محمد حنیف خان
جمہوری نظام میں مقننہ اور عدلیہ کی بڑی اہمیت ہے، اول الذکر جہاں قانون سازی کرتا ہے وہیں ثانی الذکر اس کا نفاذ کرتا ہے۔ان دونوں کی ذمہ داریاں ایک انصاف پسند سماج کے لیے بہت اہم ہیں۔دونوں جب عزم و حزم کے ساتھ کام کرتے ہیں تو سماج ترقی کرتا ہے لیکن جہاں ان میں سے کوئی بھی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے سماج میں شکوک و شبہات کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے جس سے انصاف کاتانا بانا ٹوٹنے لگتا ہے۔اس تانے بانے کو کبھی مقننہ مضبوط کرتی ہے تو کبھی عدلیہ آگے بڑھ کر اس کو ادھڑنے سے بچاتی ہے۔اس وقت عدلیہ میدان میں ہے اور وہ قانون ساز ادارے کی کمیوں و کوتاہیوں کو نشان زد کرکے سماج میں انصاف کو یقینی بنا رہی ہے۔جس نے انصاف پسند افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی مقننہ کی حیثیت رکھتے ہیں،یہی لوگ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بیٹھ کر قانون بناتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان قانون ساز افراد میں سب کے سب پاک و صاف ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اقتدار کے لیے ایسے افراد کو منتخب کیا جو کسی بھی طرح سے الیکشن جیت سکتے ہوں اس کے لیے انہوں نے ان کا ریکارڈ کبھی نہیں دیکھا۔اس کی حقیقت الیکشن واچ کی رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ کس کس طرح کے افراد الیکشن میں میدان میں آتے ہیں جن میں سے بعض جیت کر پارلیمنٹ اور اسمبلی بھی پہنچتے ہیں۔
مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد جب قانون ساز ادارے کے ممبر بن جاتے ہیں تو وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے خود پر قائم مقدمات کو حکومتوں سے واپس کرا لیتے ہیں،یہ سماج اور انصاف دونوں کے ساتھ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ ایک جمہوری معاشرے میں جمہور کو ٹھینگا دکھانے جیسا ہے۔اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ قانون ساز ادارے کے ممبران چونکہ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے دوسروں کی بہ نسبت ان کے زیادہ سماجی سروکار ہوتے ہیں۔ایسے میں بعید نہیں کہ ان پر سیاسی دشمنی کے تحت مقدمے قائم کیے ہوں،اسی لیے انصاف پسند مقننہ نے دفعہ 321 کے تحت حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ ایسے مقدمات واپس لے لے جس سے سماجی انصاف کے تقاضے پورے ہو رہے ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت میں رہنے والے سبھی افراد کا تعلق سیاست سے ہوتا ہے، ایسے میں یہ بھی بعید نہیں کہ پارٹی اور سیاسی کارکنان کو حکومتیں اس کا فائدہ پہنچا رہی ہوں جس پر 2016میں ایک عرضی داخل کرکے عدلیہ کی توجہ مبذول کرائی گئی۔اس معاملے کی سماعت ابھی تک چل رہی ہے۔اسی مقدمے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل وجے ہنساریا نے اب تک متعدد رپورٹس داخل عدالت کرکے موجودہ و سابق ممبران اسمبلی کے خلاف پورے ملک کی عدالتوں میں داخل مقدمات کی تفصیلات پیش کی ہیں۔جن کو دیکھ کر عدلیہ نے حیرت اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ سابق و موجودہ ممبران پارلیمان و اسمبلی پر قائم مقدمے بغیر سپریم کورٹ کی اجازت کے واپس نہیں لیے جاسکتے ہیں۔ عدلیہ کے اس ایک فیصلے کے نہایت دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔وجے ہنساریاکی 24اگست کو پیش چودہویں رپورٹ کے مطابق موجودہ و سابق ممبران پارلیمان و اسمبلی کے خلاف چار ہزار سے زائد معاملے عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔اس رپورٹ میں ان مقدموں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کی جانچ سی بی آئی،ای ڈی وغیرہ کر رہی ہیں۔
25اگست کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہنساریا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اتر پردیش،کرناٹک،تمل ناڈو،تلنگانہ،اور کیرالہ حکومتوں نے 16ستمبر 2020کے بعد بھی سی آر پی سی کی دفعہ 321کے تحت ملی اپنی طاقت کااستعمال کرکے مجرمانہ مقدمات کو واپس لیے ہیں۔سپریم کورٹ نے ملک کے تمام ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ 16ستمبر 2020کے بعد سے موجودہ و سابق ممبران پارلیمان و اسمبلی کے مقدمات کی جانچ کی جائے خواہ وہ زیرالتوا ہوں یا ان کو نمٹا دیا گیا ہو۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ و سابق ممبران پارلیمان و اسمبلی کے مارچ 2020 میں مقدموں کی تعداد 4859تھی جو دسمبر 2018میں 4122تھی۔اس رپورٹ میں کئی ریاستوں کے موجودہ و سابق ممبران پارلیمان و اسمبلی کے خلاف زیر التوا معاملات اور واپس لیے گئے مقدمات کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایسے ممبران پارلیمان و اسمبلی کو الیکشن لڑنے سے روک دیا جانا چاہیے جن کے ریکارڈ مجرمانہ ہیں۔سپریم کورٹ میں پیش رپورٹ کے مطابق چھتیس گڑھ ہائی کورٹ میں موجودہ و سابق ممبران پارلیمان و اسمبلی کے خلاف18مقدے زیر سماعت ہیں، اروناچل پردیش میں 13جبکہ میزورم میں 2،میگھالیہ میں 4 اور پانڈیچری میں 38 ایسے مقدمات ہیں۔ دہلی میں 81، راجستھان میں 50،گجرات میں 41،جبکہ جھارکھنڈ میں 223اور کیرالہ میں 381معاملات ہیں۔اسی طرح بنگال میں 141مقدمات زیرالتوا ہیں اور تمل ناڈو میں 380، مہاراشٹرا میں 448، یہ حالت مدھیہ پردیش کی ہے جہاںمحض دس ماہ میں(اکتوبر 2020 سے اگست 2021) میں مقدمات کی تعداد 190 سے بڑھ کر 324 ہوگئی۔ اڈیشہ میں 362 مقدمات موجودہ و سابق ممبران پر درج ہیں۔ ہنساریہ کی رپورٹ کے مطابق 31اگست 2020کو حکومت کرناٹک نے 61ایسے مقدمات کو واپس لینے کی ہدایت جاری کی جو منتخب ممبران کے خلاف درج تھے۔تمل ناڈو میں ستمبر 2020کے بعد چار مقدمے واپس لیے گئے ہیں جبکہ تلنگانہ حکومت نے دفعہ 321کا استعمال کرتے ہوئے 14مقدمے واپس لیے ہیں۔ کیرالہ حکومت نے ستمبر 2020اور جولائی 2021 کے درمیان دفعہ 321کے تحت 36مقدمے واپس لیے جبکہ 7 مقدمات میں عرضیاں یا تو داخل کردی گئی ہیں یا وہ عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔ اس رپورٹ میں 19ریاستوں اور مرکز کے ماتحت علاقوں کے ہائی کورٹ میں موجودہ اور سابق ممبران پارلیمان و اسمبلی کے خلاف دائر مقدمات کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔ ہنساریا کے مطابق ملکی تناظر میں 175معاملے تو چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد واپس لیے گئے ہیں، 165 مقدمات میں عبوری رپورٹ داخل کی گئی تھی جبکہ 170مقدمے یوں ہی ختم کر دیے گئے۔
مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد جب قانون ساز ادارے کے ممبر بن جاتے ہیں تو وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے خود پر قائم مقدمات کو حکومتوں سے واپس کرا لیتے ہیں،یہ سماج اور انصاف دونوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔۔۔۔۔سپریم کورٹ کے مطابق دفعہ 321کے تحت ملی طاقت ایک ذمہ داری ہے جس کا استعمال مفاد عامہ میں کیا جانا چاہیے۔
2020میں حکومت اترپردیش نے 2013میں مظفرنگر میں ہوئے فسادات کے ملزمین کے خلاف قائم مقدمات بھی واپس لینے کی ہدایت دی تھی،ان فسادات میں تقریباً 65افراد مارے گئے تھے جبکہ 40ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔حکومت نے ان فسادات کے 510 میں سے 77 مقدمات واپس لیے ہیں،ان میں 6869افراد ملزم ہیں۔ دسمبر 2020میں انڈین ایکسپریس کے مطابق ریاستی حکومت نے بی جے پی کے تین ممبران اسمبلی سنگیت سوم،سریش رانا اور کپل دیو سمیت آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد کی لیڈر سادھوی پراچی کے خلاف دائر مقدمے کو واپس لینے کی اپیل دائر کی۔اس رپورٹ کے مطابق ان چاروں پر آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کیے گئے تھے۔ان پر الزام تھا کہ سرکاری کام میں رخنہ کے لیے حملہ،یا جرم کے لیے طاقت کا استعمال کرنا، مذہبی منافرت کو فروغ دینا اور نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ یا دوسرے آتش گیر مادوں سے حملہ کرنا اس میں شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق حکومت نے مقدمے واپس لیے جانے کا اس کے علاوہ کوئی سبب نہیں بتایا کہ انتظامیہ نے غور و خوض کے بعد ان مقدمات کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔کئی مقدمات تو آئی پی سی کی دفعہ 397کے تحت ڈکیتی جیسے جرم سے متعلق ہیں جن میں عمر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ہنساریا کی رپورٹ کے مطابق الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 7نومبر 2020کو کہا تھا کہ ریاست میں اس طرح کے 1374معاملات زیرالتوا ہیں۔ خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر قائم مقدمے واپس لیے گئے ہیں،1995کے مقدمے میں تو ان کے خلاف غیرضمانتی وارنٹ بھی تھا۔اہم بات یہ ہے کہ یوگی حکومت نے ایک قانون بنا کر تقریباً 20ہزار مقدمے واپس لیے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں مقدمے واپس لیے جانے سے متعلق اصول و نظریات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس کے مطابق عوامی استغاثہ(پبلک پراسی کیوٹر) نہ صرف شواہد کی کمی کی بنیاد پر بلکہ عوامی انصاف کے مقصد سے اس معاملے سے خود کو الگ کر سکتا ہے لیکن معاملہ کی واپسی کے لیے عدالت کی رضامندی ضروری ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اٹھایاگیا قدم کسی معاملے پر خط تنسیخ نہیں پھیرے گا۔عدالت کو مقدمہ واپسی کے اسباب و وجوہ جاننے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ الزامات واپس لیے جانے کے ضروری اور ٹھوس اسباب ہیں۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ ایسے معاملات میں دخل دے سکتا ہے جہاں رضامندی دینے یا روکنے کافیصلہ لینے میں صحیح سے اصولوں کے نفاذ میں ٹرائل جج یا ہائی کورٹ ناکام ہوا ہو‘‘۔سپریم کورٹ کے مطابق دفعہ 321کے تحت ملی طاقت ایک ذمہ داری ہے جس کااستعمال مفاد عامہ میں کیا جانا چاہیے، اس کا استعمال خارجی اور سیاسی مفاد کے لیے نہیں کیا جاسکتا ہے۔مفاد عامہ میں وسیع پیمانے پر اس کے استعمال کی ضرورت ہے۔ ہنساریا کی معاون وکیل آن ریکارڈ کلتا کے مطابق اس طرح کے مقدمات کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ پراسی کیوٹر دفعہ 321 کے تحت مقدمات کو واپس لینے کی عرضی صرف اپنی مرضی اور سنک سے نہیں دے سکتا ہے۔جس کے شواہد اخبارات میں ایسے احکامات سے متعلق خبروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سماجی انصاف اور انصاف کی نظر میں یکسانیت کا شناخت نامہ ہے۔عدلیہ کے اس طرح کے اقدامات ہندوستانی نظام انصاف کو مضبوط کریں گے۔
[email protected]