افغان میں عدم استحکام کا بڑھتا خطرہ

کابل میں عدم استحکام جتنا زیادہ وقت تک رہے گا، اتنا خطرناک ہوگا

0

لیفٹیننٹ جنرل ایس اے حسنین

امریکی صدر جو بائیڈن بھلے ہی بغیر کسی سیزفائر اور معاہدہ کے افغانستان سے فوج ہٹانے کو صحیح قرار دیتے رہیں، لیکن امریکیوں کے ذریعہ دکھائی گئی فوجی نااہلی تاریخ میں سب سے بڑے ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ایک کے طور پر درج ہوگی۔ وہیں افغان نیشنل سکیورٹی فورسز (اے این ایس ایف) بھی نااہل، حوصلہ شکن اور بری قیادت والی ثابت ہوئی ہیں۔ پھر بھی امریکی فوجی کمانڈروں کی اہلیت پر سوال اٹھتا ہے۔ بیشک اس کا دوسرا پہلو بھی ہے، جہاں اے این ایس ایف نے گزشتہ کئی برس جوش کے ساتھ جنگ کی اور پھر شاید اس کے کمانڈروں نے امریکہ کی معلومات کے بغیر معاہدہ کرلیا۔ جو بھی ہو، یہ انٹلیجنس کی خامی ہے، وہ بھی آپریشنل اور اسٹرٹیجی کی سطح پر۔ اس سے متعلق بھی باتیں ہورہی ہیں کہ امریکہ نے خفیہ طور پر طالبان سے معاہدہ کرلیا۔ یہ پوری طرح سے ناممکن لگتا ہے کیوں کہ اربوں ڈالر کے مہلک ہتھیار داؤ پر تھے، ایسے میں کوئی بھی امریکی لیڈر انہیں کبھی بھی شدت پسند عناصر کے ہاتھوں میں پڑنے کے لیے نہیں چھوڑے گا۔ کم سے کم امریکہ پاکستان پر فوری ردعمل کے لیے کچھ ہوائی ٹھکانے دستیاب کرانے کے لیے زور دے سکتا تھا۔ یہ حالات کبھی نہ ہوتے، اگر امریکیوں نے پاکستان کے ڈیپ اسٹیٹ کے ساتھ سختی برتی ہوتی۔ طالبان کا پورا ڈرامہ وہاں سے نکلنے کی بری حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے۔
افغان کے بارے میں آرہی خبریں تشویشناک ہیں۔ کابل میں استحکام قائم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ طالبان تبدیلی کی دکھاوٹی شبیہ و لبرل رویہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اسے پبلک ریلیشن کافی پہلے بہترکرنے تھے۔ لوگ بربریت کے ساتھ طالبان کو نہیں قبول کریں گے۔ وہ کئی برس آزادی کے بعد افغان نوجوانوں کو نہیں دبا سکتے۔ اس سے بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ حکومت چلانے میں ملنے والی مدد کے امکانات ختم ہوں گے۔ وہاں ابھررہی تحریکوں کی حمایت میں پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔ پنجشیر تحریک سے افغانستان کے لیے امید پیدا ہوئی ہے۔ حالاں کہ اسے باہری مدد کی ضرورت ہوگی۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا یہی سب سے مناسب وقت ہے کیوں کہ زیادہ تر ممالک کے مفاد وابستہ ہیں لیکن بین الاقوامی جغرافیائی سیاست اس کی کبھی اجازت نہیں دے گی۔ چین اور روس طالبان سے کچھ تعلق رکھنا چاہیں گے تاکہ وہ اپنے اثر والے علاقوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں کو روک سکیں۔ امریکہ بھی شاید اس شعبہ سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ نہ کرے۔ یہاں کا عدم استحکام مشرق وسطیٰ تک بھی پہنچ سکتا ہے، جہاں امریکہ کے گہرے مفاد ہیں۔ ہندوستان کے لیے ان کچھ ممالک سے وابستہ رہنا ضروری ہے جن کا ابھی افغانستان میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔

اگلی بڑی تشویش ماحول میں انارکی ہے۔ بغیر حکومت کا ملک اور سڑکوں پر انارکی پھیلانے والے عناصر کی موجودگی کا مطلب ہے جرم اور دہشت سے وابستہ عناصر کا داخلہ۔ 2011میں امریکہ کی نظر ہٹنے پر عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کے عروج کے بعد ایسا ہی ہوا تھا۔ زیادہ تر دہشت گرد گروپ فزیکلی موجود نہ ہوں لیکن ورچوئلی منسلک ہیں۔ اس شعبہ میں مخلوط نظریاتی جنگوں کے پھیلنے کی بہت گنجائش ہے۔ نشہ کے غیرقانونی کاروبار کے سبب مالی کمی(فائنانس) بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اب سستے ہتھیار دستیاب ہیں۔ امریکہ کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ اس کی زمین پر پھر سے دہشت گردانہ حملہ میں افغان کی زمین کا استعمال نہ ہو۔ لیکن یہ شاید ہی حاصل ہو، جب تک کہ القاعدہ-کور، اسلامک اسٹیٹ(صوبہ خراسان)، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، تحریک طالبان-پاکستان، جیش، لشکرطیبہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان جیسے مشہور دہشت گرد گروپ خالی کی گئی بغیر امریکی اثر والی جگہ پر موجود رہیں گے۔ اس موجودگی میں چین، روس اور ہندوستان وپاکستان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ عدم استحکام جتنا زیادہ وقت تک رہے گا، یہ نیٹ ورک اتنے مضبوط ہوں گے۔ پاکستان کا بھلے ہی کچھ عناصر پر کنٹرول ہو، لیکن آخرکار یہ بھی متاثر ہوگا۔ ماضی میں اس نے یہ دکھا کر دوستانہ اورغیردوستانہ دہشت گردوں کا کھیل کھیلا ہے، یہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔ اس سے اسے جموں و کشمیر میں طالبان کے عناصر کی مدد سے اپنا مشن جاری رکھنے کی بنیاد مل سکتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا یہی سب سے مناسب وقت ہے کیوں کہ زیادہ تر ممالک کے مفاد وابستہ ہیں لیکن بین الاقوامی جغرافیائی سیاست اس کی کبھی اجازت نہیں دے گی۔ چین اور روس طالبان سے کچھ تعلق رکھنا چاہیں گے تاکہ وہ اپنے اثر والے علاقوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندانہ سرگرمیوں کو روک سکیں۔ امریکہ بھی شاید اس شعبہ سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ نہ کرے۔ یہاں کا عدم استحکام مشرق وسطیٰ تک بھی پہنچ سکتا ہے، جہاں امریکہ کے گہرے مفاد ہیں۔
ہندوستان کے لیے ان کچھ ممالک سے وابستہ رہنا ضروری ہے جن کا ابھی افغانستان میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ان میں روس، تاجکستان، ازبکستان، ایران اور قطر شامل ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای سے جڑے رہنا بھی ضروری ہے، جن کی اہمیت کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
(مضمون نگار کشمیر میں پندرہویں کور کے سابق کمانڈر ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS