شیخ عائشہ امتیازعلی ،ناگپاڑہ
امام شہد کی مکھی،مکڑ ی ،چیونٹی ،مچھلی ،مرغی ودیگراللہ چھوٹی مخلوقات اورحیوانات جن کوانسان رات ودن دیکھتاہے، ضرورت ہے کہ ان کے معمولات اورزندگی کی جدوجہد پرغورکیاجائے،ان میں عقل مندوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔قرآن مقدس میں ہے’’اور دیکھو تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اْونچی ٹٹیوں پرچڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے ّ بنا اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ‘‘(النحل:69-68)۔شہدکی مکھیاں دوردراز باغوں سے ایک ایک پھول سے رس چوس چوس کرانتہائی ایمانداری سے لاکر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہیں۔ ایک ماہر سائنسداںکی طرح جانتی ہیںکہ ان میں سے کچھ پھول زہریلے ہیں ان کے پاس نہیں جانا۔ایک قابل انجینئرکی طرح شہد اورموم کو علیحدہ علیحدہ کرنے کا فن بھی جانتی ہیں۔جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کوپگھل کر بہہ جانے سے بچانے کیلئے اپنے پروں کی حرکت سے پنکھاچلاکر ٹھندابھی کرتی ہیں۔موم سے ایساگھر بناتی ہیں جسے دیکھ کر بڑے سے بڑا انجینئر بھی حیرت زدہ ہے۔ لاکھوں کی تعدادمیں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہیں کہ مثال نہیں۔ ہرایک میں ایسا راڈارنظام نصب ہے کہ وہ دوردورنکل جاتی ہیں لیکن اپنے گھرکاراستہ نہیں بھولتیں ۔انہیں زندگی کے یہ طریقے کس نے سکھائے؟۔’وان فرش‘نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اْس مقام کی ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عام معنوں والا رقص نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد شہد کی کارکن مکھیوں کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ پھول کس سمت ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لیے انہیں کس انداز سے پرواز کرنی ہو گی۔ شہد کی مکھی کے بارے میں یہ ساری معلومات انسان نے جدید فوٹو گرافی اور دیگر پیچیدہ مشاہداتی ذرائع ہی سے حاصل کی ہیں۔ لیکن ملا حظہ فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں قرآن مقدس نے کتنی صراحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو خاص طرح کی مہارت عطا فرمائی ہے جس سے لیس ہو کر وہ اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے تلاش کر لیتی ہے۔ ایک اور توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں شہد کی مکھی کے لیے جو صنف استعمال کی گئی ہے، وہ مادہ کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غذا کی تلاش میں نکلنے والی شہد کی مکھی مادہ ہوتی ہے ،بالفاظ دیگر سپاہی یا کارکن شہد کی مکھی بھی مادہ ہی ہوتی ہے۔
مکڑااپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے ایسے جال بناتاہے کہ جدید ٹیکسٹائل انجینئر بھی اس بناوٹ کاایسا نفیس دھاگا بنانے سے قاصر ہیں ۔گھریلو چیونٹیاں گرمیوں میں موسم سرما کیلئے خوراک جمع کرتی ہیں، اپنے بچوں کے لئے گھربناتی ہیں۔ ایک ایسی تنظیم سے رہتی ہیں جہاں مینجمنٹ کے تمام اصول حیران کن حدتک کارفرما ہیں ،سوشل مینجمنٹ کے یہ اصول انہیں کس نے سکھائے ؟۔ٹھنڈے پانی میں رہنے والی مچھلیاں اپنے انڈے اپنے وطن سے ہزاروں میل دورگرم پانیوں میں دیتی ہیں لیکن ان سے نکلنے والے بچے جوان ہوکر ماں کے یہاں خود بخود پہنچ جاتے ہیں۔ زندگی کے گر انہیں کس نے بتائے ؟۔مرغی کے بچے انڈے سے نکلتے ہی چلنے لگتے ہیں۔ حیوانات کے بچے بغیرسکھائے مائوں کی طرف دودھ کے لئے لپکتے ہیں انہیں یہ سب کچھ کون سکھاتاہے؟۔ پرندوں کے دلوں میں کون محبت ڈال دیتاہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لاکر اپنے بچوں کے منہ میں ڈالیں ؟۔ زندگی کے یہ آداب انہوں نے کہاںسے سیکھے؟۔یہ تمام مثالیں ایسے لوگوں کے لئے سبق ہیں جو دنیا اور آخرت میں تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کے لیے اللہ کو چھوڑ کردوسروں سے امید لگا بیٹھتے ہیں۔ qq