کابل (ایجنسی):جب 1996 میں طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان وہ تین ممالک تھے جنھوں نے سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے چند روز بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغانستان میں (لوگوں) نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھوں نے ’صدر غنی اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر اپنے ملک میں خوش آمدید کہا ہے۔‘
تاہم متحدہ عرب امارات نے اب تک افغانستان میں طالبان کے قبضے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔سعودی عرب کی حکومت نے اس پورے معاملے پر صرف اس حد آگاہ کیا ہے کہ افغانستان سے اس کے تمام سفارتکار بحفاظت ریاض واپس آ گئے ہیں۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزارت خارجہ نے (سفارتکاروں کو واپس بلانا) یہ فیصلہ افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال کے پیش نظر کیا ہے۔لیکن اس کے علاوہ سعودی عرب نے پورے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک ہفتے بعد گذشتہ پیر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی وزیر خارجہ سے فون پر بات کی تھی۔ اس حوالے سے سرکاری سطح پر فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ طالبان کے حوالے سے کیا بات چیت ہوئی۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب جو سنہ 1996 میں طالبان کے ساتھ تھا، آج اتنا خاموش کیوں ہے؟
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ افغانستان میں صورتحال اتنی جلدی تبدیل ہوئی کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے تقریباً سارے ممالک ابھی ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر گامزن نظر آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ پاکستان پڑوسی ملک ہے تو اس وجہ سے کسی حد تک اس کا نمایاں کردار نظر آ رہا ہے۔طالبان افغانستان تنازعے میں سعودی عرب سمیت کون سا اسلامی ملک کس کے ساتھ ہے؟ان کے مطابق ماضی میں سعودی عرب کے طالبان کے ساتھ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی حوالگی سے متعلق بے نتیجہ مذاکرات تلخیوں کا باعث بنے تھے۔ تاہم ان کے مطابق اب طالبان کی نظریاتی سمت میں بھی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ اب ’سعودی عرب بدل چکا ہے اور اس کی سوچ میں بھی مکمل تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔‘تاہم ان کے مطابق یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ اب 20، 25 سال پہلے والے طالبان بھی نہیں رہے جن پر سعودی عرب کے گہرے اثرات تھے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہا کہ اب طالبان اور سعودی عرب کے درمیان وہ گرمجوشی نہیں رہی جو طالبان کے پہلے دور حکومت میں نظر آتی تھی۔
ان کے مطابق بظاہر اب یوں لگتا ہے کہ طالبان کے لیے ’قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔‘ان کے خیال میں جس شہر کو طالبان نے اپنا سیاسی ہیڈ کوارٹر بنائے رکھا (یعنی دوجہ)، سعودی عرب کو تو ’اس نام سے بھی گھن آتی ہے۔‘
سعودی عرب میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک صحافت کرنے والے تجزیہ کار راشد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ عرصے میں سعودی عرب میں بڑی زبردست تبدیلی واقع ہو چکی ہے مگر یہ صرف قیادت کی تبدیلی نہیں بلکہ مکمل سوچ کی تبدیلی ہے۔راشد حسین کے مطابق ’اُس وقت سعودی عرب پین اسلام ازم کی راہ پر گامزن تھا اور اس نے اپنے انتہا پسند عناصر کو افغانستان کی طرف راغب کیا تھا جبکہ آج سعودی عرب میں محمد بن سلمان ہیں جو اپنے آپ کو ایک عملیت پسند لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں، اگرچہ ان کے اس تاثر کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے بہت دھچکا پہنچا۔‘کابل میں پاکستان کے سابق سفیر ابرار حسین کے خیال میں سعودی عرب ’تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘ کی پالیسی پر گامزن نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق ’بظاہر پورا گلف ہی مغرب کی طرف دیکھ رہا ہے جبکہ اس بار چین، روس اور ایران طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔‘ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل ’پاکستان اور افغانستان کے علما کے نمایاں وفود افغانستان میں اتفاق رائے کے حوالے سے سعودی عرب ضرور گئے تھے مگر اس کے علاوہ سعودی عرب کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ سعودی عرب کیسے مکمل طور پر ایک نئی ڈگر پر ہے، ابرار حسین کا جواب تھا کہ ’آج سعودی عرب جہادی عناصر سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس کے لیے اسرائیل اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ اس وقت ایران کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب آگے آگے نظر آتے ہیں۔‘