پلاسٹک کچرے کے مینجمنٹ کا سوال

0

اتل کنک

کسی چیزکے استعمال میں اضافہ اس کی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔ مگر ماہر معاشیات گریشم کا یہ ضابطہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بری کرنسی اچھی کرنسی کو چلن سے باہر کردیتی ہے۔ ہندوستان میں پلاسٹک کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ کے پہلے سماجی اور اجتماعی مواقع پر جن برتنو ںکا استعمال کیا جاتا تھا، وہ باقیات کے کنٹرول کی فکر کا سبب نہیں بنتے تھے۔ صرف ان کا انتظام کرنا ہوتا تھا۔ لیکن پلاسٹک کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ہر سال 80لاکھ ٹن نقصان دہ پلاسٹک سمندر میں پھینک دی جاتی ہے جو نہ صرف ماحولیات کو بالواسطہ طور پر نقصان پہنچا رہی ہے، بلکہ سمندری حیوانات کے لیے بھی جان کی دشمن بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک سے ہونے والی ’مائیکرواسکوپک‘ آلودگی مٹی، ہوا، پانی اور کھانے پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ لانے لے جانے اور پیکنگ میں آسانی کی وجہ سے پوری دنیا میں غذائی اجناس کو پلاسٹک پیکنگ میں دینے کی روایت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ پیکنگ صارفین کی صحت اور ماحولیات دونوں سے کھلواڑ کررہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کے مختلف ممالک میں یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ اپنے پروڈکٹس کو پلاسٹک پیکنگ میں فروخت کرنے والے پروڈیوسرز سے اس کا اضافی چارج وصول کیا جائے۔
تقریباً 33ممالک میں پلاسٹک کی باقیات کی تھیلوں پر پابندی ہے، لیکن پابندی کے ضوابط پر عمل آوری یقینی بنانے والی ایجنسیوں کے ڈھلمل رویہ کی وجہ سے قانون اپنا کام نہیں کرپارہا ہے۔ پھر کچھ ممالک میں پروڈیوسروں نے ممنوعہ پلاسٹک کی جگہ پر مخصوص قسم سے بنی پلاسٹک کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح وہ قانون کی پکڑ سے تو بچ گئے ہیں، لیکن پلاسٹک کے متبادل کے طور پر پلاسٹک ہی استعمال کررہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں دانشوروں کے ایک گروپ نے کہا کہ عام پلاسٹک کی جگہ پر پیڑوں سے تیار کیا جانے والا ’نامیاتی پلاسٹک‘ (Organic Plastic)زیادہ ماحول دوست ہوسکتا ہے۔ لیکن مختلف ریسرچ میں پایا گیا کہ کچھ معنوں میں تو نامیاتی پلاسٹک کا مینجمنٹ مصنوعی پلاسٹک سے بھی زیادہ سخت اور نقصان وہ ہوسکتا ہے۔ ماحولیات کے لیے اس کے اپنے خطرے ہیں ہی۔

مدورے کے آر واسودیون نے اس تعلق سے ملک اور دنیا کو ایک راہ دکھائی ہے۔ 2001 میں انہوں نے پلاسٹک کچرے کی مدد سے سڑکیں بنانے کے ایک پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا اور 2006 میں اپنے اس کام کا پیٹنٹ بھی حاصل کرلیا۔ آر واسودیون کی سڑکیں ایک ساتھ دو مسائل کا حل کرتی ہیں۔ وہ نہ صرف پلاسٹک کچرے کے انتظام کا راستہ بتاتی ہیں، بلکہ سڑکوں پر بار بار پڑنے والے گڑھوں کے مسئلہ سے بھی عام آدمی اور سسٹم کو نجات دلاتی ہیں، کیوں کہ یہ سڑکیں water resistant ہوتی ہیں اور بنائے جانے کے برسوں بعد بھی ان پر گڑھے نہیں پڑتے۔

پلاسٹک، مصنوعات کو پانی اور نمی سے بچاتی ہے، وہ ہلکی ہوتی ہے، زیادہ پائیدار اور کئی متبادل کے مقابلہ میں زیادہ سستی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دانشوروں کا ایک گروپ کہتا ہے کہ پلاسٹک خود میں ایک مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کا غلط استعمال اور اس کے مناسب انتظام کا فقدان ایک مسئلہ ہے۔ اگر آبادی کے ذریعہ پھینکے جانے والے کچرے کو صحیح طریقہ سے ضائع کیا جائے اور ری سائیکلنگ کے لیے مفید پلاسٹک کو چھانٹ کراسے مناسب شعبہ تک پہنچا دیا جائے تو پلاسٹک کچرے کے انتظام کی فکر سے کچھ حد تک نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ اس معاملہ میں ہندوستان کے اعدادوشمار حیران کن طور پر متعدد تکنیک سے آراستہ ممالک کے مقابلہ میں مؤثر ہیں۔
پالیتھیلین ٹیرافتھلیٹ نامی پلاسٹک کا استعمال ٹھنڈے مشروب بنانے والی بوتلوں کو بنانے میں ہوتا ہے اور ہندوستان میں ان بوتلوں کی پلاسٹک کو 90فیصد کی شرح سے ری سائیکلنگ کے ذریعہ سے کام میں لے لیا جاتا ہے، جبکہ جاپان جیسے ممالک میں یہ شرح 72.1فیصد اور یوروپ میں 48.3 فیصد ہے۔ دراصل ہندوستان میں کباڑی اور کچرا چننے والوں کو ان بوتلوں کو چھانٹنے سے کچھ آمدنی ہوجاتی ہے اور وہ گلی گلی میں گھوم کر ٹھنڈے مشروب کی بوتلوں کو اکٹھا کرلیتے ہیں۔ وہاں سے یہ بوتلیں ایک غیرمنظم نظام کے ذریعہ ری سائیکلنگ کے لیے پہنچائی جاتی ہیں۔ ان سے پالیسٹر اور ڈینم جیسے پروڈکٹ بنتے ہیں۔ اس نظریہ سے، معمولی سے نظر آنے والے کچرا چننے والے اور کباڑے کا کاروبار کرنے والے دراصل نام نہاد اشرافیہ کے مقابلہ میں ماحولیات کے تحفظ میں زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر شہری کچرے کو صحیح طریقہ سے ضائع کیا جائے تو یہ کام آسان ہوسکتا ہے۔ اپریل 2016میں جب ہندوستان میں شہری کچرے کو ضائع کرنے سے متعلق قانون بنا تھا تو اس میں یہ بھی التزام تھا کہ پلاسٹک بنانے والے 6ماہ کی مدت میں پلاسٹک کی ری سائیکلنگ سے متعلق پلانٹس کا بھی قیام کریں گے۔ بہرحال اب تک ایسا کتنے پروڈیوسروں نے کیا ہوگا، سب جانتے ہیں۔ پھر پلاسٹک کی ری سائیکلنگ میں کچھ تکنیکی مسائل بھی ہیں۔ مثلاً پلاسٹک پیکنگ میں کام آنے والی طرح طرح کی پلاسٹک۔ ان مختلف قسم کی پلاسٹک کا استعمال پروڈکٹ کو الگ الگ سطح پر تحفظ دینے کے لیے ہوتا ہے۔ ان سب کا ڈسپوزل ایک ہی طریقہ سے نہیں ہوسکتا۔ تھرموپلاسٹ کو پگھلا کر اس کی خاص قسم کی اینٹیں بنائی جاتی ہیں، جن کا استعمال سیمنٹ پلانٹس میں ایندھن کے طور پر ہوتا ہے۔ لیکن پلاسٹک کا جلایا جانا تو نقصان دہ گیسوں کا اخراج کرے گا ہی۔ ان اینٹوں کے استعمال کو اگر بے ضرر کرنا ہو تو ان کا استعمال ایک ہزار ڈگری سیلسیس درجہ حرارت پر کرنا ہوتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ہندوستان میں ہی 2017 میں 65لاکھ ٹن پلاسٹک کچرے کی پیداوار ہوئی۔ مکمل بیداری، مستحکم ارادہ اور مناسب ذرائع کے بغیر اتنی بڑی مقدار میں اس پلاسٹک کا ڈسپوزل ممکن نہیں ہے۔
مدورے کے آر واسودیون نے اس تعلق سے ملک اور دنیا کو ایک راہ دکھائی ہے۔ 2001میں انہوں نے پلاسٹک کچرے کی مدد سے سڑکیں بنانے کے ایک پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا اور 2006میں اپنے اس کام کا پیٹنٹ بھی حاصل کرلیا۔ آر واسودیون کی سڑکیں ایک ساتھ دو مسائل کا حل کرتی ہیں۔ وہ نہ صرف پلاسٹک کچرے کے انتظام کا راستہ بتاتی ہیں، بلکہ سڑکوں پر بار بار پڑنے والے گڑھوں کے مسئلہ سے بھی عام آدمی اور سسٹم کو نجات دلاتی ہیں، کیوں کہ یہ سڑکیں water resistantہوتی ہیں اور بنائے جانے کے برسوں بعد بھی ان پر گڑھے نہیں پڑتے۔ اس نظریہ سے وہ روایتی تارکول(بٹومنی) یا گٹّی-سیمنٹ سے بنی سڑکوں کے مقابلہ میں بہت مضبوط پائی گئی ہیں۔ تمل ناڈو، ہماچل پردیش اور کیرالہ میں ہی نہیں، قریبی ملک بھوٹان میں بھی ان کی تکنیک کا استعمال کرکے متعدد سڑکوں کی تعمیر کرائی گئی ہے اور ان سڑکوں کو کوالٹی کے نظریہ سے بہت پائیدار پایا گیا ہے۔ مگر بار بار سڑک کی تعمیر اور سڑک مرمت کے کام پانے والے ٹھیکہ دار اور ان کے بہی خواہ افسروں کی رکاوٹوں کے سبب یہ تجربہ اب بھی ملک میں بہت مقبول نہیں ہوپایا ہے۔ لیکن یہ تجربہ ملک اور دنیا کو پلاسٹک کچرے کے ڈسپوزل کی فکر سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہندوستان میں پلاسٹک کے مینجمنٹ سے متعلق کئی کوششیں ہوئی ہیں لیکن پلاسٹک کے ذریعہ پیدا ہونے والے ماحولیاتی بحران کے مقابلہ میں یہ کوششیں کافی ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ 2016میں ہی پلاسٹک کیری بیگ کی کم سے کم موٹائی چالیس مائیکرون سے بڑھا کر پچاس مائیکرون کردی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے ماحولیات پرکاش جاوڈیکر نے عوامی طور پر کہا تھا کہ ملک میں ہر دن پیدا ہونے والے پلاسٹک کچرے میں سے 6ہزار ٹن کچرا ایسا ہوتا ہے جسے اکٹھا کرپانا ہی ممکن نہیں ہوتا۔ مرکزی اور کئی ریاستی حکومتوں نے صرف ایک مرتبہ کام آنے والے یعنی ’سنگل یوز‘ پلاسٹک پروڈکٹس پر پابندی لگانے سمیت پلاسٹک مینجمنٹ کے ضوابط کو سخت کرنے میں بھی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پلاسٹک کچرے کے جگہ جگہ لگے ڈھیر بروقت ڈسپوزڈ ہوپاتے ہیں یا انسانیت کے لیے چیلنج بنے رہتے ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS