منی ٹائزیشن پلان: امکانات اور چیلنجز

0

صبیح احمد

اپنے گزشتہ بجٹ میں اعلان کردہ منیٹائزیشن پلان کے مطابق مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے 4 برسوں کے دوران 6لاکھ کروڑ روپے کے برائون فیلڈ انفرااسٹرکچر اثاثے کو منیٹائز کرنے کے لیے اولوالعزم نیشنل منیٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی) کو لانچ کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت حکومت 2022سے 2025 تک اضافی ریونیو پیدا کرنے کے لیے مختلف سیکٹر کے موجودہ اثاثوں کو پرائیویٹ اداروں کے حوالے کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ اثاثوں کے منیٹائزیشن کے لیے جن 3 اہم سیکٹروں کی شناخت کی گئی ہے ان میں شاہراہیں، ریلویز اور تونائی شامل ہیں اور ان کے مجموعی اثاثوں کا بالترتیب 27 فیصد، 25 فیصد اور 15 فیصد منیٹائزیشن کیا جائے گا۔ حکومت نے فی الحال جن پروجیکٹوں کی شناخت کی ہے ان میں 26,700 کلومیٹر سڑکیں، 400 ریلوے اسٹیشن 90پیسنجر ٹرین، 28,600 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائنس، بھارت نیٹ فائبر نیٹ ورک، اور بی ایس این ایل و ایم ٹی این ایل ٹاورس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جن دیگر سیکٹروں کو لیز پر دینے کا منصوبہ ہے، وہ پبلک ویئر ہائوسز، شہری ہوابازی اور پورٹ انفرااسٹرکچر، اسپورٹس اسٹیڈیم اور کانکنی وغیرہ جیسے اثاثے ہیں۔ کیا مودی حکومت کے اس اقدام سے پرائیویٹ سیکٹر میں نیا حوصلہ پیدا ہوگا اور وہ سرکاری شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے آگے آئیں گے؟
وزیراعظم نریندر مودی نے جب مرکز میں اقتدار سنبھالا تھا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ’کم سے کم سرکاری مداخلت‘ پر زور دیا تھاکہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ 7 برسوں کے دوران ان کی حکومت کا اولوالعزم نجکاری پلان خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب تک کی سب سے اہم کوشش ایئر انڈیا کی نجکاری کے حوالے سے رہی ہے جو بد نظمی کا شکار ہو کر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بزنس سے خود کو الگ کرنے کی حکومت کی جدوجہد جاری ہے۔ مثلاً حال ہی میں ریلوے آپریشن کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کو متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی کامیابی نہیں ملی۔ حکومت کے ذریعہ پیش کردہ مجموعی طور پر 12 روٹ کلسٹر میں سے صرف 3 کیلئے محض 2 کمپنیوں نے بولی لگائی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 2 کمپنیوں میں سے ایک حکومت کے ہی ماتحت ہے۔ بدنظمی کا شکار معیشت جو کووڈ19- بحران کے پہلے سے ہی تیزی سے تنزلی کی طرف بڑھ رہی تھی اور بے ہنگم جی ایس ٹی اور ناقابل بیان کارپوریٹ ٹیکس کے نفاذ سے پیدا شدہ صورتحال کا سامنا کرنے والی مودی حکومت اپنے بڑے بڑے پروجیکٹوں کے لیے پیسے کا انتظام کرنے کی خاطر سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔

ایئر انڈیا اور بی پی سی ایل سمیت سرکاری کمپنیوں کی نجکاری میں سست رفتار اور حالیہ دنوں میں ٹرینوں میں شروع کردہ پی پی پی پیش رفتوں میں غیر حوصلہ افزا بولیوں سے اس بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں کی دلچسپیوں کو متوجہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

حکومت نے انہی کوششوں کے تحت ایک نئی پیش رفت کرتے ہوئے پچھلے ہفتہ نیشنل منیٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی) کا اعلان کیا۔ نجکاری کے بر عکس جس میں سرکاری کمپنیوں کو فروخت کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا جس میں ارتداد سرمایہ کاری (Disinvestment) کی جاتی ہے یعنی پبلک سیکٹر کے یونٹوں کے شیئروں کو غیر سرکاری کمپنیوں کے ہاتھوں یا کسی فرد کے پاس فروخت کردیا جاتا ہے، نیشنل منیٹائزیشن پائپ لائن بالکل مختلف ہے۔ خود وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: ’این ایم پی برائون فیلڈ اثاثوں کے بارے میں ہے جس میں پہلے سے ہی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، جو یا تو خسارے میں ہے یا جس کا صحیح استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔‘ اسے ’ایسیٹ ری سائیکلنگ‘ یعنی پہلے سے موجود اثاثہ کی ری سائیکلنگ کہا جا سکتا ہے۔ اس پلان کے تحت حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو سڑکوں، توانائی کے شعبہ میں ٹرانسمیشن لائنس، اسٹیڈیم، ویئر ہائوسز جیسے اثاثوں کی آپریشن کی ذمہ داریاں اور ریونیو حقوق سونپے گی۔ اس کے عوض میں حکومت کو بڑی رقم ملے گی اور اس رقم کو دیگر انفرااسٹرکچر کے پروجیکٹوں میں لگایا جائے گا۔ اصولی طور پر اس طرح حکومت کو موجودہ سرکاری قرض میں مزید اضافہ کے بغیر نئے اولوالعزم بنیادی ڈھانچے سے متعلق منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملے گا۔ اس اسکیم کا اہم ترین پہلو یہ بتایا جا رہا ہے کہ حکومت زیر غور اثاثہ کا مالکانہ حق کسی دوسرے کو نہیں سونپے گا۔ ایک طے شدہ مدت کے خاتمہ کے بعد جو ممکنہ طور پر کئی دہائیوں پر مشتمل ہوگی، ریونیو حقوق خود بخود سرکار کے پاس واپس آ جائیں گے۔
بہرحال یہ سب سننے میں بہت اچھا لگتا ہے۔ جب منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا مرحلہ آئے گاتب پتہ چلے گا کہ یہ کتنا کارآمد ہے۔ اثاثہ کا مالکانہ حق اپنے پاس رکھ کر اور ایک طے شدہ مدت کے لیے صرف ریونیو کے حقوق منتقل کر کے حکومت درحقیقت ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ ماڈل جسے ’پی پی پی‘ کہا جاتا ہے، پر نظر ثانی کی بات کر رہی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ دراصل بغل دروازے سے پی پی پی ہی ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کا آج کے دور میں پی پی پی پر بھروسہ نہیں رہا ہے کیونکہ گزشتہ 2 دہاہیوں کا تجربہ ان کے لیے اچھا نہیں رہا۔ یہ بات اب سب کو معلوم ہے کہ آپ جب پی پی پی بزنس میں ایک بار آ گئے تو اس کے بعد اس پر بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں بابو کلچر یعنی بیوروکریسی کی رکاوٹوں کو ختم کرنے کیلئے حالانکہ 1991 کے بعد سے کافی کوششیں ہوئی ہیں لیکن اب بھی کافی کچھ کیا جانا باقی ہے۔ بہت سارے معاملوں میں فائلیں ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل سے منتقل ہونے میں کتنا وقت لگے گا، یہ بیوروکریٹس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پرائیویٹ ٹرین آپریشن کے معاملے میں سرد مہری سب کے سامنے ہے۔ جہاں تک قومی منیٹائزیشن پائپ لائن کا سوال ہے، اس کے حوالے سے کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ کئی اثاثوں میں ریونیو کے واضح وسائل نہیں ہے۔ گیس اور پٹرولیم پائپ لائن نیٹ ورک کے استعمال کی صلاحیت کتنی ہے، اس کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہے۔ تنازعات کی صورت میں اسے حل کرنے کا میکانزم کیا ہوگا، توانائی کے شعبہ کے اثاثوں میں ریگولیٹڈ ٹیرف کا مسئلہ ہے اور 4 لین سے کم کی قومی شاہراہوں میں سرمایہ کاروں کی کم دلچسپی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ حکومت نے اپنے این ایم پی فریم ورک میں ان چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کی ہے لیکن پلان کی کامیابی اس بات پر منحصر کرے گی کہ اس پر عمل درآمد کس طرح ہوتا ہے۔ منیٹائزیشن میں لین دین کا جو خاکہ ہوگا وہ کافی اہمیت کا حامل ہوگا۔ ایئر انڈیا اور بی پی سی ایل سمیت سرکاری کمپنیوں کی نجکاری میں سست رفتار اور حالیہ دنوں میں ٹرینوں میں شروع کردہ پی پی پی پیش رفتوں میں غیر حوصلہ افزا بولیوں سے اس بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں کی دلچسپیوں کو متوجہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS