بیماریاں روکنے کیلئے نگرانی سسٹم ضروری

0

ڈاکٹر چندرکانت لہاریا

ابھی کووڈ-19کی وبا چل ہی رہی ہے، اس دوران کیرالہ میں نپاہ وائرس کا ایک مریض ملا۔ یہ بیماری عام طور پر نہیں پائی جاتی ہے اس لیے ایک بھی مریض کا مطلب ہوتا ہے بیماری کا آؤٹ بریک۔ کیرالہ میں 2018میں بھی یہ بیماری پائی گئی تھی اور تب 18میں سے 17مریضوں کی موت ہوگئی تھی۔ تقریباً اسی وقت اترپردیش کے کئی اضلاع سے بخار اور جسم میں درد کے ساتھ دیگر علامات کے مریض دن بہ دن بڑھنے کی خبریں آرہی ہیں۔ سرکاری طور پر 65لوگ، جن میں زیادہ تر بچے ہیں، کی اموات ہوچکی ہیں۔ جانچ کے شروعاتی نتائج بتاتے ہیں کہ یہ مریض ڈینگی(عام بول چال میں ڈینگو)، ملیریا، لیپٹوسپائروسس یا اسکرب ٹائفس کے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پوری دنیا میں نئی بیماریاں ہونے لگی ہیں اور پرانی بیماریاں نئی جگہوں پر پاؤں پسار رہی ہیں۔ کئی وجوہات ہیں، جیسے کہ آب و ہوا میں تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ سے حالات کئی جراثیم اور وائرس، جیسے کہ ڈینگی وائرس کے لیے مناسب ہوتے جارہے ہیں۔ اسی طرح جنگلوں میں تجاوزات اور ان کی کٹائی وجہ سے اب تک جو pathogen(جن کی وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہے) جنگلوں میں رہتے تھے، جیسے کہ نپاہ وائرس، ان کا سامنا انسانوں سے ہونے لگا ہے اور نئی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔ ساتھ ہی گندگی اور انفیکشن کا تو پرانا رشتہ ہے۔ اسکرب ٹائفس گندگی میں پائے جانے والے مائیٹس سے پھیلتی ہے اور لیپٹوسپائروسس، اس کے بیکٹیریا سے متاثر خنزیر، کتوں اور چوہوں کے پیشاب سے پانی کے انفیکٹڈ ہوجانے پر۔
ان سب بیماریوں کی جلد پہچان ہونے کے بعد، روک تھام ہی بچاؤ ہے۔ اس کے لیے مضبوط پبلک ہیلتھ سسٹم، جس میں بیماریوں کی نگرانی کا نظام(Disease Surveillance System) شروعات میں ہی بیماری کی پہچان کرلے، نہایت ضروری ہے۔ ساتھ ہی، ایسے سسٹم کے لیے کافی ہیلتھ ورکرس، نمونوں کی جانچ کے لیے لیباریٹریز ضروری ہیں، جہاں بروقت رپورٹس آئیں۔ ایسا ہونے کے لیے حکومتوں کو پبلک ہیلتھ سروسز میں مناسب سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں ہم جنہیں صحت خدمات کہتے ہیں، وہ دراصل طبی خدمات محض ہیں۔ فرق یہ ہے کہ صحت خدمات ایک صحت مند شخص کو بیمار ہونے سے بچانے کے لیے بھی قدم اٹھاتی ہیں اور بیمار کا علاج بھی کرتی ہیں، لیکن طبی خدمات انتظار کرتی ہیں کہ لوگ بیمار پڑیں، ان کی لوگوں کو بیماری سے بچانے پر توجہ نہیں ہوتی۔
بات پھر سے کووڈ-19کی کرتے ہیں۔ بیماری کو پکڑنے اور پھیلنے سے روکنے میں بیماریوں کی نگرانی کے نظام کا اہم کردار رہا۔ لیکن چوتھے سیرو-سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ کئی ریاستوں جیسے کہ مدھیہ پردیش، اترپردیش اور بہار میں اوسطاً 100 انفیکشن میں سے محض ایک ہی رپورٹ کیا گیا (مطلب یہاں بیماریوں کے نگرانی کا نظام کمزور ہے)، جب کہ کیرالہ ہر 6 میں سے ایک، مہاراشٹر 12میں سے ایک اور کرناٹک 16میں سے ایک انفیکشن کو پکڑسکا۔ یہ ریاستوں کے درمیان بیماریوں کی نگرانی کے نظام کا فرق ظاہر کرتا ہے۔ اگر بیماریوں کی نگرانی کا نظام کمزور ہے تو جب تک بیماریوں کو پہچان پائے گا، یہ بڑے پیمانہ پر پھیل چکی ہوتی ہیں، جیسے اترپردیش میں چار بیماریاں ایک ساتھ کئی اضلاع میں پھیل چکی ہیں۔ اگر بروقت ان کی پہچان کی گئی ہوتی تو روک تھام کے لیے ضروری اقدامات پر عمل کرکے انہیں روکا جاسکتا تھا۔ اس کے برعکس کیرالہ میں نپاہ وائرس کا پہلا کیس بروقت پہچان لیا گیا۔

کیا ہم مستقبل میں ہونے والے کووڈ-19کے آؤٹ بریک کو روک پائیں گے، یہ اس بات پر منحصر کرے گا کہ اس ریاست کا بیماریوں کی نگرانی کا نظام کتنا فعال ہے؟ ہمیں مستقبل کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ہوگی۔ سبھی حکومتوں کو پبلک ہیلتھ سروسز اور بیماریوں کی نگرانی کے نظام میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور انہیں مضبوط کرنا ہوگا۔

کووڈ-19وبا کے ختم ہونے کے بعد اس کے بھی اینڈیمک ہوجانے کی بات کی جارہی ہے مطلب کورونا وائرس ہمارے درمیان رہے گا لیکن اس سے متاثر لوگوں کی تعداد کم ہوگی اور کچھ لوگوں میں انفیکشن ملتا ہی رہے گا۔ لیکن کیا ہم مستقبل میں ہونے والے کووڈ-19کے آؤٹ بریک کو روک پائیں گے، یہ اس بات پر منحصر کرے گا کہ اس ریاست کا بیماریوں کی نگرانی کا نظام کتنا فعال ہے؟ ہمیں مستقبل کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ہوگی۔ سبھی حکومتوں کو پبلک ہیلتھ سروسز اور بیماریوں کی نگرانی کے نظام میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور انہیں مضبوط کرنا ہوگا۔
(مضمون نگار پبلک پالیسی اور ہیلتھ سسٹم کے اسپیشلسٹ ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS