محمدمدثرحسین اشرفی پورنوی
موجودہ اس حقیقت کاشاید ہی کوئی منکرہوکہ الفت ومحبت، اخوت ، بھائی چارگی، ہمدردی، خیرخواہی، میل ملاپ، اتحادواتفاق اور اس قسم کی دیگرخوبیاں جوآج سے بیس پچیس سال قبل لوگوں کے درمیان پائی جاتی تھیں اب وہ رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ انسان کی توجہ جب اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے کہ آخرکیوں قدیم روایات کوفراموش کیاجارہاہے؟تولوگ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ زمانہ بدل گیاہے، دورتبدیل ہوگیاہے۔ایسے لوگوں سے پوچھاجانا چاہئے کہ کیابدل گیا؟ آسمان، زمین ، چاند،سورج، ستارے، دریاکی روانی ، اشجارکے پھل دینے کاانداز آخرکس چیز میں تبدیلی آ گئی؟ سب کچھ وہی ہے اوران کے معمولات بھی وہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ زمانہ نہیں بدلا ہے بلکہ لوگوں کے دل بدل گئے ہیں، محبت بدل گئی ہے۔پہلے لوگوں کی آپسی محبت دنیوی منفعت سے پرے ہوتی تھی اورآج لوگوں کی آپسی محبت سوائے چند کوترک کرکے بغیرکسی مطلب کے نہیں ہوتی ہے۔یہ بات تلخ ضرورہے مگرمبنی برحقیقت ہے ۔
پہلے گاؤںدیہات کاماحول بڑاخوشگوارہوا کرتاتھا، سب ایک جگہ بیٹھ کرایک دوسرے کی بات سنتے تھے۔ کبھی اگرکسی کے مابین لڑائی یا جھگڑاہوتاتھاتولوگ آپس میں معاملہ کوحل کرواکر دونوں فریقین کوملادیتے تھے۔ چندہی لمحوںمیںیہ منظردیکھنے کوملتاتھا کہ دونوںایک ساتھ ایسے چل رہے ہیں جیسے ان کے مابین کچھ ہواہی نہیں ۔پہلے گاؤں میں کسی معززشخص کو’ حکم‘ بنادیاجاتا، پھراس کافیصلہ سب بخوشی قبول کرتے تھے، مگراب وہ ماحول نہ رہا۔ آج اگرکسی کاکسی سے معمولی جھگڑابھی ہوجائے تولوگ اس کواتنابڑھاوادے دیتے ہیں کہ مخالفین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ اب ویسے ’حکم‘ بھی نہ رہے جوسچائی کی راہ پرچلتے ہوئے حکم صادرکریں،اورنہ ہی لوگ کسی کو ’حکم‘ ماننے کے لئے تیارہیں ۔آنکھوں نے الفت ومحبت اورآپسی اتحادواتفاق کا وہ حسین دوربھی دیکھاہے کہ معاش کی تلاش میں ملک کے مختلف صوبے میں جانے والے بندگان خداجب اپنے وطن مالوف کولوٹتے تواس کودیکھنے کے لئے گاؤں کے خواہ بچے ہوں یاجوان یابزرگ سب جمع ہوجاتے تھے ۔کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتارہتا،گھنٹوں مختلف موضوعات پرگفتگوہوتی تھی ۔ لیکن اب یہ حسین دورنگاہوں سے غائب ہوگیا ہے ۔پہلے گاؤں میں اگرکوئی بیمارپڑتاتھا تواس کی مزاج پْرسی کے لئے اس کے رشتہ داردوست واحباب، پڑوسی حتی کہ دورکے رشتے داربھی اس کے گھرپہنچ کرخیریت دریافت کرتے تھے ۔لیکن آج کے حالات کاجائزہ لیجئے توپتاچلے گا کہ محبت میں کتنی کمی آگئی ہے۔قلت وقت کابہانہ بناکر دنیاکی عارضی خوبصورتی میں لوگ کس قدرمحوہوگئے ہیں کہ قریبی رشتہ داربھی اگربیمارہے توان کے گھرجانے کے بجائے موبائل پرہی حالات دریافت کرنے کوترجیح دیتے ہیں ۔حالانکہ اسلام میں مریض کی عیادت کوبہت اہم بتایاگیاہے اور مسلمانوں کو اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
پہلے گاؤں میں اگرکوئی بیمارپڑتاتھا تواس کی مزاج پْرسی کے لئے اس کے رشتہ داردوست واحباب، پڑوسی حتی کہ دورکے رشتے داربھی اس کے گھرپہنچ کرخیریت دریافت کرتے تھے ۔
حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریمؐ کوفرماتے ہوئے سناکہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی صبح کے وقت عیادت کرتاہے توشام تک سترہزارفرشتے اس کے لیے رحمت ومغفرت کی دعاکرتے ہیں اورجوشام کے وقت عیادت کرتا ہے اس کے لیے سترہزارفرشتے صبح تک دعائے مغفرت کرتے ہیں اوراس کے لیے جنت میں ایک باغ ہے (ترمذی، ابوداؤد بحوالہ انوارالحدیث)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جوشخص بیمارکی عیادت کوجاتاہے توآسمان سے ایک منادی نداکرتاہے کہ تواچھاہے اورتیراچلنا اچھا ہے اورجنت کی ایک منزل کوتو نے (اپنا) ٹھکانابنا لیا (ابن ماجہ بحوالہ انوارالحدیث)۔عیادت کاطریقہ بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ رسول کائنات ؐ نے ارشادفرمایا: بہترین عیادت یہ ہے کہ مزاج پرسی کے بعد فوراً اٹھ جائے ۔علاوہ ازیں عیادت کے اوربھی بہت سے فضائل ہیں ۔مگرحیرت ہے ان مسلمانوں پرجوعیادت کرنے سے کوسوں دورہیں ۔
کوڑاپھینکنے والی عورت کاواقعہ:سرکاردوعالمؐ کے مبارک دورمیں ایک بوڑھی عورت جواس وقت تک دولت ایمان سے مشرف نہیں ہوئی تھی، روزانہ سرکاردوعالمؐ پرکوڑاڈالاکرتی تھی مگراللّٰہ کے رسولؐ نے نہ ہی راستہ تبدیل فرمایا اورنہ ہی اندازرفتاربدلا ۔ایک دن وہ بوڑھی عورت بیمارپڑگئی ۔رسول اللّٰہ کوجب اس بوڑھی عورت کی بیماری کی اطلاع ملی، سرکاران کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔وہ بوڑھی عورت دل ہی دل میں سوچنے لگی، آج یہ انتقام لینے آئے ہیں ۔ مگراس وقت اس بوڑھی عورت کی حیرت کی انتہانہ رہی، جب رسول اللّٰہ نے ارشادفرمایا کہ میں مزاج پْرسی کے لئے آیاہوں ۔اس بوڑھی عورت کے دل کی دنیابدل گئی، وہ سوچنے پرمجبورہوئی کہ جس ذات گرامی پرمیں عداوت کی بناپرکوڑاڈالاکرتی تھی، وہ اتنے مہربان ہیں کہ میری مزاج پْرسی کے لئے تشریف لائے ہیں ۔فوراً کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئی ۔
qq