غضنفر
’’آدمی نامہ ‘‘ والے مجتبیٰ حسین جس آدی پر نوکِ قلم گڑو دیتے ہیں پھر اس میں بچتا ہی کیا ہے کہ کسی اور کے منقارِ خامہ کے کچھ منہہ لگے پھر بھی مجھے کچھ نہ کچھ تو حاصل کرنا ہی ہوگا کہ میرے خامے کو بھی زندہ رہنا ہے اور اپنی اس دوستی کو بھی زندہ رکھنا ہے جو ایک حیدر آبادی بیگ کے ساتھ جوانی کے دنوں سے چلی آرہی ہے۔ یا اسے یوں کہوں کہ جس بیگ کو مجتبیٰ حسین نے اوپر سے نیچے تک خوش رنگیوں سے رنگ دیا ہو اور جس کے گلے میں خوش، خوش، خوش، یعنی خوش شکل، خوش جمال، خوش مزاج، خوش پوشاک، خوش اخلاق، خوش آثار، خوش سلیقہ، خوش ذوق، خوش دل وغیرہ کی مالاپنہادی ہو اس میں کسی اور ’’خوش‘‘ کا اضافہ کرنا آسان نہیں لیکن یہ مشکل کام تو کرنا ہی پڑے گا کہ یہ میرے احساس کا امتحان ہے اور اس احساس کا بھی جسے مجھے اپنے احساس کے دائرے میں لانا ہے اور یہ دکھانا بھی ہے کہ بعض شخصیتیں ایسی پرت دار ہوتی ہیں کہ تمام پردے ہٹادینے کے بعد بھی کچھ پرتیں باقی رہ جاتی ہیں اور نگاہِ خامۂ خورد بیں سے بھی کچھ نہ کچھ بچارہ جاتا ہے۔
جس بیگ کا ذکر یہاں مقصود ہے اس سے میری پہلی ملاقات تقریباً چالیس بیالیس برس پہلے طارق چھتاری کے گھر پر ہوئی تھی یہ ان دنوں کی بات ہے جن دنوں وہ نیانیا رسرچ اسکالر بنا تھا اور ایک نئے نویلے عاشق کی مانند خوب سچ دھج کر بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے موضوعِ محبوب ’’کرشن چندر کی حیات و کائنات‘‘ کے خط و خال اور رنگ و روپ کی دیدار کے لیے وہاں تک آدھمکا تھا جہاں مخزنِ معلومات کے علاوہ اس کے تحقیقی محبوب کی محبوبہ کا مسکن بھی موجود تھا اور جس کے درسے کچھ ایسے اشارات و نشانات کے ملنے کے امکانات تھے جن سے تحقیق میں جان اور محقق میں ہیجانی شان پڑجایا کرتی ہے مگر یہ تو ایک ضمنی بات ہوئی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ وہ بیگ طارق چھتاری کے پہلو میں بھی اپنے ہونے کا احساس دلارہا تھا اور ہماری آنکھوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال رہا تھا۔ اسے دیکھ کر یہ احساس بھی ہوا کہ سائوتھ میں صرف سورج ہی سوانیزے پر نہیں رہتا بلکہ چاند بھی سوانیزے سے اپنی چاندنی لٹاتا ہے اور چاند اپنی چاندنی لٹانے میں صنفِ نازک اورصنفِ سخت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتا۔ اس دن دل میں پہلی بار جانبِ جنوب میں جانے کی تمنّا نے انگڑائی لی تھی اور اس انگڑائی کے دوران ذہن میں یہ خیال بھی کوند اتھا کہ بیگ کا جب یہ رنگ ہے تو اس بیگ کی قبیل والی بیگموں کے رنگ و نور کا کیا عالم ہوگا مگر اس بیگ کے متعلق اس طرح کی بات تو مجتبیٰ حسین بھی کہہ چکے ہیں، پھر میں یہ بات کیوں کہہ رہا ہوں؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ ان لوگوں پر بھی اس حقیقت کا میں انکشاف ہوجائے کہ جس جانب ہم سیاہ عینکوں سے دیکھتے ہیں اس سمت بھی چاند اپنی چاندنی چھڑ کتا ہے اوراُدھر بھی نہایت تب و تاب کے ساتھ دودھیا منظروں کا رنگ جھلکتا ہے۔
طارق چھتاری کے گھر پر ہوئی ملاقات کے دورا ن مجھ پر یہ راز بھی منکشف ہوا کہ یہ وہی صاحب ہیں جو دیارِ دکن میں بیٹھ کر بیگ احساس کے نام سے دور دراز کے شمالی خطّوں میں بھی اپنا افسانوی سکّہ چلاتے رہتے ہیں۔
اس ملاقات کے بعد بیگ احساس سے ملنے کا اتفاق کئی سالوں بعد ہوا۔ میں اپنے مرکز اردو ٹیچنگ اینڈ رسرچ سنٹر لکھنؤ کے ایک تدریسی پروگرام کے سلسلے میں حیدر آباد گیا تھا۔ اس پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک کے انتظامات میں بیگ احساس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انتظامی تعاون کے ساتھ ساتھ بیگ احساس نے مجھے وہ کچھ بھی دیا جس سے دیارِ غیر میں احساسِ بے گانگی کے کرب سے بچا اور اپنے پن کے احساس سے سرشار ہوا جاتا ہے۔ اس نے میرے اعزاز میں ادبی محفلیں سجائیں۔مبالغے کے ساتھ میری تعریفیں کیں۔ حیدر آباد کے ادیبوں سے ملوایا۔ اس تہذیبی شہر اور اس کے گردو نواح میں واقع تاریخی جگہوں کی سیر کرائی جہاں جاکر روح کو سکون اور ذہن کو سرور حاصل ہوتا ہے اور آنکھوں میں خوش گوار حیرتیں بھرجاتی ہیں۔ ایسی حیرتیں جو تخئیل کوایٹر لگاتی ہیں اور ذہن کو بلند پرواز یاں سکھاتی ہیں۔ پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا اور ان دعوتوں میں جہاں اس نے نوابی شہر کے مخصوص ذائقوں سے متعارف کرایا جن کے مزوں کا چٹخارہ آج تک میری زبان نہیں بھولی پائی، وہیں مجھے ایک رام پیاری سے بھی ملوایا جس سے مل کر نہ صرف یہ کہ میرے ہونٹوں پر سرخ رنگ چڑھا بلکہ میرے منہہ میں رس بھی گھلا اور میری سانسوں میں خوشبو بھی بسی اورہرے پتّوں کے لمس سے دل و دماغ کو ایسا سرور حاصل ہوا کہ زرد نشیلے پتّوں کا نشہ بھی پھیکا پڑ گیا۔ اس کیف و سرور میں رام پیاریی کا وصفِ خاص تو گھُلاملا تھا ہی ایک پیارے کا خلوص اور پیار بھی شامل ہوگیا تھا جس نے اُسے دو آتشہ بنادیا تھا۔بیگ احساس کے انداز میں میں نے وہی جذبہ، وہی جوش و خروش، وہی خلوص اور وہی پیار محسوس کیا تھا جس کا مظاہر میں نے اپنی نئی نویلی بیوی کو پہلی بار پان پیش کرنے میں کیا تھا۔ بظاہر ہے تو یہ ایک عام ساواقعہ مگر انسانی رشتوں اور محبت کے میزان پر تولیے تو یہ گراں قدر واقعہ بن جاتا ہے اور اس کا وزن، وزنِ خاص ہوجاتا ہے۔
حیدرآباد میں بیگ احسا س کی بدولت کئی اور ایسے تجربات بھی میرے سامنے آئے جو میری زندگی کے ناگزیر حصہ بن گئے۔انھیں میں سے بوٹ پر ہونے والا برقعوں کا وہ رقص بھی ہے جو حسین ساگر میں دیکھنے کو ملا تھا۔ہم لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک تیراکی کے لیے تیار کھڑی بوٹ میں کوئی فلمی دھن بجی اور اس دھن پر سیا ہ برقعے لہرانے لگے۔جیسے بندھے ہوئے جسموں کا شکنجہ ایک دم سے الگ ہوگیا ہو اور رہائی پاکر جسم مستی میں جھوم اُٹھے ہوںیا جیسے جکڑے ہوئے جسموں میں بھوںچال آگیا ہو اور ایک لخت ساری بیڑیاں ٹوٹ گئیں ہوں۔ سیاہ برقوں کے اس رقص نے جہاں لطف و انبساط اور حیرت و استعجاب کا منظر پیش کیا تھا وہیں معاشرتی دبائواور زورِ بشریت کے شوروشر کو بھی اُبھار دیا تھا۔ یہ ایسا منظر تھا کہ جس نے میری تفریح کو تخلیقی کرب میں بدل دیا تھا اور جو بہت دنوں تک میری تحریروں کا محرک بنتارہا تھا۔
اس طرح کادوسرا تجربہ شعر وحکمت کے دفتر میں ہوا تھا۔ ایک دن بیگ احساس نے ایک پروفیسر صاحب سے میرا تعارف کرایا مگر ہلو ہلو کے علاوہ ہم دونوں کے ہونٹوں سے کوئی اور لفظ نہ نکل سکا۔دفتر سے باہر نکلے تو بیگ احساس نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے آپ دونوں ایک دوسرے سے مل کر خاموش رہے ؟کوئی ناراضگی یا کوئی اور وجہ ؟‘‘
’’وجہ کوئی نہیں۔بات بس اتنی سی ہے کہ وہ صاحب شاید کچھ لکھتے نہیں ہیں اس لیے میں انھیں نہیں جانتا اور غالباً وہ کچھ پڑھتے بھی نہیں اس لیے وہ مجھے نہیں جانتے ‘‘۔میرا جواب سن کر بیگ احساس کے ہونٹوں سے قہقہہ پھوٹ پڑا۔
’’اس چھوٹی سی بات پر اتنی لمبی ہنسی ؟ایسا کیوں، جب میں نے بیگ احساس سے یہ سوال کیا تو ان کا جواب تھا
’’اس ہنسی کی وجہ ہیں تمھارے یہ دو لفظ ’’شاید‘‘ اور ’’غالباً‘‘ جنھوں نے ایک کھلی ہوئی حقیقت کو Benefit of Doubtدے دیا ہے۔ غضنفر ! سچی بات تو یہ ہے کہ یہ حضرت اپنی تنخواہ کی رقم پڑھنے اور رجسٹر پر دستخط کرنے کے سوا اور کچھ نہیں لکھتے پڑھتے۔اس کے باوجود ان کا مرتبہ ایسا ہے کہ یہ اپنے جیسے کئیوں کو پروفیسر کی گدّی پر بٹھاچکے ہیں اور کتنے ہی پڑھے لکھوں کو اپنے دستخط کے تلوار سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک چکے ہیں۔یہ واقعہ مجھے اس لیے سنانا پڑ رہا ہے کہ ہمارے احساس کو یہ چرکا لگ سکے کہ ہم نے اپنی زبان کی قسمت کن ہاتھوں میں سونپ دی ہے۔
بیگ احساس سے اس ملاقات کے بعد بھی حیدر آباد میں کئی اور ملاقاتیں ہوئیں مگر میری ہر ملاقات مجھے تازہ محسوس ہوئی۔ بیگ احساس کو میں کبھی باسی نہیں لگا۔ انھیں میں کبھی بار محسوس نہیں ہوا۔ ہر دفعہ وہ اسی تپاک، اسی خلوص اوراسی جوش سے ملے جس طرح کوئی پہلی بار اپنے کسی عزیز سے ملتا ہے۔ ہر بار ان کی موٹر مجھے لیے لیے حیدرآباد کی سڑکوں، گلی کو چوں، بازاروں، محلّوں اور دور دراز کے علاقوں میں پھرتی رہی۔میرے لیے وہ پر تکلف دعوتوں کا اہتمام کرتے اور کراتے رہے اور جونعمتیں پچھلے سفر میں دسترخوان پر آنے سے رہ گئی تھیں، انھیں بھی سجاتے رہے۔تہذیب و تاریخ اور ادب، فنون کے اس شہر کے نئے نئے گوشوں سے ملاتے رہے۔ یہاں کے نئے نئے جلوے دکھاتے رہے اور میرے دل میں نئے نئے احساسات و جذبات جگاتے رہے۔
ان سب کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ ان سب کے اہتمام و انتظام میں وقت تو صرف ہوتا ہی ہے، جیبیں بھی خالی ہوتی ہیں۔ وہ وقت صرف ہوتا ہے جس کے پل پل کی قیمت ہوتی ہے اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں تو اس وقت کا ایک ایک لمحہ بیش قیمت بھی ہوجاتا ہے اور وہ جیبیں خالی ہوتی ہیںجنھیں بھرنے کے لیے ہمارا جسم، دل اور دماغ تو خالی ہوتا ہی ہے اکثر ہمیں اپنے دین و ایمان کو بھی خالی کرنا پڑتا ہے اور اس مادّہ پرستی کے دور میں جبکہ کسی کی دلدوز چیخ سن کر بھی کوئی سکّہ ان جیبوں سے باہر نہیں آپاتا، انھیں کسی کے لیے یوں خالی کردینا وہ بھی بنا کسی غرض کے کوئی آسان کام نہیں مگر یہ مشکل کام بیگ احساس کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں۔ میری نظر میں بیگ احساس کی شخصیت کا یہ بھی ایک ’’خوش ‘‘ ہے جسے خوش رنگیوں سے گندھی مجتبیٰ حسین کی مالا میں شامل ہوجانا چاہیے۔
ان ملاقاتوں کے دوران اس خوش حضال اور خوش جمال بیگ احساس کے کئی بیگی یعنی جلالی جو ہر وں کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
ادیب وفن کار خصوصاً زبان و ادب کے شعبوں سے جڑے ہوئے ادیب مختلف طرح کی مصلحتوں اور دور اندیشوں کے شکار ہوتے ہیں اور وہ مصلحتیں اور دور اندیشیاں انھیں ایسا بزدل اور دبّو بنادیتی ہیں کہ دوسروں کی بے جازیادتیوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجوداپنا منہہ اور قلم دونوں بندرکھتے ہیں مگر بیگ احساس ان سب سے متثنیٰ نظر آتے ہیں۔ اس کابڑا ثبوت تو ان کا یہ پراگراف ہے جو جیّد اور جغادری قسم کے نقادوں کے بھرے مجمعے میں بہ بانگِ دہل پڑھا گیا:
’’دراصل ہمارے بعض نقاد بوڑھے ہوچکے ہیں، ان کا ذہن مشروط ہے اور وہ نیا ادب پڑھنا نہیں چاہتے۔اس لیے تنقید لکھنے کی ذمّے داری بھی فن کاروں نے قبول کرلی ہے چاہے وہ انگریزی کے بڑے بڑے کوٹیشن نہ دیتے ہوں۔ جنّاتی زبان لکھنے پر قادر نہ ہوں لیکن اپنے دور کے افسانے کی تحسین اور اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے کا شعور تو رکھتے ہیں۔ عرصہ پہلے ادیب کے موت کا اعلان کیا گیا تھا، اب وقت آگیا ہے کہ نقاد کی موت کا اعلان کردیا جائے۔‘‘
یہ بیان ایسا ہے کہ اس پر ایک عالم کو برافروختہ ہوجا نا چاہیے تھا اور ایک عالم اس پر چراغ پا ہوابھی اور اس کے لیے بعض حلقوں کی جانب سے کافی لعن طعن بھی ہوا۔ ممکن ہے انھیں اس کے ردّ عمل میں کئی طرح کے نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہوں مگر بیگ احساس کو اسکی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ اگر پرواہ ہوتی تو وہ تو وہ اپنی اس شعلہ بیانی کو اِدھر اُدھر کی محفلوں میں اور سب رس کے اداریوں میں جاری نہیں رکھتے۔ نوکِ قلم میں تلوار کی دھار پیدا کرنے اور اپنے اس شمشیر خامہ کو بے محابہ چلانے کے عمل میں بیگ احساس کے نام کے دونوں جزو کی معنویت صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ان کا احساس تو کمانیں تانتاہی ہے بیگ بھی تیر چھوڑنے سے ذرا بھی نہیں ہچکتا۔
دوسرا بیگی یعنی جلالی جوہر ان کی اعلا ظرفی اور ضبطِ نفسی کی صورتوں میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔یہ جوہر ویسے توان کے معاملاتِ دل، کاروبار دنیا منصب مدیر ان کی تحریر، تقریر سب میں دیکھنے کو ملتا ہے مگر محفلِ کیف و سرور میں اس کی تب و تاب ایسی نظر نواز ہوتی ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔
پوری کی پوری لال پری کے اندر سماجانے کے باوجود بیگ احساس کے سینے کے سمندر میں مدوجزر نہیں اٹھتے۔ رگ و ریشے میں جذب کی کیفیت پیدا ہوجانے کے بعد بھی ان کی زبان نہیں کھلتی۔سینے میں امواج خماری کے طلا طم کے بعد بھی ہونٹوں پر لفظوں کا ایسا کوئی ہلکورہ نہیں آتا جو ساحلِ تہذیب کو توڑ پھوڑدے، حدّادب کوگرادے جبکہ ایسی محفلوں کا عموماً عالم تو یہ ہوتا ہے کہ حلق میں دو گھونٹ گئے نہیں کہ جسم میں زلزلہ شروع ہوگیا اور منہ سے ایسے ایسے دہکے ہوئے سرخ لاوے باہر نکلنے لگے کہ جنھیں دیکھ کر ہی جی جلنے لگ جائے۔ایسے موقعوں پر نہ صرف یہ کہ وہ اعلاظرفی اور ضبط نفسی کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ ہوش و حواس گنوادینے اور اپنا توازن کھودینے والوںکو ان کے ٹھکانوں تک پہنچاکر اپنی ہوش مندی اور اپنے مضبوط توازن کا مظاہر ہ تو کرتے ہی ہیں ان کی بیگموں کی نظر میں خود کو ان کے آدمیوں سے برتر بھی ثابت کرتے ہیں۔یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک ’’خوش‘‘ ہے جسے خوش نفسی یاخوش ضبطی کا نام دیا جاسکتا ہے۔
بیگ احساس کو میں ایک نقاد سمجھتا تھا۔ نقادجو ایک ایک نکتے پر نظر رکھتا ہے۔ ایک ایک نقطے کے مقام کو سمجھتا ہے۔ جو ہر لمحہ چوکس اور چوکنّا رہتا ہے جو اپنا کام مستعدد سے کرتا ہے جو ہر جگہ اور ہر معاملے میں ہشیاری سے کام لیتا ہے، جو کبھی غافل نہیں ہوتا مگر حیدرآباد کے ایک سفر کے دوران میری اس سمجھ کودکھّا پہنچا مگر یہ دکھّا مجھے کافی اچھا محسوس ہوا۔ ہوا یہ کہ انھیں دنوں گوپی چند نارنگ کسی ادبی تقریب میں شرکت کے لیے ہوائی جہاز سے حیدرآباد آرہے تھے اور بیگ احساس کو انھیں رسیو کرنے ایئر پورٹ جانا تھا۔ چوںکہ اس وقت میں بھی ان کے پاس تھا اس لیے انھوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ ہم لوگ ایئر پورٹ پہنچ کر گیٹ کے پاس کھڑے ہوگئے۔ جہاز کی لینڈنگ کے کافی دیر بعد بھی جب نارنگ صاحب باہر نہیں نکلے تو ہمیں تشویش ہوئی۔ بیگ احساس نے فون ملاکر پوچھا کہ آپ کہاں ہیں، ہم لوگ کافی دیر سے گیٹ کے باہر کھڑے ہیں تو نارنگ صاحب کا جواب آیا کہ وہ باہر نکل آئے ہیں اور گیٹ پر ہمارا انتظار کررہے ہیں مگر ہم لوگ انھیں کہیں دکھائی نہیں پڑرہے ہیں۔ بیگ احساس نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پھر کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ہم تو بالکل گیٹ کے پاس کھڑے ہیں۔اس پر نارنگ صاحب نے جو جواب دیا اسے سن کر بیگ احساس ہڑبڑا سے گئے، نارنگ صاحب کا جواب یہ تھا کہ کہیں آپ لوگ Departuresپر تو نہیں کھڑے ہیں؟ جواب پر ہم دونوں کی نگاہیں اوپر اٹھ گئیں۔ گیٹ کے اوپر بڑے بڑے حروف میں واقعی Departure لکھا ہواتھا۔
بیگ احساس اپنی اس بھول پر خاصے پشیما ں تھے اور اپنی فنکارانہ خصلت پر جزبز ہورہے تھے مگر مجھے ان کا یہ روپ اچھا لگ رہا تھا کہ اس روپ نے اُنھیں میرے اور قریب کردیا تھا۔
عام طور پر ارد کے ادیب اپنے ادبی اور تدریسی سفر میں کسی شاگرد یا شاگردہ کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں یاتنہا جاتے ہیں مگر پروفیسر بیگ احساس کا اندازِ سفر مختلف ہوتا ہے، وہ نہ تو کسی شاگرد یا شاگردہ کو لے جاتے ہیںاور نہ ہی تنہا نکلتے ہیں۔ ان کے ہر سفر پر ان کے ساتھ ان کی بیگم صائمہ بیگ ہوتی ہیں۔ صائمہ بیگ کو بیگ احساس اس طرح گھماتے ہیں جیسے کہ وہ ان کی نگرانی میں تازہ تازہ آئی ہوئی کوئی رسرچ اسکالر ہو۔ اس میں صائمہ بیگ کو کریڈٹ تو جاتا ہی ہے کہ انھوںنے بنا ادب لکھے پڑھے اپنے آپ کو اس عمر میں بھی ایک ایسا تروتازہ اسکالر بنا رکھا ہے کہ ان کے بغیر شوہر ایک قدم بھی گھر سے باہر نہیں نکالتا۔ ساتھ ہی تھوڑا کریڈٹ بیگ احساس کو بھی جاتا ہے کہ ایسے زمانے میں جبکہ شوہر بیوں کو دور رکھنے یا ان سے دور رہنے کی تدبیر یں کیا کرتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ بیوی پر اکتفا کرتے ہیں بلکہ خوشی خوشی اسے یہاں وہاں لیے لیے بھی پھرتے ہیں۔اس عمل میں ان کی شرافت اور نیک نیتی کا دخل تو ہے ہی ان کے اس چراغ محبت کی کار فرمائی بھی ہے کہ جس میں ایسا روغنِ ڈالا گیا ہے کہ جس نے آج بھی اسے آب و تاب کے ساتھ جلائے رکھا ہے۔ بعض لوگوں کو شبہہ یہ ہے کہ صائمہ کا بیگ احسا س کا اسکالر بننے میں ان کے رنگ و روپ سے زیادہ ان کے اندازِ مخاطب اور لب و لہجے کا دخل ہے لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔اگر ایسا ہوتا تو دوسرے ادیبوں کی بیویاں بھی وہی انداز اختیار کرلیتیں اور وہ بھی’’ میں بولتی ہوں کی جگہ بولتا ہوں‘‘ بولنے لگتیں۔ سبب خواہ بیگ احساس کی شرافت اور محبت ہو یا صائمہ بیگ کے رنگ وروپ کی نزاکت یا ان کے لب ولہجے کی دبازت ہو مگر یہ تو ہوتا ہی ہے کہ صائمہ کی موجود گی میں بیگ احساس کا علمی وتدریسی سفر بھی خاصا ہنی مو‘نی ہوجاتا ہے۔
ویسے تو بیگ احساس کی بہت سی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ ان کے بہت سے جملے دل کو چھوتے ہیں۔ ان کے بہت سے لفظ دماغ کے تاروں کو چھیڑ تے ہیں اور رگوں میں مسرت کی لہریں دوڑاتے ہیں مگر سب سے زیادہ لطف ان کے منہہ سے نکلے لفظ ’’ہاں‘‘ سے ملتا ہے ٹیلی فون پر جب وہ ’ہاں‘ کہتے ہیں اور اس ’ہاں‘ کی جب تکرار سنائی دیتی ہے تو لگتا ہے کہ جیسے گیت کا کوئی مکھڑا سنگیت کے سرتال کے ساتھ رپیٹ ہورہاہو یا جیسے کسی مترنم بحر میں لکھی ہوئی کسی نظم کے ٹیپ کا کوئی بند بار بار بلند ہورہا ہو۔ اس طرح کا ’ہاں‘ اسی وقت نکل سکتا ہے جب کسی کو سنتے وقت کوئی اپنے کان کے علاوہ اپنا دل بھی ٹیلی فون کے چونگے سے لگادے اور بولنے والے کی ایک ایک بات کا اعتراف دل کی گہرائیوں سے کرتا جائے۔ واقعی ان کا اس ’ہاں‘ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بات کرنے والے کا ’’نا‘‘ بھی انھیں منظور ہے۔یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک خوش ہے اور یہ ایسا خوش ہے کہ جسے سن کر ناخوش بھی خوش ہوجائے۔مقدور بھر میرے خامے نے بیگ احساس کو ٹٹولنے کی کوشش کی اوران کی ’خوبصورت شخصیت کے کچھ ایسے خوش پہلو بھی تلاش کیے کہ اگر انھیں مجتبیٰ حسین کی بناتی ہوئی خوش رنگیوں کی مالا میں شامل کردیا جائے تو بیگ احساس اور بھی خوش رنگ دکھائی دے سکتے ہیں۔ یہ’’خوش ‘‘ اگر آپ کو بھی خوش کُن لگتے ہیں تو میرے خامے کو داد دیجیے نہیں تو مجتبیٰ حسین کے قلم کو ایک بار پھر سے چوم لیجیے۔