— قسیم اظہر
’ابھی سیارگاں روشن رہیں گے‘ انور شمیم کی تازہ آزاد نظموں کا مجموعہ ہے ، جو ہندوستان میں کسوٹی پبلیکیشن سے شائع ہوا ہے۔ گو کہ پاکستان میں یہ مجموعہ ابھی تک ناپید ہی ہے مگر بہت جلد وہاں بھی دست یاب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ واضح کردوں کہ تخلیقی کائنات میں آزاد نظموں کا رواج کافی دنوں سے چلا آرہا ہے۔ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی زبان میں یہ آپ کو پڑھنے کو مل جائیں گی۔ مگر انور شمیم کی تمام نظمیں روایتی بندشوں سے آزاد ایک علیحدہ دنیا کے علیحدہ انسان کے لیے تخلیق عمل میں آئی ہیں۔
مجموعے کا انتساب ’شہر پر آشوب کے نام‘ ہے اور اسے دیکھ کر سودا یاد آگئے کہ جب دلی اجڑی تو اردو شاعروں کا دبستان بھی اجڑ گیا۔ کچھ نے تو اپنی یا اردو کی آبرو بچانے کے لیے لکھنؤ میں پناہ لے لی مگر دبستان دلی کے شاعروں میں ایک سودا ہی تھے ، جو آخر تک وہیں رہے۔ اور انہوں نے شہر آشوب لکھ کر تباہ شدہ دلی کا مذاق بھی اڑایا اور دلی صدمہ اور تاسف کا اظہار بھی کیا لیکن یہاں کوئی دبستاں اور کوئی محفل نہیں ہے۔ تاہم شہر پر آشوب کے ریگستانوں میں اداسیوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا رقص ضرور ہے۔ اور کمال یہ کہ یہاں نا امیدی کے کاغذ میں لپٹے سودا کے صرف قہقہے نہیں آنسو بھی ہیں کہ یہ شہر پرآشوب بن جائے۔
ایک نظم ’خموشی بولتی ہے‘کا تراشہ دیکھیے جس میں شاعر ، فوت شدہ قوت سماعت اور فقدان دیدنی کے ذریعے خموشی کا فلسفہ تراشتا ہے کہ ایک اندھے اور سماعت سے محروم انسان کے یہاں ہماری وحشت زدہ کائنات کیسی ہوگی۔
’نہ اب کچھ دکھ رہا ہے
نہ ہم کچھ سن رہے ہیں
کڑکتی ہیں چٹانیں
کہ کشتِ زرد کو روئے ہوئے دہقاں
درختوں سے لٹکتے ہیں
کہ کوئی بھیڑ گل داروں کی
چیخوں کے گلوں میں
ناخنوں کی برچھیاں گاڑے
گزرتی ہے
کہ کوئی شور اٹھتا ہے
سنائی کچھ نہیں دیتا
دکھائی کچھ نہیں دیتا
سنو جاناں … !
خموشی بولتی ہے۔‘
(ابھی سیارگاں روشن رہیں گے)
انور شمیم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ شاعر ہو یا ادیب اسے وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اگر وہ وقت کو نظر انداز کرے گا تو وقت بھی اسے کسی گمنامی کے پردے میں چھپاکر کہیں بہت دور پھینک دے گا۔ اسی لیے ان کی یہ نظم ، ہجر و صال زندگی اور موت کی کرب انگیزیوں سے قطع نظر فطرت کے پر نور مناظر میں سرسراتے خدا کی تصویر کو قید کرلیتی ہے۔
’دھنک تتلی .. شفق بادل .. ہوا خوشبو
سبک دریا .. سکوت کوہ
میدانوں میں ہاؤ ہو
مسام جاں میں کیا کیا مشک پارے
گا رہے ہیں
مظاہر جلوۂ جاناں میں سارے
آرہے ہیں ، جارہے ہیں
خدا کا کلمہ سارے گا رہے ہیں
خدا سارے بدن میں سرسراتا
اپنا کلمہ پڑھ رہا ہے
لا الہ
لا الہ۔‘
(ابھی سیارگاں روشن رہیں گے)
مگر جبر و استبداد کے کچھ لہو رنگ مناظر ہیں جو فطرت سے مجھے مایوس کرتا ہے کہ کہیں فطرت فریب تو نہیں؟ اگر دھنک تتلی ، شفق بادل اور ہوا خوشبو فطرت کے حصے ہیں تو زخم سے رستے لہو ، پھندے ، زنجیر اور صلیب والے مناظر اس کے حصے کیوں نہیں؟ اگر ہیں تو یہ ہمیں خوفزدہ کیوں کرتے ہیں۔ صلیبوں پر جھولتے برہنہ جسم میں خدا کی سرسراہٹ کیوں رک جاتی ہے؟
’کہ وہ جو صبح آنی تھی
لہو صدقے میں لے کر
وہ کوئی خواب تھا
جس خواب کی تعبیر الٹی ہے
نہ پھندے ہی گلے کے
نہ زنجیریں کٹی ہیں
بدن اب بھی
صلیبوں پر ٹنگے ہیں
ابھی ڈائر کے مرنے کی خبر کوئی نہیں ہے
ابھی بھی باغ جلیاں
جبر کے گھیرے میں سہما ہے۔‘
(ابھی سیارگاں روشن رہیں گے)
نظموں کی پہلی ہی قرأت میں یہ احساس ہوتا ہے کہ انور شمیم کی تخلیقی کائنات کا افق ، بہت دور تک پھیلا ہوا ہے اور سنجیدہ قاری کی فہم تک آسان ترسیل بھی۔ علامتی رنگوں سے مزین تشبیہات ، استعارے اور لہو رنگ لفظوں میں غرقاب رنج و محن کی یہ تصویریں آپ کو بار بار کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں رومانیت کے چاند ستارے بھی ہیں۔ وقت کا سفاک نوحہ بھی۔ ہجر و صال کے بے آواز نغمے بھی۔ زندگی اور زندگی جینے والوں کے فلسفوں کا سبز و سرخ صحرا بھی۔
ان سب کے بیچ انور شمیم کا تخیل اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ کبھی وہ اداس ہوکر لکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ کبھی فلسفہ جینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور کبھی دور تک پھیلی ہوئی ہماری کائنات کو وہ اندھے کی آنکھ سے دیکھنا اور بہرے کے کان سے سننا پسند کرنے لگتا ہے۔ مگر کیوں؟ وہ یہ بھی نہیں جانتا۔ جیسے خسرو نہیں جانتے کہ گزشتہ شب ان کی کہاں گزری۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل شب جائے کہ من بودم
خسرو عاشق بھی تھے۔ شاعر بھی۔ صوفی بھی۔ انور شمیم بھی عاشق ہے۔ شاعر بھی۔ مگر صوفی نہیں۔ تاہم صوفیت کی جگہ اس کے اندر بغاوت کی کچھ چنگاریوں نے لے لی ہے۔ اور اپنی نظموں میں وہ باغی زیادہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی کائنات نے اسے وہ مقام آج تک نہیں دیا ، جس کا وہ مستحق تھا۔ اسے بغاوت ہے سماج میں لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والی مہمل بندشوں اور بے معنی رسوم سے۔ اسے بغاوت ہے اقلیتوں پر ہونے والے ہر ظلم وستم سے۔
’ کماندارو!
چھلکتے سیال سرخ پیالے لیے جو ہاتھوں میں
جشن شب خون منارہے ہو
تمہیں پتا ہے__
جدھر سے تم سب ہوا میں اڑتے گزر گئے ہو
وہاں کی کتنی زمین محور سے ہٹ گئی ہے
وہاں کا کتنا فلک کناروں سے کٹ گیا ہے
زمیں پہ اترو
مرے نشان قدم پہ اپنے قدم جمائے
دیار گریہ میں داخلہ لو
تو میں دکھاؤں
دیار گریہ میں کیا تقدّس مآب ذرّے
ابد لبادوں سے زخم ڈھانپے
کہاں کہاں پہ پڑے ہوئے ہیں۔‘
(ابھی سیارگاں روشن رہیں گے‘میں شامل یہ ایک طویل نظم ہے)
مگر یہ عقدہ کسی سنجیدہ قاری پر ہی کھل سکتا ہے کہ انور شمیم کو ادبی کائنات میں وارد ہونے والی روایتوں سے بھی تھوڑی بہت بغاوت ہے کہ وہ فنی روایتوں کو توڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی دنیا میں ابہام اور اشاریے کی گونج بہت تیز سنائی پڑتی ہے ، جو کم فہم قاری کو بہت زیادہ بوجھل بھی کرسکتی ہے۔
اس کے باوجود بھی انور شمیم کی نظموں کی یہ دنیا مجھے کہیں اور نہیں نظر آتی۔ کیوں کہ یہاں وقت کا جمود نہیں ہے۔ وقت کا سفر جاری رہتا ہے۔ ستاروں سے خالی خالی آسمان میں سیہ رات کی اذیت کا عکس کسی زندہ اژدہے کی خوفزدہ کردینے والی آواز سے پھنکارتا ہے۔ دو منظر ایک منظر میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور شاعر کو یقین ہے کہ
’کسی اک دانۂ جوہر کے پھٹنے سے
دھڑکتی بستیوں کے
راکھ ہونے کا کوئی امکاں نہیں ہے۔‘
اور یہی امکان ہے, جو باقی ہے تو زندگی بھی باقی ہے اور سیارگاں روشن رہیں گے۔
اور سب سے بڑی بات ، جو میں بدون کسی خوف و تعجب کے کہنا چاہوں گا کہ اس مجموعے کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا ندرت اسلوب ہی کافی ہے کہ انور کی یہ نظمیں ہزاروں ٹن کاغذوں کے نیچے دب کر کہیں کھو بھی جائیں تو قاری انہیں ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔