واشنگٹن (ایجنسی): افغانستان میں تقریباً 20 سال تک جاری رہنے والا جنگی مشن امریکا کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ثابت ہوا جس میں اس کی اتحادی افواج نے بھی حصہ لیا۔11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر ہوائی جہازوں کی مدد سے ہونے والے حملے کے نتیجے میں تقریباً 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔جس کا الزام امریکا نے القاعدہ پر عائد کیا اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں اتحادی افواج بشمول نیٹو فورسز کے ساتھ افغانستان میں جنگ چھیڑ کر وہاں قائم طالبان کی سخت گیر حکومت ختم کردی تھی۔
تاہم 2 دہائی بعد اب جنگ ایسے وقت میں ہی اختتام پذیر ہوئی ہے کہ جب اقتدار کی باگ دوڑ دوبارہ طالبان کے ہاتھوں میں ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ’اے پی‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس جنگ کی ادائیگی کے لیے امریکا نے جتنی رقم کا قرض لیا ہے اسے امریکی شہریوں کی کئی نسلیں اتارتی رہیں گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) میں شامل ممالک کے علاوہ دیگر اتحادی ممالک نے بھی افغان جنگ میں امریکا کے ساتھ حصہ لیا تاہم امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔
صرف سال 2011 میں افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار تھی۔سال 2014 میں نیٹو نے رسمی طور پر اپنا جنگی مشن ختم کردیا تھا لیکن انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور افغان فوجیوں کی تربیت میں مدد دینے کے لیے 13 ہزار اہلکار وہاں موجود تھے۔اس کے علاوہ افغانستان میں بڑی تعداد میں پرائیویٹ سیکیورٹی کانٹریکٹر بھی تھے جس میں کانگریس کی ایک تحقیق کے مطابق سال 2020 کی آخری سہ ماہی تک 7 ہزار 800 امریکی شہری شامل تھے۔امریکا کی معروف ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول اور براؤن یونیورسٹی کی جنگی اخراجات کے منصوبے کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے افغان اور عراق جنگ کے لیے 20 کھرب ڈالر تک کا قرض لیا جس پر سال 2050 تک 65 کھرب ڈالر سود ادا کرنا پڑے گا۔
افغان جنگ کا قصہ، امریکہ کھربوں ڈالر کا مقروض
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS