پاکستانی ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کے معاملے پرنیا ایک نیا نام’جیولن جہاد‘

0

اسلام آباد/دہلی(بی بی سی) پاکستان کے اولمپک ایتھلیٹ ارشد ندیم نے انڈین ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی اس خبر کو بے بنیاد قرار دیا ہے کہ اُنھوں نے ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو مقابلے کے فائنل راؤنڈ میں انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا کا جیولن اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اپنی تھرو سے چند لمحے پہلے چوپڑا نے اُن سے یہ جیولن واپس لیا تھا۔یاد رہے کہ یہ دونوں ایتھلیٹس ٹوکیو اولمپکس کے جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں شریک تھے جس میں نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیتا تھا جبکہ ارشد ندیم نے پانچویں پوزیشن حاصل کی تھی۔
انڈیا میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نیرج چوپڑا اپنی تھرو سے پہلے ارشد ندیم کے پاس آتے ہیں اور اُن سے جیولن لیتے ہیں۔اس ویڈیو پر یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ارشد ندیم نیرج چوپڑا کا جیولن لیے گھوم رہے ہیں جو ان کے بدنیتی پر مبنی ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر ایتھلیٹ کے پاس اپنا تھرو مکمل کرنے کے لیے صرف ایک منٹ ہوتا ہے۔‘اسی طرح ٹائمز آف انڈیا نے بھی اس حوالے سے خبر لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’نیرج چوپڑا کو اپنا جیولن نہیں مل رہا تھا کیونکہ وہ ارشد ندیم نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔‘
اس اخبار نے نیرج چوپڑا سے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اُن کے مطابق وہ فائنل سے قبل اپنا جیولن تلاش کر رہے تھے مگر وہ اسے ڈھونڈ نہیں پا رہے تھے۔’اچانک میں نے ارشد ندیم کو میرا جیولن تھامے گھومتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان سے کہا، بھائی یہ جیولن مجھے دے دیں، یہ میرا جیولن ہے، میں نے اس سے تھرو کرنی ہے۔ پھر اُنھوں نے وہ مجھے واپس کر دیا۔‘اس خبر کے بعد انڈیا میں سوشل میڈیا پر طویل بحث شروع ہو گئی جس میں ارشد ندیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ لوگوں نے اسے’جیولن جہاد‘کا نام بھی دے دیا اور بھارتی اولمپک کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ ارشد ندیم کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروائے اور ان پر پابندی عائد کروائے۔
تاہم جمعرات کے روز نیرج چوپڑا نے اس حوالے سے اپنا موقف سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انٹرویو میں کہی گئی اُن کی سادہ سی بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام پلیئر اپنی ذاتی جیولن ساتھ رکھتے ہیں اور اسے استعمال کر سکتے ہیں۔
’اس میں کچھ غلط نہیں ہے کہ وہ (ارشد) جیولن لے کر تیاری کر رہے تھے جب میں نے اپنی تھرو کے لیے ان سے جیولن مانگا۔ یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میرا سہارا لے کر اس بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کی سب سے گزارش ہو گی کہ ایسا نہ کریں کیونکہ سپورٹس سب کو ساتھ مل کر چلنا سکھاتا ہے۔’ہم سبھی جیولن تھرور پیار سے رہتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی بات نہ کہیں جس سے ہمیں ٹھیس پہنچے۔‘
ارشد ندیم نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے ان تمام الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔ ارشد ندیم کہتے ہیں کہ ’ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کہ میں نے نیرج چوپڑا کا ذاتی جیولن اپنے پاس رکھ لیا ہو۔ اولمپکس اور دیگر انٹرنیشنل مقابلوں میں کوئی بھی ایتھلیٹ اپنا ذاتی سامان استعمال نہیں کرتا بلکہ یہ تمام سامان مقابلوں کے منتظمین فراہم کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ’جیولن تھرو کے فائنل راؤنڈ میں بھی بڑی تعداد میں جیولن وہاں رکھے ہوئے تھے اور ہر ایتھلیٹ کوئی بھی جیولن اٹھا کر اسے استعمال کر سکتا تھا۔‘
ارشد کے مطابق ʹمجھے نہیں پتہ کہ میرے ہاتھ میں جو جیولن تھا وہ نیرج چوپڑا اپنی پچھلی تھرو میں استعمال کر چکے تھے۔ اگر وہ ان کا پسندیدہ جیولن تھا، تب بھی میں نے اسے دانستہ طور پر اپنے پاس نہیں رکھا تھا۔اور میں ایسا کرتا بھی کیوں؟ اگر ایسا ہوا بھی تو یہ اتفاقیہ تھا لیکن میں دوبارہ واضح کر دوں کہ وہ جیولن کسی کا انفرادی اور خاص کر نیرج چوپڑا کا نہیں تھا۔‘
ارشد ندیم کا کہنا ہے’یہ کہنا بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ میں نے نیرج چوپڑا سے یہ کہا کہ جس جیولن سے اُنھوں نے گولڈ میڈل جیتا ہے وہ اُنھیں دے دیں۔ اس وقت ہر ایتھلیٹ کو اپنی فکر لگی ہوئی تھی، ایسے میں اس طرح کی بات کیسے ممکن ہے؟‘
ارشد ندیم کہتے ہیں’اولمپکس کے بعد میرا نیرج چوپڑا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے کیونکہ ہم دونوں اپنے اپنے طور پر مصروف رہے ہیں لیکن فائنل مقابلے کے اگلے روز نیرج چوپڑا مجھ سے ملے تھے اور اُنھوں نے مجھ سے یہ ضرور کہا کہ تم بھی میڈل جیت جاتے تو یہ بہت اچھا ہوتا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ محبت اور خلوص کے جذبات رکھتے ہیں۔‘
ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان کے صدر میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکرم ساہی نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈین میڈیا اس طرح کی بے سر و پا اور منفی خبریں اچھال کر صرف اپنی دکان چمکانا چاہتا ہے۔
’نیرج اور ارشد دونوں نے ٹوکیو اولمپکس میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے اُنھیں کسی تنازع میں الجھانا افسوس کی بات ہے۔ یہ دونوں غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل ایتھلیٹس ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘
اکرم ساہی کا کہنا ہے کہ جس واقعے میں ارشد ندیم کو ملوث کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’یہ بات سب جانتے ہیں کہ اولمپکس میں استعمال ہونے والے ساز و سامان انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے منظور شدہ ہوتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS