سے کنارہ کش ہوجانے والوں کو کن سے خطرات ہیں یا انہیں کن لوگوں نے دھمکیاں دی ہیں۔ یہ بجا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ چاہے وہ شہری چھوٹا ہو یا بڑا، کسی بھی طبقہ یا پیشہ سے تعلق رکھتا ہو، اگر اسے خطرہ لاحق ہے تو حکومت اس کی حفاظت کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن صرف اس بنیاد پر کہ ان61افراد اکاتعلق بی جے پی سے ہے،انہیں سکیورٹی دی جائے اورا ن پر عوام کی گاڑھی کمائی کا کروڑوں روپیہ صرف کیا جائے،کسی بھی حال میں مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت کی یہ ہدایت راست طور پر ریاست کے حدود میں دخل اندازی اور ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو منتشر کرنے کی کوشش ہے۔
حالیہ دنوں ہوئے مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو یہ یقین تھا کہ وہ کامیابی حاصل کرکے حکومت بنالے گی لیکن بنگال کے عوام کا فیصلہ بی جے پی کیلئے حوصلہ شکن ثابت ہوا۔ تمام تر طاقت جھونکنے کے باوجودبھی بی جے پی کو مغربی بنگال میں سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑااور ممتابنرجی نے مغربی بنگال میں تیسری بار اپنی حکومت بنالی۔ اس صورتحال کو بی جے پی نے اب تک قبول نہیں کیا ہے۔ مختلف طریقوں سے ریاستی حکومت پر دبائو ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ریاست میں اسمبلی کی چار خالی نشستوں کیلئے ضمنی انتخاب کے اعلان کے بعد سے مغربی بنگال میں مرکزی ایجنسیوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ کبھی ترنمول لیڈروں کودہلی طلب کیاجارہاہے تو کبھی ریاستی وزراکو تحقیقات اور تفتیش کیلئے سی بی آئی اورا ی ڈی نوٹس بھیجتی ہیں۔یہ صورتحال سیاست کے مسلمہ اصولوں کے خلاف اور ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش بھی ہے۔جس آئین اور دستور کی رو سے مرکزی حکومت کو بہت سے اختیارات حاصل ہیں، اسی آئین اور دستورنے اس کے کچھ حدود بھی طے کر رکھے ہیں۔درجنوں ایسے معاملات ہیں جو ریاست کے حدود میں آتے ہیں اور ان میں مرکز کی دخل اندازی غیر دستوری ہوتی ہے۔ملک کی سالمیت اورا ستحکام کاتقاضا ہے کہ ریاستی معاملات میں مرکزمداخلت نہ کرے اور اقتدار کی لامرکزیت کے تصور کا احترام کرے۔ریاستوں کو اپنا کام کرنے دے، ان پر ایسے فیصلے اور ہدایت تھوپنے سے گریز کرے جن سے ملک کے وفاقی نظام کو زک پہنچتی ہو۔
[email protected]
ریاستی امور میں مرکزکی دخل اندازی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS