ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو یہ خبر دی گئی کہ2013میں ہونے والے مظفرنگر فسادات سے متعلق77کریمنل مقدمات اترپردیش حکومت نے واپس لے لیے ہیں۔ مظفر نگر فسادات میں تقریباً ایک سو افراد قتل کیے گئے تھے، ایک لاکھ سے زائد مسلمان گھر سے بے گھر ہوئے تھے۔ سماج وادی پارٹی کی سرکار ضلع کے افراد کو تحفظ دینے میں پوری طرح ناکام ہوئی تھی۔ ان فسادات کے بعد کل510ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، اگر ہم ان510کریمنل مقدمات پر نظر ڈالیں تو گزشتہ آٹھ برسوں میں صرف175مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی ہے، جب کہ165مقدمات کو کلوزر رپورٹ لگاکر ختم کیا جاچکا ہے،170مقدمات کو خارج کردیا گیا ہے۔
حکومت کا یہ فیصلہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ321کے تحت لیا گیا ہے۔ دفعہ321کے تحت پبلک پراسیکیوٹر(جسے عام زبان میں سرکاری وکیل کہتے ہیں) عدالت کی باہمی رضامندی سے مقدمات واپس لیے جا سکتے ہیں، لیکن کچھ شرائط ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ مقدمات واپسی کا فیصلہ عقل و شعور کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ہونا چاہیے۔ رنبیر سنگھ بنام اسٹیٹ آف ہریانہ کے فیصلے میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ صرف پبلک پراسیکیوٹر کے کہنے پر ہی عدالت کو اجازت نہیں دینی چاہیے، پبلک پراسیکیوٹر کو اپنے دماغ کا استعمال کرنا چاہیے اور کسی بھی خارجی عوامل کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے، اگر ثبوت موجود نہیں ہیں اور پبلک پراسیکیوٹر غیرجانب دار ہے تو عدالت مقدمات کو واپس لینے کی اجازت دے سکتی ہے۔
مقدمات کی واپسی میں عدالت کے رول کو سپریم کورٹ نے عبدالکریم بنام اسٹیٹ آف کرناٹک میں واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ دفعہ321میں عدالت کا رول سپروائزری ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اجازت مانگنے پر ہی اجازت دے دینی ہے بلکہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ہی اہم امور پر باریکی سے غور کرے جن کی بنیاد پر پبلک پراسیکیوٹر یا حکومت اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کرکے مقدمات واپس لینا چاہتی ہے۔
کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ321یا اس تناظر میں سپریم کورٹ یا متفرق ہائی کورٹ کے فیصلوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو کہیں بھی کسی کو آزاد اختیارات فراہم نہیں کیے گئے ہیں، لیکن77مقدمات کی واپسی کا فیصلہ کسی بھی وجہ کو بیان کیے بغیر لیا گیا ایک فیصلہ ہے جس میں نہ تو پبلک پراسیکیوٹر نے اپنے عقل و شعور کی بنیاد کا فیصلہ کیا، نہ ہی حکومت نے کسی وجہ یا سبب کا تذکرہ کیا اور نہ ہی عدالت نے مقدمہ ختم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کا پاس و لحاظ رکھا۔ یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان مقدمات میں الزامات کی نوعیت سنگین قسم کی تھی جس میں فسادات کو بھڑکانا، دو طبقوں کے بیچ نفرت پیدا کرنا اور لوٹ مار و ڈاکہ زنی جیسے جرائم شامل تھے۔
سپریم کورٹ میں بحث سیاست دانوں(ایم پی، ایم ایل اے) کے جرائم میں ملوث ہونے اور ان کے خلاف زیرسماعت مقدمات میں سست رفتاری کو لے کر چل رہی تھی، پٹیشن سپریم کورٹ کے ہی ایک وکیل اشونی اپادھیائے کی طرف سے تھی جس کا مقصد پارلیمنٹ اور ودھان سبھاؤں میں داغدار اور کریمنل ریکارڈ کے حامل عوامی نمائندوں کو آنے سے روک تھام کے سلسلے میں تھی۔ اسی مفادعامہ کی درخواست پر سنوائی کے دوران عدالت کی جانب سے متعین وکیل نے ایک رپورٹ پیش کرکے یہ حقائق سپریم کورٹ میں پیش کیے ہیں۔ مظفر نگر فسادات کے دوران مہا پنچایت بلاکر اکثریتی طبقے کو اقلیتی طبقے کے خلاف اکسانے میں بی جے پی کے کچھ ایم پی اور ایم ایل اے پیش پیش تھے جن میں سنگیت سوم، سریش رانا، سادھوی پراچی اور بھرتینڈوسنگھ خاص ہیں۔ بی جے پی کے کل12لیڈران کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کی اجازت عدالت کے ذریعے دی گئی ہے۔ مقدمات واپسی کی یہ درخواست تقریباً ایک سال پہلے عدالت میں پیش کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق کرناٹک حکومت نے اپنے لیڈران کے خلاف درج کل62مقدمات واپس لیے ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے14مقدمات، تمل ناڈو حکومت نے 4 مقدمات، کیرالہ حکومت نے36مقدمات، اس کے علاوہ اتراکھنڈ اور مہاراشٹر حکومتوں نے بھی دفعہ321کے تحت ایم پی اور ایم ایل اے کے خلاف درج مقدمات واپس لیے ہیں۔ ایک بات تمام ہی حکومتوں کے ساتھ یکساں ہے وہ یہ کہ مقدمات کو رد کرنے کے اسباب و وجوہات کسی بھی حکومت نے بیان نہیں کی ہیں۔ اترپردیش حکومت ماضی میں بھی دفعہ321کے تحت تقریباً10مقدمات واپس لے چکی ہے۔
ہندوستان میں جرائم سے آزاد سیاست کے لیے تگ و دو کرنے والی تنظیم ’اے ڈی آر‘ کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں، 2019 کے عام انتخابات کے ذریعے کل 542 ممبران پارلیمنٹ راجدھانی دہلی پہنچے، ان میں سے 233ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کریمنل مقدمات درج ہیں،233میں سے 16ایم پی برسراقتدار سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، وہیں کانگریس کے29ایم پی کے خلاف کریمنل مقدمات زیرسماعت ہیں، ویسٹ بنگال سے منتخب ٹی ایم سی کے کل22ایم پی ہیں جن میں سے9کے خلاف مقدمات درج ہیں، بہوجن سماج پارٹی کے10میں سے 5 ایم پی پر مقدمات درج ہیں جب کہ سماجوادی پارٹی کے5 ایم پی میں سے2ایم پی کے نام مقدمات درج ہیں، بہار کی جنتا دل یونائیٹڈ کے کل16ایم پی ہیں جن میں سے13ایم پی کے خلاف ایف آئی آر درج ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے منتخب عوامی نمائندوں کی تعداد ہر لوک سبھا الیکشن کے بعد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اے ڈی آر کے اعداد و شمار کے مطابق2009کے لوک سبھا انتخابات میں کل543 ممبران پارلیمنٹ میں162ممبران کے خلاف کریمنل مقدمات تھے،2014کے عام انتخابات میں یہ تعداد 185 ممبران تک پہنچ گئی، جب کہ2019کے انتخابات میں کریمنل جرائم کے الزام میں ملوث ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 233 ہوگئی۔ اگر تناسب پر غور کیا جائے تو2009میں 30فیصد،2014 میں34فیصد اور پھر2019میں43فیصد ہوجاتے ہیں، یعنی 2024 میں داغدار ممبران پارلیمنٹ کی متوقع تعداد تقریباً 55فیصد ہوسکتی ہے، جب کہ مرکزی حکومت کے اکثر و بیشتر وزرا پر بھی کریمنل مقدمات زیر التوا ہیں۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، دستور اور قوانین کی روشنی میں تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں یکساں قرار دیا گیا ہے۔ قانون کا اطلاق اگر سیاسی یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہوگا تو یہ دستور کی روح کے خلاف ہوگا۔ دستور اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ اس وقت تک انصاف پر مبنی نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ سیاسی دخل اندازی سے پاک نہ ہوجائے۔ ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ آزادی سے لے کر آج تک فرقہ وارانہ طاقتیں ہمارے سماج میں نفرت کی سیاست کرتی رہی ہیں،لیکن اس نفرت کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم اور ہمارا سماج عدلیہ کی جوابدہی کے ساتھ ساتھ اپنی جواب دہی کے تئیں بھی سنجیدہ ہوگا۔ مظفرنگر فسادات کو ہوئے تقریباً9سال گزر چکے ہیں، ہماری جانب سے ان مقدمات کی پیروی کس قدر کمزور ہوئی ہے، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ہم اور ہماری سماجی تنظیمیں دہلی میں پریس کانفرنس کرکے سوشل میڈیا میں واہ واہی تو بٹور سکتی ہیں، لیکن فسادات میں متاثر ہوئے افراد کو انصاف نہیں دلا سکتی ہیں۔ انصاف کا مطلب ہے کہ متاثرین کو ان کے نقصان کے بقدر معاوضے کے ساتھ ساتھ مجرمین کو ان کے جرائم کی سزا ملے۔ سرکار اور عدلیہ کو ان کے فرائض کی یاد دہانی کرانا بھی سنجیدہ سماج کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن افسوس انتخابات میں وہی سیاست داں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو فرقہ وارانہ سیاست اور نفرت کی آگ کو زیادہ بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر قانون ان سیاست دانوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام رہا تو سماج ان کے جرائم سے محفوظ نہیں ہوسکتا ہے۔
[email protected]